
مفتی عبدالمنعم فاروقی
صفائی وستھرائی اور طہارت وپاکیزگی سلیم الطبع انسان کی پہچان اور کسی بھی سنجیدہ شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے، صفائی ستھرائی، پاکیزگی ونظافت سے انسان کے مزاج ومذاق اور ذوق سلیم کا اندازہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فطرت میں پاکی وصفائی ودیعت فرمائی ہے اور اسی صفائی ستھرائی میں انسان کی صحت مند ی وتندرستی کو پوشیدہ رکھا ہے، پاکی وصفائی اور طہارت و نظافت انسانوں کو فرشتوں کے مشابہ بنادیتی ہے اور پاک صاف آدمی اپنے صفائی وستھرائی کی وجہ سے فرشتوں کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے اور عوماً لوگ بھی ایسے آدمی کو فرشتوں سے تشبیہ دیتے ہیں،وجہ ظاہر ہے کہ فرشتے جہاں گناہوں سے دور رہتے ہیں بلکہ ان میں گناہ کرنے کا مادہ ہی نہیں ہوتا وہیں وہ پاکیزہ مخلوق ہیں اور پاکیزگی کو ہی پسند کرتے ہیں،اس کے مقابلہ میں شیاطین وابلیس گندے اور پلید مقامات پر ہوتے ہیں،احادیث مبارکہ میں اس کی صراحت ملتی ہے،رسول اللہ ؐ نے بدبودار چیز یں کھاکر مسجد میں جانے سے منع فرمایا ہے، کیوں کے وہاں فرشتے رہتے ہیں اور انہیں بدبو سے تکلیف ہوتی ہے،بیت الخلاء میں جانے سے قبل دعا پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے کیوں کہ وہاں خبیث جنات وشیاطین رہتے ہیں،دعا پڑھنے والے کو ان کے شر سے محفوظ رکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے،وہ بہت پاک ہے اور اپنے بندوں کو بھی پاک صاف رہنے کا حکم دیتا،اسے اپنے بندوں میں وہ بندے بہت پسند ہیں جو کفر وشرک کی گندی سے پاک صاف ہیں اور اپنے قلب کے ساتھ اپنے جسم ولباس بھی پاک رکھتے ہیں،اس نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کو صاف ستھرا رہنے اور اپنے لباس وپوشاک کو پاک و صاف رکھنے کا حکم دیا ہے اور پاک وصاف رہنے والوں سے اپنی چاہت کا اظہار فرمایا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتے ہیں“ (البقرہ:۲۲۲) قرآن مجید میں ایک مقام پر تو صاف ستھرا رہنے والے بندوں کو اپنا دوست قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:ْ ”اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے“ (التوبہ:۱۰۸)،رسول اللہؐ نے اہل ایمان کو پاکی صفائی کی طرف باربار اور موقع بموقع توجہ دلائی ہے، ایک موقع پر صفائی،ستھرائی اور نظافت وپاکیزگی کی اہمیت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”پاکی صفائی آدھا ایمان ہے“ (مسلم:۲۸۲۲) چنانچہ محدثین ؒ فرماتے ہیں کہ اس جگہ آپ ؐ نے ایمان وعمل کے ذریعہ باطن کی پاکیزگی کو نصف ایمان اور طہارت ونظافت کے ذریعہ جسم کی ظاہری گندگی کی پاکیزگی کو ایمان کا بقیہ نصف قرار دیا ہے،گویا ایمان کی تکمیل کے لیے ظاہری وباطنی دونوں طرح کی پاکیزگی ضروری ہے،ایک حدیث میں آپ ؐ نے اسلام کو نہایت پاکیزہ مذہب بتاتے ہوئے اس کے ماننے والوں کو پاک صاف رہنے کی تلقین فرما ئی اور آگے ارشاد فرمایا کہ جنت میں داخلہ کا حقدار تو وہی شخص ہو سکتا ہے جس میں پاکی صفائی کی صفت پائی جاتی ہے۔ (کنز العمال:۲۶۰۰۱)۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اسلام نے صرف انسانوں کو پاک صاف رہنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ انسانوں کا جن چیزوں سے تعلق ہے یا جن سے سابقہ پڑتا ہے، ان تمام چیزوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا، مثلاً مکان ودکان، مسجد ومکتب،گلی ومحلہ اور بازار وسڑک وغیرہ، نیز میلا کچیلا رہنے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو گندہ کرنے والوں کو سخت انداز میں متنبہ کرتا ہے اور ان کے اس عمل کو ایمان کامل کے منافی قرار دیتا ہے، حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ہمارے یہاں کسی سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک صاحب گرد وغبار میں اٹے ہوئے ہیں،بال بکھرے ہوئے ہیں،توآپ ؐ نے ارشاد فرمایا ان کے پاس کنگھا نہیں جس سے بال درست کر لیتے،نیز آپ ؐ نے ایک شخص کو میلے کپڑوں میں ملبوس دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ: ان کے پاس کوئی ایسی چیز (صابن وغیرہ) نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھولیتے؟(ابودؤد:۴۰۶۲)، آپ ؐ نے نہ صرف خود کے صاف ستھرا رہنے کی طرف توجہ مبذول کروائی بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف و شفاف بنائے رکھنے کی تعلیم وترغیب دی اور ایسے ہر عمل سے دور رہنے کی تلقین فرمائی کہ جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو، خاص کر اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دینے اور انہیں ایذا پہنچانے والوں کے لئے نہایت سخت لب و لہجہ استعمال کرتے ہوئے ان سے ناراضگی ظاہر فرمائی،ایک موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا،صحابہ ؓ نے گھبراکر پوچھا اے اللہ کے رسول ؐکون؟ تو فرمایا: ”وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی ایذا کوشی اور تکلیف رسانی سے محفوظ نہ ہو“ (بخاری:۵۶۷۰) اسی طرح آپؐ نے راستے، بازار،سایہ دار درخت اور لوگوں کے بیٹھنے کے مقامات پر گند گی پھیلانے اور تکلیف دینے والی چیزوں کے ڈالنے کی سخت الفاظ میں ممانعت فرمائی ہے،چنانچہ آپ ؐ نے راستوں پر قضائے حاجت کرکے گندگی پھیلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے،ارشاد فرمایا: لعنت کی دوچیزوں سے بچو! ان میں سے ایک وہ ہے جو لوگوں کے راستے میں یا ان کے سایہ میں قضائے حاجت کرے (مسلم: ۲۶۹)، بر خلاف انسانیت کی مدد ونصرت اور ان سے درد و تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا نہایت عمدہ خصلت اور قابل قدر عمل ہے،اسلام میں انسانیت کی خدمت،مدد ونصرت اور تکلیف دہ چیزوں سے بچانے کی سعی کرنے والوں کی مدح سرائی کی گئی ہے،ایک موقع پرآپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں، ان میں سے اعلیٰ ترین شعبہ لا الٰہ الا اللہ کہنا اور ادنیٰ ترین شعبہ راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کرنا ہے (مسلم:۵۸)، اسلام اور پیغمبر اسلام ؐ کی یہی وہ اعلیٰ ترین اور حسین ترین تعلیمات ہیں جس نے انسانوں کے دلوں کو موہ لیا ہے، خود دشمنان اسلام بھی اسلام کی خوبیوں اور اس کی بے مثال تعلیمات کے معترف ہیں، وہ جب یہ منظر دیکھتے ہیں کہ مسلمان جب بھی نماز کے ذریعہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوتا ہے تو ہاتھ،منہ دھو کر اور باوضو ہوکر ہی حاضر ہوتا ہے اور جب اس کی وفات ہوجاتی ہے تو بھی پہلے اس سے گندگی دور کی جاتی ہے،پھر نہلایا جاتا ہے اور پھر نہایت صاف ستھرا لباس پہناکر تب اسے قبر میں سلایا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے سال میں دو دن عید کے مقرر فرمائے ہیں،ایک