از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
دنیا سے اپنا حصہ نہ بھولو (قرآن، سورہ قصص؛ ۷۷)۔ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ (سنن ابن ماجۃ)
مسلمان کوجب تک یہ احکام یاد رہے وہ ساری دنیا پر غالب تھا اوراس کے غلبہ کو دیکھ کر دنیا کی غیر مسلم قومیں یہ محسوس کرتی رہیں کہ دین اسلام یقینا ایک ایسا مذہب ہے جو علم کو فریضہ کا درجہ دیتا ہے اور ہر مومن سے کائنات پر غلبہ پانے کی کوششوں کا حساب چاہتا ہے۔
مسلمانوں کا رجحان علم و آگہی ایک ہزار سال تک جاری و ساری رہا، چنانچہ اس دور میں اس نے ترقی کی بڑی منزلیں طے کیں اور دوسری قوموں کی نظر میں معزز بنا رہا لیکن جب اس نے ان ارشادات کی نئی تاویلات پیش کرتے ہوئے احکامات ربانی و نبویؐ کوبھلا دیا، دنیا کو بے ثبات کہہ کر اس سے ناطہ توڑ لیا تو قعر مذلت میں جاگرا۔
مسلمانوں کے اس رویہ پر یورپ کے غیر مسلم دانشوروں نے خوب مذاق اڑایا اور طنزیہ تبصرے کئے جبکہ مسلم دانشور خون کے آنسو رونے پرمجبور ہوئے۔ ان مسلم دانشوروں میں ایک نام اقبال کا ہے جنہوں اپنی شعری تخلیقات میں اپنے کرب وتڑپ کا اظہار کیا اور مسلمانوں کے اس رویہ کو ابلیس کی کامیابی سے تعبیر کیا۔ ( ارمغانِ حجاز)
اقبال مسلمانوں کے زوال کا سبب ان کے غیرعقلی رجحان کو سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان دنیا کو بے ثبات سمجھ کر اس میں کوئی دلچسپی لینا نہیں چاہتا ہے۔ مسلکی اختلافات میں مبتلا ہوکر وہ دینی مسائل کی نئی نئی تاویلات پیش کرتا ہے اور اس طرح اختلافات کو جنم دیتا ہے۔
ان کے خیال میں مسلمان جن غیر ضروری کاموں میں الجھا ہوا ہے، ان کووہ دینی کام سمجھتا ہے اور دنیاوی کاموں سے بیزار نظر آتا ہے۔ اس میں نہ دنیاوی کاموں میں حصہ لینے کی خواہش ہے اور نہ جذبۂ دین کی نئی تاویلات ڈھونڈنے کو بڑا کارنامہ تصور کرتا ہے۔
اقبال سے کافی قبل ہی یورپ کے غیرمسلم دانشوروں نے مسلمانوں کی پستی اور زوال پر بڑے ذلت آمیز تبصرے کئے تھے۔ ایسا ہی ایک تبصرہ پروفیسر آرمین ویمبری نے ایک مضمون لکھ کر کیا تھا جو Budapest Herald نامی مشہور روزنامے میں 1891 کی ایک اشاعت میں شائع ہواتھا اور جس نے مولانا ابوالکلام آزاد کو انتہائی ذہنی تکلیف پہنچائی تھی۔
پروفیسر ویمبری ہنگری کا رہنے والا تھا۔ وہ کافی عرصہ ترکوں کا بہی خواہ رہا۔ اس نے مسلمانوں کے ساتھ زندگی کا بڑا حصہ گزارا لیکن آخر میں وہ زوال پذیر مسلمانوں کے رویہ سے سخت مایوس ہوا۔ چنانچہ وہ اپنے ایک مضمون میں اس طرح رقم طراز ہے :
’’مسلمان کی حمایت سے اب کوئی فائدہ نہیں۔ ۔ ۔ تمام انسانی حس وشعور ان سے سلب ہوچکے ہیں۔ نہ ان کا کوئی مسلک اور نہ کائنات میں کوئی مقصدـ ـ ۔‘‘ (خطبات آزاد) پچھلےدو سو سال کے واقعات سے ایسا معلوم پڑتا ہے کہ مغربی اقوام کا ایجنڈا ویمبری کے خیالات سے مطابقت رکھتا ہے ورنہ یہ کیوںکر ہوتا کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کے بہانے پوری امت مسلمہ کو ذلیل کیا جاتا رہا۔
مسلمانوں کے زوال کا دور یوں تو تیرہویں صدی ہی میں شروع ہوگیا تھا لیکن یہ زوال انیسویں صدی تک مکمل ہوچلا تھا۔ ڈر لگتاہے کہ اگر اس زوال کا سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی چلتا رہا اورمسلمان حق اللہ اور حق العباد کو ساتھ لے کر نہ چل سکے، علم دین اور علم دنیا کواپنے لئے ضروری نہ سمجھ سکے، دنیا کو بے ثبات کہہ کر ٹھکراتے رہے، مختلف مسلکوں کے ناموں سے اپنی صفوں کوعلاحدہ علاحدہ جماتے رہے، فروعی باتوں کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ عائد کرتے رہے، سید احمد، جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، علامہ اقبال، مولانا ابوالحسن علی ندوی اور مولانا کلب صادق جیسے دانشوروں کے خیالات اور احساسات سے دوری اختیار کرتے رہے، جدید علوم سے دوری کو بھی برقرار رکھتے رہے تو اکیسویں صدی میں اسلامی معاشرہ اپنی روحانی قدر اورعقلی وفکری صلاحیتوں کے باوجود قعر مذلت سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو پائے گا۔
