مذہب

مسجدوں میں صباحی و مسائی تعلیم کا نظم

بنیادی طور پر مسجد میں تعلیم و تعلم میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ یہ مسجد کے مقاصد میں سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ نیز بعد کے عہد میں بھی مسجدیں دینی تعلیم کا مرکز رہی ہیں، بلکہ جامع ازہر، جامع زیتون اور جامع قیروان جیسی قدیم دینی جامعات دراصل مسجدوں ہی میں قائم تھیں؛

سوال:- بعض علماء حضرات مسجدوں میں چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے سے منع کرتے ہیں؛ حالانکہ آج کل مسجدوں کی صباحی تعلیم اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے لئے بڑی اہمیت اختیار کرگئی ہے اوراگر اس کو منع کردیا جائے، تو اس سے بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ (محمد بدرالدین، کریم نگر)

متعلقہ خبریں
تلنگانہ میں 104 امیدواروں کے خلاف فوجداری مقدمات درج
تعلیم کیلئے مخصوص اسکول کے انتخاب کا حق نہیں: دہلی ہائی کورٹ
میری تعلیم بھی سرکاری اسکول میں ہوئی: ریونت ریڈی
غیرت کے نام پر قتل: حیدرآباد میں ایک شخص کا بیوی کے رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل
ڈی ای او ڈاکٹر رویندر ریڈی نے اردو پرائمری اسکول اولہ کا دورہ کیا

جواب:- بنیادی طور پر مسجد میں تعلیم و تعلم میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ یہ مسجد کے مقاصد میں سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ نیز بعد کے عہد میں بھی مسجدیں دینی تعلیم کا مرکز رہی ہیں، بلکہ جامع ازہر، جامع زیتون اور جامع قیروان جیسی قدیم دینی جامعات دراصل مسجدوں ہی میں قائم تھیں؛ البتہ چھوٹے بچوں کو مسجد میں تعلیم دینے کو دو صورتوں میں پسند نہیں کیا گیا ہے، ایک یہ کہ وہ اتنے بے شعور ہوں کہ مسجد کے احترام کوپامال کردیں اورپیشاب پاخانہ وغیرہ کردیں، دوسرے اجرت لے کر تعلیم دی جائے؛

کیوںکہ مسجد کسب معاش کی جگہ نہیں ہے، عبادت اور دعوت و اصلاح کی جگہ ہے، اگر بعض علماء نے منع کیا ہو تو انہوں نے اسی نقطۂ نظر سے منع کیا ہوگا؛ اس لئے اول تو مسلمانوں کو مساجد کی تعمیر کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ اس سے متصل مکتب کے لئے کوئی ہال بھی تعمیر کردیا جائے؛ تاکہ مسجد کے اندر مکتب چلانے کی مجبوری نہ رہے؛ لیکن اگر کسی وجہ سے ایسی سہولت حاصل نہ ہوسکے، تو موجودہ دور میں مسجدوں میں بچوں کو دینی تعلیم دینے میں حرج نہیں؛

البتہ ایسا کنٹرول رکھا جائے کہ بچے سلیقہ کے ساتھ بیٹھا کریں اور مسجد کی بے احترامی نہ ہو، اسی طرح فقہاء نے جہاں اجرت لے کر مسجد میں تعلیم کو منع کیا ہے، وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں ضرورت ہو، وہاں کراہت نہیں : والوجہ ما قالہ ابن الہمام: أنہ یکرہ التعلیم إن لم یکن ضرورۃ (کبیری:۵۶۸) اور اس سے بڑھ کر ضرورت کیا ہوگی کہ ہمارے جو بچے آر ایس ایس اور عیسائی مشنریز اسکولوں یا دوسرے اسکولوں میں جاتے ہیں یا دیہات کے بچے جو دینی تعلیم سے محروم ہیں،

اگر مسجدوں میں صباحی اور مسائی تعلیم کے ذریعہ ان کو دین کی بنیادی تعلیمات سے آشنا نہیں کیا جائے تو ان کے ایمان کا تحفظ بھی خطرہ میں پڑ جائے گا؛ اس لئے فی زمانہ حسب ضرورت مسجدوں میں صباحی یا مسائی تعلیم کے نظم میں کوئی حرج نہیں؛ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