حیدرآباد

حضرت عمر فاروقؓ عدل، بصیرت اور فتوحات کا روشن مینار: مولانا صابر پاشاہ کا اظہار خیال

مرکزی دفتر، روڈ نمبر 12، بنجارہ ہلز پر منعقدہ ایک فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاریخ ابن خلدون کے مطابق، حضرت عمرؓ کے دس سالہ دورِ خلافت میں 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل زمین پر اسلام کا پرچم لہرایا۔ روم و ایران جیسی عظیم سلطنتیں ان کے سامنے جھک گئیں اور 4 ہزار سے زائد مساجد تعمیر ہوئیں۔

حیدرآباد: لینگویجز ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے چیئرمین اور ممتاز عالم دین مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخِ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخِ عالم کے عظیم ترین فاتح، منتظم اور عدل و انصاف کے علمبردار حکمران تھے۔

متعلقہ خبریں
سردیوں میں خشک میوہ جات قدرت کا انمول تحفہ: ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
جمعہ کے خطبے میں جمعیتہ علماء کا تعارف پیش کریں، حافظ پیر شبیر احمد کی اپیل
اردو زبان عالمی سطح پر مقبول، کالج آف لینگویجز ملے پلی میں کامیاب سمینار کا انعقاد
یوم عاشورہ کی روحانی عظمت قیامت تک باقی رہے گی: مولانا صابر پاشاہ قادری
حضرت امام حسینؓ کی نماز اور اخلاقی عظمت پر خطاب – حج ہاؤس نامپلی میں اجتماع

مرکزی دفتر، روڈ نمبر 12، بنجارہ ہلز پر منعقدہ ایک فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاریخ ابن خلدون کے مطابق، حضرت عمرؓ کے دس سالہ دورِ خلافت میں 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل زمین پر اسلام کا پرچم لہرایا۔ روم و ایران جیسی عظیم سلطنتیں ان کے سامنے جھک گئیں اور 4 ہزار سے زائد مساجد تعمیر ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ حضرت عمرؓ کی روحانی بصیرت، عدل، صداقت، سخاوت، درگزر اور عوامی فلاح کے اصولوں نے انہیں ایک ناقابلِ فراموش حکمران بنا دیا۔ حضرت عمرؓ نے کبھی خود جنگ میں شرکت نہ کی، مگر ان کے حکم اور تدابیر سے اسلامی افواج نے عظیم فتوحات حاصل کیں۔ ان کی فراست کا یہ عالم تھا کہ مدینہ میں بیٹھ کر دور دراز کے محاذوں پر فوجی ہدایات جاری کرتے اور دشمن کو شکست سے دوچار کرتے۔

مولانا صابر پاشاہ نے واقعہ ’’یاساریۃ الجبل‘‘ کو حضرت عمرؓ کی روحانی فراست کی عظیم مثال قرار دیا، جب آپ نے خطبہ جمعہ کے دوران ہزاروں میل دور دشمن کے نرغے میں گھرے ساریہ کو پہاڑ کی پناہ لینے کی ہدایت دی، جو بعد میں معجزانہ طور پر درست ثابت ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضرت عمرؓ کی فتوحات محض فوجی قوت یا وسائل کی بنیاد پر نہ تھیں بلکہ ان کی الہامی شخصیت، روحانی قوت اور عدل و انصاف کا نتیجہ تھیں۔ حضرت عمرؓ کے مشورے پر نازل ہونے والی قرآنی آیات اور احادیث میں ان کی رائے کی تائید ہونا ان کے روحانی مقام کا واضح ثبوت ہے۔

مولانا نے کہا کہ آپؓ کا عدل مثالی تھا۔ آپؓ نے کبھی کسی امیر و غریب میں فرق نہ کیا، حتیٰ کہ اپنے بیٹے کو بھی سزا دی۔ حضرت جبلہ بن الایہم جیسے حکمران کے خلاف فیصلہ دینا اس بات کی مثال ہے کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک انصاف سب کے لیے یکساں تھا۔

حضرت عمرؓ کے دور میں فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، زراعت، آبپاشی، تعلیم، جیل، محاصل اور دیگر محکمے قائم کیے گئے۔ مولانا صابر پاشاہ نے کہا کہ حضرت عمرؓ کی دیانت، فراست، شفاف انتظامی صلاحیت، روحانی بصیرت اور عدل و انصاف کے نظام کو آج کے حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ بنانا چاہیے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ حضرت عمرؓ کی شخصیت ایک ہمہ جہت مثالی شخصیت ہے، جنہوں نے دین، سیاست، عسکری قیادت، عدل و انصاف، روحانیت اور عوامی خدمت کے تمام شعبوں میں ایسی روشن مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گی۔