ایک مسلم مفکر نے ان حالات کو اس طرح بیان کیا ہے؛ ’’مسلمان نے جس حد تک اپنے آپ کو علم سے دور کر لیا ہے (بیسویں صدی میں) اگر یہ دوری اکیسویں صدی میں باقی رہی تو اس کا مستقبل پچھلی تین صدیوں سے بھی زیادہ عبرت انگیز ہوگا‘‘۔ (اردو سائنٹفک سوسا ئٹی1996)
اللہ نے انسان کو اس زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے (قرآن: ۲؛۳۰) اور اس فریضہ یعنی Mandate کو انسان اس وقت تک پورا نہیں کر سکتا جب تک وہ اس زمین کو پوری طور پر دریافت نہ کرلے۔
بیسویں صدی میں یوں تو بڑے انقلابات آئے، جنگیں ہوئیں، حکومتیں بنیں اور اجڑیں، نئی دریافتوں کا سلسلہ شروع ہوا، فرسودہ رسموں کو چھوڑا گیا، کچھ نئی قدروں کو اپنایا گیا، نفرتوں اور عداوتوں کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے گئے لیکن دنیا کے ان علاقوں میں جہاں مسلم اکثریت تھی، نئی دریافتوں کا فقدان رہا۔ معاشی حالات میں نمایاں تبدیلی ممکن نہ ہو پائی۔ عوامی حکومتیں ناکام ہوئیں۔ قوم مسلم کا وقار گھٹتا گیا۔ یہ امت مغرب کی جانب دیکھنے لگی اور اپنی بقاء کا دارو مدار صرف مغرب کی خوشنودی کو سمجھنے لگی۔
اکیسویں صدی کی شروعات مسلمانوں کی تذلیل سے شروع ہوچکی ہے۔ طاقت ور مغربی ممالک دہشت گردی کے تدارک کے بہانے مسلم ممالک پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔ معاشی اعتبار سے ان کو Colonize کرنے کا پروگرام بڑے پیمانے پر چل رہا ہے۔ اس ذلت آمیز دور سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ اسلامی دنیا میں ایک ایسا عقلی اورعلمی انقلاب بپا کیا جائے جس کو اسلامی نشاۃ ثانیہ کا نام دیا جاسکے۔
نشاۃ ثانیہ کی تعریف کسی معاشرے یا قوم کی تجدید، بحالی یا احیا کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ تیرہویں صدی کے بعد یوروپ نشاۃ ثانیہ کی بنا پر ہی اپنے تاریک دور سے باہر آسکا۔ یہ نشاۃ ثانیہ دراصل سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک انقلاب تھا جس نے دنیاوی معاملات میں کلیسیا کی بالادستی کو ختم کیا اور عیسائیت نے عقلیت پسندی، معاشی خوشحالی، سائنسی مزاج اور آزادیٔ اظہار کی راہ اختیار کی۔
اسلامی نشاۃ ثانیہ کے خدو خال ویسے ہی ہونے ضروری ہیں جیسا کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے تھے جس نے یورپ کو تاریک دور سے نجات دلائی۔ چرچ کی بالا دستی کو ختم کیا جاسکا، علم کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ سائنسی تخلیقات کے عمل کو تیز کرتے ہوئے ہر اس دینی نظریے کو مسترد کیا گیا جو یورپ کی سائنسی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔
آج کے مسلم سماج میں یورپ کے طرز کے نشاۃ ثانیہ کی شدید ضرورت ہے جہاں دین کی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے عصری علوم کو اہم مقام دیا جاسکے۔ علامہ اقبال، سرسید، محمد عبدہ کے فکری نظریات کو عام کیا جاسکے۔ سائنس اور ٹکنا لوجی کی ترقی کو لازمی قرار دیا جائے۔ عوامی خواہشات کی قدر کی جائے۔ دنیا کو بے ثبات کہنے کے نظریے کو ترک کیا جائے، عبادات کو تسخیر نفس کا ذریعہ سمجھا جائے نہ کہ تسخیر دنیا کا ذریعہ۔سماج میں عالموں کی قدر ہو اور عالموں کے معنی جدید علوم پر قدرت رکھنے والوں کے ہوں نہ کہ صرف دینی علوم کے جاننے والے۔
