مذہب

طلبہ سے ایام تعطیل کی فیس وصول کرنا

’’بچے پڑھیں اور فیس ادا کریں‘‘ یہ فقہ کی اصطلاح میں اجارہ ہے ، فیس اُجرت ہے جو طلبہ ادا کرتے ہیں اور پھر اس سے اساتذہ کو تنخواہ دی جاتی ہے ، اجارہ میں اُصول یہ ہے کہ دونوں فریق کے آپسی معاہدہ کے مطابق دونوں عمل کرنے کے پابند ہیں ،

سوال:- تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات سے زمانۂ تعلیم کی بھی فیس لی جاتی ہے اور زمانۂ تعطیل کی بھی، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ زمانۂ تعلیم میں بھی بعض دفعہ طلبۂ و طالبات غیر حاضر رہتے ہیں ؛ لیکن بچوں سے ان دنوں کی بھی فیس لی جاتی ہے، کیا یہ صحیح ہے ؟ (محمد وجیہ الدین، شولا پور)

جواب:- ’’بچے پڑھیں اور فیس ادا کریں‘‘ یہ فقہ کی اصطلاح میں اجارہ ہے ، فیس اُجرت ہے جو طلبہ ادا کرتے ہیں اور پھر اس سے اساتذہ کو تنخواہ دی جاتی ہے ، اجارہ میں اُصول یہ ہے کہ دونوں فریق کے آپسی معاہدہ کے مطابق دونوں عمل کرنے کے پابند ہیں ، اگر یہ بات پہلے سے طے ہو یا اسکولوں کا معمول ہو کہ اس میں تعطیلوں کی بھی فیس لی جاتی ہے تو تعطیل کی بھی فیس ادا کرنا واجب ہوگا ۔

اسی طرح اگر اسکول میں تعلیم ہورہی ہو اور طالب علم غیر حاضر ہو یا رُخصت پر ہو تو طالب علم سے تعلیم کی فیس لینا درست ہے ؛ کیوںکہ اسکول جس چیز کی فیس وصول کررہا ہے، وہ سہولت مہیا تھی، یہ طالب علم اور اس کے سرپرست کی کمی ہے کہ انھوں نے اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا، فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے :

الأجیر الخاص وھو من یعمل لواحد عملاً موقتا بالتخصیص، ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ فی المدۃ ، وإن لم یعمل ۔ (درمختار مع الشامی، کتاب الاجارۃ، باب ضمان الاجیر : ۵؍۴۳)

اجیر خاص وہ ہے، جو ایک شخص کے لئے متعین کام کو مقررہ وقت میں انجام دے، وہ اس مدت میں حاضر رہنے پر اُجرت کا حقدار ہوگا، چاہے کام کرنا نہ پڑے ۔

a3w
a3w