مذہب

ناچ گانے والی شادی کے لئے فنکشن ہال کرایہ پر لینا

فنکشن ہال نکاح اور جائز تقریبات کے لئے بنانا اور کرایہ پر لگانا جائز ہے ؛ کیوںکہ یہ جائز نفع اُٹھانے کی ایک صورت ہے ۔

سوال:-آج کل شہروں میں شادی اور دوسری تقریبات کے لئے بڑے فنکشن ہال بنائے جاتے ہیں اور اس کو کرایہ پر دیئے جاتے ہیں ، کیا یہ جائز ہے ؟ فنکشن ہال کے مالکان میں مسلمان بھی ہوتے ہیں تو اگر یہ بات معلوم ہوا کہ یہاں ناچ گانے کا بھی انتظام ہوگا ، اس کے باوجود کیا ان لوگوں کو فنکشن ہال کرایہ پر دیا جاسکتا ہے اور اگر دیا تو کرایہ حلال ہوگا ، جب کہ امتیاز کرنا بھی دشوار ہے کہ کونسا کرایہ ایسی تقریبات کا ہے ، جن میں ناچ گانا ہوا ہے ؟( خلیل احمد، بنڈلہ گوڑہ)

جواب:- (الف) فنکشن ہال نکاح اور جائز تقریبات کے لئے بنانا اور کرایہ پر لگانا جائز ہے ؛ کیوںکہ یہ جائز نفع اُٹھانے کی ایک صورت ہے ۔

(ب) لیکن ضروری ہے کہ تقریبات میں کوئی خلاف شرع عمل نہ پایا جائے ؛ لہٰذا اگر فنکشن ہال کے مالک پر یہ بات واضح ہوکہ اس تقریب میں ناجائز کام بھی کئے جائیں گے ، جیسے گانا بجانا ہوگا ، رقص ہوگا ، تو ایسے لوگوں کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہوگا اور اگر دے تو وہ گنہگار ہوگا : ’’ولا (تصح الاجارۃ) لاجل المعاصی مثل الغناء والنوح والملا ھی ولو أخذ بلا شرط یباح‘‘ ۔ (الدر مع الرد : ۹؍۷۵)

( ج ) اس سے جو آمدنی حاصل ہوئی ، وہ اگرچہ بالکل حرام نہ ہوگی ؛ کیوںکہ کرایہ گانے بجانے کا نہیں ہے ؛ بلکہ نکاح سے متعلق مختلف ضروری اُمور کو انجام دینے کے لئے مکان سے استفادہ کا ہے ، لیکن کراہت سے بھی آمدنی خالی نہیں ہوگی ؛ اس لئے اگر ریکارڈ سے ایسی رقم کا پتہ چل جائے تو اسے صدقہ کردیا جائے ، استغفار کیا جائے اور آئندہ اس سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلیا جائے : ’’ (وجاز اجارۃ بیت الخ) ھذا عندہ أیضا ؛ لأن الاجارۃ علی منفعۃ البیت ، ولہذا یجب الأجر بمجرد التسلیم ولا معصیۃ فیہ وانما المعصیۃ بفعل المستأجرو ھو مختار فینقطع نسبتہ عنہ (إلی قولہ) والدلیل علیہ أنہ لو آجدہ للسکنی جاز وھو لا بد لہ من عبادتہ فیہ ‘‘ ۔ ( شامی : ۵؍۲۵۵)

a3w
a3w