اس ضمن میں جناب سید حامد کے اس مضمون پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں انہوں نے حالات حاضرہ پر بڑی سچائی سے تبصرہ کیا ہے؛ وہ رقم طراز ہیں: ’’مسلمان سے وقت کا بے درد نقیب پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میرا ساتھ دو نہیں تو مٹ جاؤ گے لیکن مسلمانوں کی بے سدھ کروٹیں جواب دے رہی ہیں کہ دنیا میں رکھا ہی کیا ہے کہ کوئی اس کے لئے سر کھپائے۔ (تہذیب الاخلاق مئی ۱۹۸۶ء۔) مسلمان فی زمانہ سائنس سے دور ہیں، عام بے حسی کا زمانہ ہے۔ (سائنس نومبر ۲۰۰۲ء)
واضح رہے کہ جس صورت حال کو سید حامد صاحب نے ہندوستان (یا عالم اسلام) کے تناظرمیں بیان کیا ہے ویسا ہی حال یورپ کا نشاط ثانیہ سے قبل تھا۔ اس وقت بھی اس کے خیال میں بھی عوامی ذلت وخواری،غریبی و مفلسی کی وجہ خدا سے دوری تھی جسے صرف اور صرف پادری کی قربت سے ختم کیا جاسکتا تھا۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے مثبت اثرات کے ظاہر ہونے میں کافی عرصہ لگ گیا تھا لیکن آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کا عمل ماضی کے مقابلے میں زیادہ تیز ہونا ناگزیر ہے۔ اس کام کے لئے سائنسی ترقیوں کی خاطر قومی آمدنی کا کم سے کم تین فیصد حصہ خرچ کیا جانا ہوگا۔ درسگاہوں میں دینی اور عصری علوم کو دواخانوں میں بانٹنے کا رواج ختم کرنا ہوگا۔ سائنس کی بنیادی تعلیم کو لازمی قرار دیا جانا ہوگا۔ ہر مسلمان مرد وعورت پر علم کو فرض کیا جانا ہوگا۔ اوہام پرستی، فرسودہ رسم و رواج کو ترک کر کے نئے سائنسی رجحانات کو اپنانا ہوگا جیسا کہ عہد وسطیٰ میں مسلمانوں کا طریقہ تھا۔
اسلامی نشاۃ ثانیہ کا مقصد مسلمانوں میں اقتصادی سرگرمیوں میں مصروف رہنا ہونا چاہئے۔ اس بات کا علم ساری امت کو ہونا ہے کہ مادی دنیا میں غلامی اور تذلیل کی وجہ دین سے دوری نہیں ہے جس کا ذکر اکثرکچھ رہنما کرتے ہیں اور مسلمانوں کو احساس گناہ و شکست (Depression) میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ اقتصادی بدحالی ہے جسے صرف اور صرف عمل پیہم سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ یعنی سائنسی کامرانیوں کا عمل۔
خوش قسمتی سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مسلم دنیا میں تعلیم کے شعبہ میں خواندگی کو قابل قدر فروغ ملا۔ نتیجہ یہ ہے کہ 20 سے زیادہ ممالک میں شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ تاہم، تحقیق اور ترقی کے میدان میں مغرب کے مقابل بڑی خلیج باقی ہے۔ اسلامی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (IESCO) نے حال ہی میں تمام مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں تحقیق اور ترقی کے لئے اپنی مجموعی ملکی پیداوار کا کم سے کم دو فیصد مختص کریں۔
یہ بات سب کے علم میں ہونی چاہئے کہ باوجود تیل کی دولت کے تقریباً 52 ممالک پر مشتمل (آبادی۔ ایک سو اسی کروڑ) ساری مسلم دنیا کی قومی آمدنی (Gross Domestic Product) 9.4 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ امریکہ (USA) کی جی ڈی پی 24.3 ٹریلین ڈالر ہے حالانکہ اس کی آبادی صرف 33 کروڑ ہے۔ (World Bank 2023)
اس طرح غور کیا جائے تو ساری دنیا کی جو جی ڈی پی (95 ٹریلین ڈالر) ہے، اس کا کم و بیش 10 فیصد مسلمانوں کے پاس ہے جبکہ دنیا کی (کل آبادی آٹھ بلین) میں مسلمان 25 فیصد بستے ہیں۔ برخلاف اس کے عیسائی 31 فیصد ہیں لیکن ان کے پاس دنیا کی جی ڈی پی کا 50 فیصد سے زیادہ ہے۔