عیدالفطر جو یکم شوال کو منائی جاتی ہے اور دوسرے عید الاضحی جو دس ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے،عید الاضحی کے موقع پر رسول اللہ ؐ نے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر مخصوص جانوروں کی قربانی کو لازم قرار دیا ہے،دراصل قربانی اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم ؑ اور ان کے فرماں بردار فرزند ارجمند سیدنا اسمٰعیل ؑ کی یاد گار ہے،چنانچہ پوری دنیا میں مسلمان حکم خداوندی کی تعمیل میں کثیر تعداد میں جانوروں کی قربانی دیتے ہیں اور قربانی کا سلسلہ تین دنوں تک جاری رہتا ہے، لوگ بڑے شوق وذوق سے قربانی کے چھوٹے بڑے جانور خریدتے ہیں اور نہایت اہتمام اور خوش دلی سے اس کی قربانی کرتے ہیں،یقینا قربانی ایک مہتم بالشان عمل ہے اور بلاشبہ بڑے شوق وذوق سے مسلمانوں کو قربانی کرنی بھی چاہیے،مگر عموماً قربانی کے دنوں میں بہت سے مسلم محلوں میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ قربانی تو کرتے ہیں لیکن صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام نہیں کرتے جس کی وجہ سے قربانی کے بعد گھروں کے باہر جانوروں کا خون ملا ہوا پانی بہتا رہتا ہے، کوڑے دانوں کے اطراف، گلی کوچوں کے کناروں پر اور بعضے جگہ سڑکوں پر تک جانوروں کے فضلات،ہڈیاں اور دیگر غیر استعمال کی چیزیں بکھریں ہوئیں نظر آتی ہیں،جسے دیکھ کر سخت کراہیت اور ناگواری محسوس ہوتی ہے، جو لوگ ان مقامات سے گزر تے ہیں ان کا بدبو سے بُرا حال ہوتا ہے،وہ اپنی ناک پر کپڑا رکھ کر تیزی سے گزرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اس سے راہگیربڑی تکلیف محسوس کرتے ہیں اور فطری بات ہے کہ گندی اور بدبو اور تعفن دیکھ کر آدمی کا سر چکراجاتا ہے اور اسے بڑی اذیت ہوتی ہے مگر ان کی تکلیف کی طرف عموماً عام لوگوں کا خیال نہیں جاتا اور خاص کر وہ لوگ جو اپنے اردگرد سال بھر صفائی کا اہتمام نہیں کرتے انہیں تو بالکل بھی اس کا احساس نہیں ہوتا، محلے کے بعض سنجیدہ قسم کے لوگ یا راہ چلنے والے اگر ہمت کرکے دبے الفاظ میں اس بات کی شکایت کر تے ہیں تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق انہیں ہی کھری کھوٹی سنائی جاتی ہے اور ان پر سخت برہمی کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ بعض نادان تو اپنی غلطی اور کوتا ہی کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کے سر پر قربانی کے مخالف ہونے کا الزام تھوپ دیتے ہیں، اس پر سخت قسم کے فقرے کسے جاتے ہیں،وہ بے چارہ ان نادانوں کی حرکتوں پر حیرت میں پڑ جاتا ہے اور وہاں سے سر جھکائے خاموشی سے نکل جاتا ہے،اُسے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان عقل کے اندھوں اور صفائی کے دشمنوں کو کس طرح سمجھائیں کہ جس طرح قربانی کرنا عبادت ہے اسی طرح صفائی ستھرائی بھی ایک عبادت ہے اور جس طرح قربانی کا عمل واجب ہے اسی طرح لوگوں کو ایذا پہنچانے سے بچنا بھی واجب ہے، تعجب ہے لوگوں پر کہ وہ خوشی خوشی قربانی تو کرتے ہیں مگر لوگوں کو تکلیف دے کر خدا کو ناراض کرکے اپنی خوشی اور ثواب پر پانی پھیر دیتے ہیں،کیسی عجیب بات ہے کہ ایک جانب تو صاحب قربانی جانور کی قربانی دے کر ڈھیر ساری نیکیاں حاصل کرتا ہے مگر دوسری طرف گندگی و تعفن پھیلا کر لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرکے خود کو گناہگار بنالیتا ہے،اسے یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جہاں وہ قربانی کے ذریعہ نیکیاں کمارہا ہے وہیں گندگی پھیلا کر اپنی نیکیوں کو ضائع کر رہا ہے۔
