مذہب

قرض کی ادائیگی میں تاخیر اور تبدیل شدہ کرنسی کا حکم

ضرورت مندوں کو قرضِ حسنہ یعنی بغیر سود کے قرض دینا نہایت ہی اجر کا کام ہے ، قرض کا واپس کرنا واجب ہے ، ٹال مٹول سے کام لینا اور قرض واپس نہیں کرنا سخت گناہ ہے ؛

سوال :- میرے ایک دوست دبئی میں تجارت کرتے تھے ، انھوںنے ستمبر ۲۰۰۸ء میں تین ماہ بعد یکمشت لوٹا دینے کی شرط پر قرض لیا اور انھوںنے اسی حساب سے چک بھی دیا ؛ لیکن چک باؤنڈ ہوگیا ، اس کے بعد وہ برابر ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ، آخر میں نے تنگ آکر غصہ میں کہہ دیا کہ میں تمہارا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ،

متعلقہ خبریں
ایک مکان کے کرایہ میں دوسرا مکان
بھاری رقومات کی نقد معاملت میں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے

میرا مقصد یہ تھا کہ انھیں عند اللہ جوابدہی کا احساس پیدا ہو ، پھر ایک ملاقات میں میںنے ان سے سوال کیا کہ کیا میں اس رقم کو بھول جاؤں ؟ تو انھوںنے ادا کرنے کا وعدہ کیا؛ حالانکہ ان کے پاس کافی جائیداد ہے ، اب سوال یہ ہے کہ :

(الف) کیا اب میرا ان سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا جائز ہوگا ، جب کہ میں نے کہہ دیا تھا کہ میں اس معاملہ کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ؟

( ب ) قرض کی رقم ڈیڑھ لاکھ درہم ہے ، جو ۲۰۰۸ء کے شرح مبادلہ کے لحاظ سے تقریباً اٹھارہ لاکھ بنتی ہے اور موجودہ شرح کے لحاظ سے ۲۳ لاکھ ، تو اب انھیں مجھ کو ۱۸ ؍لاکھ ادا کرنا چاہئے یا۲۳ لاکھ ؟

( ج ) قرض کی ادائیگی سے پہلے اگر میری موت ہوجائے تو کیا میری یہ رقم ترکہ میں شمار ہوگی اور میرے ورثہ کو اس کے مطالبہ کا حق حاصل ہوگا ؟ (اُسامہ میر، نالا سوپارہ)

جواب :- ضرورت مندوں کو قرضِ حسنہ یعنی بغیر سود کے قرض دینا نہایت ہی اجر کا کام ہے ، قرض کا واپس کرنا واجب ہے ، ٹال مٹول سے کام لینا اور قرض واپس نہیں کرنا سخت گناہ ہے ؛ اس لئے ان صاحب کو چاہئے کہ اپنی جائداد فروخت کرکے فوری طورپر قرض ادا کردیں ، جتنی تاخیر کریں گے ، اتنے ہی گنہگار ہوں گے ، رسول اللہ ا نے ٹال مٹول کو ظلم قرار دیا ہے ’’ مطل الغنی ظلم‘‘ (بخاری ، کتاب الاستقراض الخ ، باب مطل الغنی ظلم ، حدیث نمبر : ۲۴۰۰) اور قرآن مجید نے کفر کے بعد سب سے زیادہ جس گناہ کی مذمت کی ہے ، وہ ظلم ہے ، بہر حال آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں :

(الف) یہ کہنے کے باوجود کہ میں معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں ، آپ کی طرف سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا بالکل درست ہے ؛ کیوںکہ ’’ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ‘‘ کے معنی یہ نہیں ہے کہ میں قرض کو معاف کرتا ہوں ، اور نہ آپ کی یہ نیت تھی ؛ بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ جو وعدہ خلافی کررہے ہیں ، اس زیادتی کے معاملہ کو میں اللہ کے حوالہ کرتا ہوں ۔

( ب ) قرض جس کرنسی میں دیا جائے ، اسی کرنسی میں اس کو واپس کرنا بھی ضروری ہے ؛ لہٰذا جب آپ نے ان کو اٹھارہ لاکھ روپے نہیں دیئے ، ڈیڑھ لاکھ درہم دیئے ، تو ان پر ڈیڑھ لاکھ درہم ہی واپس کرنا واجب ہے ، خواہ انڈین کرنسی کے لحاظ سے اس کی قیمت زیادہ ہو یا کم ؛ البتہ اگر آپ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ معاف کردیں تو اس میں کچھ حرج نہیں ۔

( ج )آپ کی یہ رقم یا کوئی دوسری رقم لوگوں کے ذمہ باقی ہو، اور وصول ہونے سے پہلے آپ کا انتقال ہوجائے تو وہ رقم آپ کے ترکہ میں شامل ہے ، وہ آپ کے تمام ورثہ میں حصۂ میراث کے مطابق تقسیم ہوگی اور آپ کے ورثہ کو اس کے مطالبہ کرنے اور اس سلسلہ میں اخلاقی اور قانونی دباؤ ڈالنے کا پورا پورا حق حاصل ہوگا ، جیسے کہ اس وقت آپ کو حاصل ہے ۔

a3w
a3w