سیاستمضامین

اپوزیشن کا اتحاد بی جے پی کی شکست فاشجو مشکل ہے ‘ تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

زندگی میں صبر ‘شکر اور محبت تینوں کا بڑا درجہ ہے۔ صبر مصیبت کو ٹالتا ہے۔ شکر نعمت کو بڑھاتا ہے۔ محبت خوشیوں کا خزانہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے جس صبر‘ شکر اور محبت کا پٹنہ میں مظاہرہ کیا ہے‘ اس کے 2024 کے عام انتخابات میں صد فیصد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اب خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ وہ تیسری بار مرکز میں سرکار بنائے گی۔ اپوزیشن کا اتحاد ایک مثبت حقیقت ہے۔ اپوزیشن کے تمام قائدین اپنے چھوٹے موٹے اختلافات کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی غیر جمہوری اور جابر سرکار کو ہرا کر ہی دم لیں گے۔
بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار کی دعوت پر منعقد ہونے والی اپوزیشن کی پہلی میٹنگ میں اس بات پر اتفاق رائے پیدا ہوگیا کہ اپوزیشن کا صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہئے اور وہ مقصد ہے بی جے پی کی شکست فاش۔ پٹنہ کے اجلاس میں ایسی کچھ مخصوص سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی جو یا تو بی جے پی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں یا پھر کانگریس اور بی جے پی سے یکساں دوری بنائے رکھتے ہیں۔ اس تاریخ ساز اجلاس میں جن پارٹیوں نے شرکت کی اس میں کانگریس، این سی پی، ٹی ایم سی ، ڈی ایم کے، شیو سینا ادھوے ٹھاکرے گروپ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ، نیشنل کانفرنس، سی پی آئی ایم، آر جے ڈی، آپ، پی ڈی پی، سی پی آئی ایم ایل، سی پی آئی ، جے ڈی یو اور اے آئی ٹی سی نے شامل ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے جن ستاروں نے اس اجلاس میں شرکت کی ان میں نتیش کمار، ممتا بنرجی، ایم کے اسٹالن، ملکارجن کھرگے، راہول گاندھی، اروند کجریوال، ہیمنت سورین، ادھو ٹھاکرے، شرد پوار، لالو پرساد یادو، بھگونت مان، اکھلیش یادو، سیتا رام یچوری، عمر عبداللہ ، پی آر بالو، محبوبہ مفتی، دیپانکر بھٹا چاریہ، تیجسوی یادو، کے سی وینو گوپال، ابھیشیک بنرجی ، ڈیرک اوبیرین، آدتیہ ٹھاکرے، ڈی راجا، سپریا سولے، منوج جہا، فرہاد حکیم، پروفل پٹیل، راگھو چڈھا، سنجے سنگھ، سنجے راوت، للن سنگھ اور سنجے جہا شامل تھے۔
اس اجلاس کی خوبی یہ رہی کہ سبھی نے ایک آواز میں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کی یقین دہانی کروائی۔ راہول گاندھی نے تو بہت بڑی بات کہی کہ ان کی پارٹی کا دل بہت بڑا ہے اور وہ سبھی کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ادھر اترپردیش کے سابق چیف منسٹر اکھلیش یادو نے بھی یہ واضح کیا کہ وہ بھی قربانی کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ وہیں دلی کے چیف منسٹر اور آپ کے کنوینر کجریوال نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپوزیشن کو نقصان نہ پہنچانے کی غرض سے دوسری ریاستوں میں اپنے امیدوار نہیں کھڑا کریں گے یعنی وہ دلی اور پنجاب کی حد تک ہی محدود رہیں گے۔ اس میٹنگ میں وہ چاہتے تھے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں مرکزی حکومت کی جانب سے دلی کے عہدیداروں کے تبادلوں سے متعلق آرڈیننس کی مخالفت کریں ۔ اس موقع پر بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی نے مداخلت کی اور کہا کہ میٹنگ کا ایجنڈا اپوزیشن کا اتحاد ہے اس موضوع پر کسی اور میٹنگ میں بات چیت کی جاسکتی ہے۔ اتحاد کا پہلا مرحلہ انتہائی کامیاب رہا۔ اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے دوسرا اجلاس بنگلور میں اس مہینہ کی 13 اور 14 تاریخ کو منعقد ہوگا۔ یہ اجلاس دراصل شملہ میں ہونے والا تھا لیکن شدید بارش کے پیش نظر اسے بنگلور منتقل کیا گیا ہے۔ این سی پی کے صدر شرد پوار نے اس نئے اجلاس کے بارے میں بتایا کہ یہ اجلاس نہ صرف معنی خیز رہے گا بلکہ نتیجہ انگیز بھی ہوگا۔