ہندوستان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا دیش ہے اور اس کے بہت سے بلکہ تقریباً ہی شہروں اور ان کے محلے جات میں مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں،ایسے شہروں اور محلوں میں خصوصاً عید وتہواروں کے موقع پر ایک دوسرے کا لحاظ کرنا ضروری ہے،ایک دوسرے کی رعایت ہی سے محبت وچاہت کی فضا قائم رہتی ہے اور انتشار کو پنپ نے کا موقع نہیں ملتا،خصوصاً مسلمانوں کی بحیثیت مسلمان ہونے کی یہ دینی وخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قول وفعل سے ایسے اخلاق کا مظاہرہ کریں جو پڑوسیوں کے دل جیتنے کا سبب بن سکیں،اگر کسی نے ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کی نفرت کا بیج بویا ہے تو آپ کے اخلاق وکردار اسے غلط ثابت کریں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ اسلام اور مسلمانوں پر یہ سراسر الزام ہے،مگر بعض دفعہ سن کر اور مسلم ماحول کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے قول وفعل کے ذریعہ انہیں متاثر کرنے کے بجائے متنفر کر نے والے کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے نفرتیں پھیلانے والوں کو مزید موقع حاصل ہوتا ہے،بعض نادان تو یہ کہنے سے نہیں کتراتے کہ ہم ایک طرفہ ہی کیوں اخلاق کا مظاہرہ کریں،حالانکہ بحیثیت مسلمان ہونے کے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک طرفہ ہی سہی اخلاق کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کریں جسے پیش کرکے نبی رحمت ؐ نے اپنے اور پرائے،دوست ودشمن سب کا دل جیتا تھا اور آپؐ کے جانثار صحابہ ؐ نے اپنے اخلاق کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک کو فتح کیا تھا،اس وقت بڑا بہترین موقع ہے کہ مسلمان برادران وطن کے سامنے اپنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کرتے ہوئے غلط فہمیوں کو دور کریں اور اسلامی تعلیمات کے ذریعہ انہیں اپنے قریب کرنے کی کوشش کریں، اگر وہ اسلام کی طرف نہ بھی آئیں بلکہ مسلمانوں کے تئیں ہمدردی بھی رکھیں تو ہم کامیاب ہیں۔
قربانی کے موقع پر محلوں کی صفائی کے ذریعہ انہیں پیغام دیں کہ مسلمان پوری دنیا کے لیے رحمت ہے زحمت نہیں،اس موقع پر جو برادران وطن گوشت کھاتے ہیں انہیں قربانی کا دوشت ہدیہ میں دیں چونکہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے،اس سے دوریاں ختم ہوسکتی ہیں،نفرتیں مٹائی جا سکتی ہیں اور نزدیکیاں بڑھائی جا سکتی ہیں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، صفائی ستھرائی کا خوب خیال رکھیں، خصوصاً عید الاضحی کے دنوں میں صفائی کا خوب اہتمام کریں،کم از کم اپنے اپنے محلوں میں اپنے اپنے طور پر صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کریں، ایک ایسی مثال جو دوسروں کے لئے ترغیب کا باعث بنے،گرچہ اس موقع پر ریاستی حکومت نے بھی شہر میں صفائی ستھرائی کے وسیع پیمانہ پر انتظامات کا اعلان کیا ہے لیکن ہم اہلیان شہر کی بھی بحیثیت شہری ملکی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی صفائی کا خاص خیال رکھیں اور صفائی کے ذریعہ خود کے ساتھ دوسروں کو بھی زحمت سے بچائیں۔