ممبئ کی 100 سال قدیم وقف مسجد پر ذاتی ملکیت کی دعوے داری
7000 اسکوائر فٹ پر محیط ممبئی کے پربھا دیوی علاقے میں پٹھان مسجد اس وقت تنازعہ کا شکار ہوگئی ہے جب ایک شخص نے اس مسجد کو ذاتی ملکیت ہونے دعوی ٹھوک دیا ہے حالانکہ وقف بورڈ میں یہ مسجد طویل مدت سے رجسڑڈ ہے۔
ممبئ: 7000 اسکوائر فٹ پر محیط ممبئی کے پربھا دیوی علاقے میں پٹھان مسجد اس وقت تنازعہ کا شکار ہوگئی ہے جب ایک شخص نے اس مسجد کو ذاتی ملکیت ہونے دعوی ٹھوک دیا ہے حالانکہ وقف بورڈ میں یہ مسجد طویل مدت سے رجسڑڈ ہے۔
وقف قوانین کے مطابق کوئی بھی ملکیت وقف بورڈ میں رجسڑڈ ہونے کے بعد کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوسکتی۔
چند ماہ قبل جوگیشوری علاقے کے رہنے والے امتیاز خان نے یہ دعوے داری کی ہے کہ یہ ملکیت انکی ذاتی وراثت ہے،حالانکہ وقف بورڈ میں یہ مسجد 1952 سے رجسڑڈ ہے۔
وقف کی اس ملکیت مسجد پر اس ذاتی ملکیت کی دعوے داری کے بعدمسجد کے کیئر ٹیکر نے وقف بورڈ میں اسکی شکایت کی ہے۔اب اس معاملے کی جانچ مہاراشٹر وقف بورڈ کر رہا ہے۔اس معاملے میں وقف بورڈ نے مسجد کے باہر نوٹس لگانی چاہی لیکن مسجد پر غیر قانونی طریقے سے قابض کچھ لوگوں نے مزاحمت کی۔
مسجد کے ذاتی ملکیت کا دعو ی کرنے والے امتیاز شیخ کے مطابق مسجد انکی ذاتی ملکیت ہے اور اسکے دستاویز اُنکے پاس ہیں۔وقف ملکیت ہونے کے سبب طویل عرصے سے اس مسجد کی دیکھ ریکھ عبدالکریم کالسیکر سمیت کئی علاقائی لوگوں کے ذریعے کی جارہی تھی۔اس تنازعے کے بعد اس کی شکایت نہ صرف وقف بورڈ میں بلکہ مقامی پولیس تھانے میں بھی کی گئی ہے۔
در اصل انگریزوں کے زمانے میں یہاں پٹھان برادری کی اکثریت ہونے کے سبب عبادت کی جاتی تھی۔ 1919 میں انگریزوں نے ہر عبادت گاہ کو سیکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا کے تحت یہ قانون نافذ کیاجس میں عبادت گاہوں کو رجسٹر کرنے کا حکم جاری کیا گیا ۔
سال 1920 میں اس جگہ کو عبادت کے لیے انگریزوں نے اسے لیز پر دے دیا اس وقت کیئر ٹیکر کے طور پر یہاں لوگوں نے اسے سنبھالا اس وقت اسے سنبھالنے والوں میں میاں شیر خان،سلطان محمد شیر خان،محمد یوسف شیر خان تھے۔۔
سال 1952 میں یہ مسجد وقف بورڈ میں رجسڑڈ کی گئی۔اسکے باد حبیب شاہین عرف حبیب اللہ اور آر کے رحمٰن یہاں بطور ٹرسٹی رہے۔اُنکے ساتھ عبدالرحمٰن کالسیکر پھر عبدالکریم کالسیکر اس کی دیکھ ریکھ کرتے ۔حبیب شاہین کا انتقال سن 18 اکتوبر 2009 کو ہوگیا۔15 جون 2022 کو آر ٹی آئی سے جب کچھ دستاویز حاصل کیے گئے تو پتہ چلا کہ اس مسجد ٹرسٹ میں کچھ لوگوں نے چینج رپورٹ فائل کی ہے جسکے بعد وقف بورڈ نے نوٹس جاری کی۔
وقف بورڈ کے ذریعے نوٹس جاری کیے جانے کے پیچھے کی اصل وجہ یہ ہے کہ حبیب اللہ کا انتقال سن 2009 میں ہوا اور چینج رپورٹ جو داخل کی گئی وہ 17 اپریل2012 کو داخل کی گئی اور اس چینج رپورٹ میں 21 اپریل 2007 کی ایک میٹنگ کا ذکر کیا گیا ہے۔