دہلی

ہندوقائدین کی نفرت انگیز تقاریر کیخلاف برندا کرت سپریم کورٹ سے رجوع

برندا کرت نے وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی مذہبی تنظیموں کے قائدین کی جانب سے کی گئی نفرت انگیز تقاریر کا حوالہ دیا جن میں لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایاگیا تھا۔

نئی دہلی: سی پی آئی ایم لیڈر برندا کرت سپریم کورٹ سے رجوع ہوئیں تاکہ ایک زیر التواء درخواست میں مداخلت کرسکیں جس میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے  اور ان کا سماجی و معاشی بائیکاٹ کرنے ہریانہ سمیت مختلف ریاستوں میں نکالی گئی ریالیوں میں کی گئی کھلی نفرت انگیز تقاریر کاالزام عائد کیاگیاہے۔

متعلقہ خبریں
نیتی آیوگ کی میٹنگ میں 8 چیف منسٹرس کی غیر حاضری بدقسمتی: بی جے پی
نوح میں 28 اگست تک موبائل انٹرنیٹ سروس معطل
15 فیصد مسلم ریزرویشن سے متعلق کانگریس پر جھوٹا الزام : پی چدمبرم
عصمت دری کے ملزم تھانہ انچارج کی ضمانت منسوخ
سپریم کورٹ میں نوٹ برائے ووٹ کیس کی سماعت ملتوی

 کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی لیڈر اور سابق رکن راجیہ سبھا نے عدالت عظمی سے اجازت طلب کی کہ انہیں اس مسئلہ پر ایک صحافی شاہین عبداللہ کی زیر التواء درخواست میں فریق بننے کی اجازت دی جائے۔

برندا کرت نے وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی مذہبی تنظیموں کے قائدین کی جانب سے کی گئی نفرت انگیز تقاریر کا حوالہ دیا جن میں لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایاگیا تھا۔

دہلی کے نانگ لوئی اور گھونڈا چوک جیسے مقامات پر جلسہ عام میں ایسی نفرت بھڑکانے والی تقاریر کی گئی تھیں۔ درخواست میں کہاگیا کہ وشوا ہندو پریشد کے لیڈروں نے ہندو مذہب کے نام پر دہلی کے مختلف مقامات پر منعقدہ جلسوں میں عوام کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا ہے۔

 درخواست میں کہاگیا کہ لوگوں کو ہندوازم کے نام پر دستوری اقدار اور سیکولرازم کے خلاف ابھارا گیاہے۔ قومی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں ایسی میٹنگس منعقد کی جارہی ہیں جن میں مسلمانوں کے سماجی ومعاشی بائیکاٹ کی مسلسل اپیلیں کی جاتی ہیں۔

 ایسی تقاریر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت جرم ہے۔ بدقسمتی سے پولیس ایسے افراد کے خلف سخت کارروائی نہیں کررہی ہے اور نہ ایسی میٹنگوں کو روکا جارہاہے۔

جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس ایس وی این بھٹی پر مشتمل بنچ نے 11 اگست کو شاہین عبداللہ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہاتھا کہ ملک میں مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارہ ہوناچاہئے۔

عدالت نے ہریانہ کے ڈائرکٹر جنرل پولیس کی جانب سے ایک کمیٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی  تاکہ نوح کے حالیہ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد درج کئے گئے کیسس کاجائزہ لیا جاسکے۔

عدالت نے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج سے جو مرکز کی طرف سے پیش ہوئے تھے‘ کہاکہ وہ ہدایات حاصل کریں اور 18 اگست تک مجوزہ کمیٹی کے بارے میں اسے اطلاع دیں۔