جے ڈی یو کے صدر اور بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے بتایا کہ بنگلور کے اجلاس میں کم سے کم دس اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں شریک رہیں گی۔ پہلے اجلاس کی کامیابی کی وجہ سے دوسری کئی سیاسی جماعتیں اپوزیشن کے اتحاد کو مثبت نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں جس میں مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی بھی شامل ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجانہ ہوگا کہ مایاوتی کے مشکوک رویہ کو دیکھتے ہوئے انہیں اپوزیشن کے پہلے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ پہلے اجلاس کے بعد جو باتیں انہوں نے کہی تھیں وہ کافی ہمت افزا رہی۔ ٹاملناڈو کے چیف منسٹر ایم کے اسٹالن نے تو اجلاس کو بی جے پی کی شکست کی جانب پہلا زبردست وار قرار دیا۔
اپوزیشن جہاں اس اجلاس سے بے حد خوش ہے وہیں بی جے پی کے خیمہ میں بے انتہا مایوسی صاف جھلک رہی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ کوئی ٹھوس بات کہنے کے بجائے بی جے پی نے اسے صرف ایک Photo Opportunity قرار دیا۔ اتنے بڑے اجلاس کا منعقد ہونا اس میں اس بات کا فیصلہ کرنا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف صرف ایک امیدوار کو کھڑا کرکے اسے شکست فاش دینے کی بات کہنا Photo Opportunity نہیں ہوسکتی۔ بہرحال 2024 یعنی اگلا سال ایک انتہائی اہم باب ثابت ہوگا جبکہ بی جے پی جیسی فاشسٹ سیاسی جماعت کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
شرد پوار کا یہ دعوی ہے کہ بنگلور میں ہونے والی دوسری میٹنگ سے وزیراعظم نریندر مودی بری طرح خائف ہیں اور وہ یہ محسوس کررہے ہیں کہ ان کے اقتدار کی کرسی کھسک رہی ہے اسی لئے انہوں نے یونیفارم سیول کوڈ جیسا متنازعہ مسئلہ اٹھایا ہے تاکہ عوام کے مختلف فرقوں میں دراڑ ڈالی جاسکے اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ یہ اور بات ہے کہ مودی کی یہ مذموم حرکتیں کامیاب نہیں ہوںگی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ کرناٹک میں نریندر مودی نے فرقہ پرستی کی تمام حدوں کو پار کردیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کی جھولی میں شرمناک شکست ہی آئی۔ جئے بجرنگ بلی کا نعرہ بھی بیکار چلا گیا۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ویسے تو سارے ہندوستان ہی میں اپنا ایک خاص تاثر چھوڑا ہے لیکن اس کا سب سے متاثر کن اثر لوگوں کو کرناٹک میں دیکھنے کو ملا۔ جہاں پر تمام فرقوں نے کانگریس پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ بتادیا کہ وہ نفرت کو محبت سے جیتنا چاہتے ہیں۔ راہول گاندھی کا یہ کہنا کہ انہوں نے نفرت کے بازاروں میں محبت کی دکانیں کھولی ہیں سچ ثابت ہوتا جارہا ہے۔
گودی میڈیا کو چھوڑ کر تمام سوشیل میڈیا گھرانے اس بات پر متفق ہیں کہ 2024 میں نریندر مودی شاید فتح کا جھنڈا نہیں گاڑپائیں گے۔ اس دوران کم سے کم پانچ اوپنین پولس میں اس بات کے اشارے سامنے آئے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس پارٹی کرناٹک سے بھی زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی کانگریس کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے۔
اس حقیقت کو ماننا ہی پڑے گا کہ اگر عوام صابر ہوں تو ان کے ساتھ کی گئی ہر زیادتی کا جواب عر ش سے آنے لگتا ہے۔ اپوزیشن کا اتحاد بھی ایک آسمانی کرشمہ ہی ہے کیونکہ ایسے لوگ یکجا ہوگئے ہیں جن کے درمیان کئی اختلافات تھے۔ اپوزیشن کے اتحاد کے کاروان کو نتیش کمار نے آگے بڑھایا ہے بقول علامہ اقبال کے ان کے بارے میں یہ کہا جائے تو بیجانہ ہوگا کہ
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے ، تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