حیدرآباد

یوم عاشوراء بہت ہی عظمت و تقدس کا حامل ہے، ہمیں اس دن کی برکات سے بھر پور فیض اٹھانا چاہئے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد

حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یوم عاشورہ زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔

حیدرآباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یوم عاشوراء زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔

متعلقہ خبریں
یوم عاشورہ کے لیے نقائص سے پاک انتظامات: کو پلا ایشور
مومن اور متقی پرہیز گار ہوا اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نوازیں گے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق داشتراک فرماتے تھے اسی اصول کی بنا پر آپ قرییش کے ساتھ عاشوراء کا روزہ بھی رکھتے تھے، لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے۔

پھر جب آپؐ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں۔

جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یوم عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہ رمضان المبارک کے۔

مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرز عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یوم عاشوراء کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت و تقدس کا حامل ہے؛ لہذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھر پور فیض اٹھانا چاہیے۔

احادیث طیبہ سے یومِ عاشوراء میں صرف دو چیزیں ثابت ہیں (۱) روزہ جیسا کہ اس سلسلے میں روایات گزر چکی ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار و مشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاری کی بود و باش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔

اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لئے اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ  یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو۔

بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تا کہ یہود کی مخالفت ہو جائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے۔

شریعت اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے میں وسعت اور فراخی کرنا اچھا ہے کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالی فراخی رزق کے دروازے کھول دیتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔

a3w
a3w