یاد رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق دسویں صدی میں مسلم اسپین کی قومی آمدنی باقی سارے یورپ کی آمدنی کے برابر سمجھی جاتی تھی۔ یہاں ایک اور ضروری مقابلہ قابل ذکر ہے کہ امریکہ، سائنسی تحقیقات (Research & Development) کے لئے ہر سال 660 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے جو اس کی قومی آمدنی کا کم و بیش تین فیصد ہے جبکہ پوری مسلم دنیا اس ضروری ریسرچ کے لئے صرف 72 بلین ڈالر۔ (World Bank)، اس صورت حال کو تیزی سے نہ بدلا گیا تو مسلمانوں کا مغرب کے ہاتھوں استحصال کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اسلامی نشاۃ ثانیہ میں سرسید احمد کی فکر کو اپنانا ہوگا اور علی گڑھ تحریک کو ساری دنیا میں عام کرنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ایسی طاقتوں کو مسلم سماج میں اہمیت نہ دی جائے جو حصول جدید علوم کو گمراہی کا راستہ بتائیں۔ امت مسلمہ کو حضرت مولانا رابع حسنی ندوی کے اس اعلان پر دھیان دینے کی ضرورت ہے جس میں فرمایاگیا ہے :
’’مغرب نے اپنی اصل طاقت وقت کے تقاضہ کا لحاظ کرنے اور ترویج علم اوراس میں فروغ حاصل کرنے سے بنائی ہے۔ انہوں نے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی وقوت کی نئی راہیں تلاش کیں اور اقتصادی طاقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آج اہل دین (مسلمان) قدیم اختیار کردہ ذرائع کو مقاصد کا درجہ دینے لگے ہیں اور بہتری کی جو صورتیں پیدا ہورہی ہیں ان کو اختیار کرنے سے گریزکرنے لگے ہیں‘‘۔ ( تعمیر حیات1994)
مولانا رابع ندوی کا یہ بیان مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم کے اس بیان کی عکاسی کرتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا:
’’اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید و بامقصد طریقہ پر سائنس وصنعت کو فروغ دیں اور علمی و سائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں اور ماہرین فن و سائنس دانوں کی فنی وعلمی تحقیقات کا جائزہ لیں اوران سے استفادہ کرکے تحقیق و جستجو اور تجربہ ومشاہدہ کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں‘‘۔ (مسلمان سائنسداں۔1985)
ملائیشیا کے وزیراعظم ماثر محمد نے کم وبیش انہیں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مسلمان صنعتی انقلاب میں مسیحی ملکوں سے بچھڑتے چلے جارہے ہیں اور لباس وزبان جیسے جزئیات میں الجھے رہتے ہیں۔‘‘
دسمبر۲۰۰۲ء میں انہیں حالات کے پیش نظر اسلامی دنیا کی تنظیم O.I.C نے ایک قرار داد منظور کی تھی جو اس طرح ہے۔
For the resurgence of Islam, Scientific renaissance constitutes an essential element – there is a need to acquire scientific knowledge to rekindle the flame of inquiry innovation (اجتہاد) in the Muslim Ummah
ترجمہ: اسلام کے احیاء کے لئے سائنسی نشاۃ ثانیہ ایک لازمی عنصر ہے- امت مسلمہ میں تحقیقاتی جدت (اجتہاد) کے شعلے کو دوبارہ جلانے کے لئے سائنسی علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم سے بہت قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی سائنسی سرگرمیوں کو اسلام کا لازمی جزو قرار دیا تھا اور تحقیق وجستجو کو اہمیت دی تھی لیکن حیف کہ فکری زوال کے بناء پر مسلمان اجتہادی صلاحیتیں کھو بیٹھا اور تقلید کو ہی مقصد حیات سمجھنے لگا۔
مسلمان ماضی کی شان و شوکت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ نشاۃ ثانیہ کو علمی جہاد کا نام دیں۔ حقیقی اسلامی اقدار کو فروغ دینا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپؐ کے فرمودات مسلمانوں کے لئے دینی اور دنیوی ضرورتوں پر عمل کرنے کا بہترین اور مثالی نمونہ ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
جو اصل میں ترجمہ ہے سورہ رعد کی اس آیت (۱۱) کا جس میں فرمایا گیا ہے :
ترجمہ: واقعی اللہ کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک کہ وہ لوگ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتے۔
اور یہی بنیاد ہے اسلامی نشاۃ ثانیہ کی۔ قوم مسلم میں تغیر لانے کے لئے اور اسلامی عظمت پانے کے لئے ایک سائنسئی نشاۃ ثانیہ کی اشد ضرورت ہے۔
ڈھونڈنے والوں کو ہم دنیا بھی نئی دیتے ہیں (علامہ اقبال)