سیاستمضامین

Live in Relationship کے نام پر

محمد مصطفی علی سروری

ہاردک شاہ کا تعلق راجستھان سے ہے۔ 15 سال کی عمر میں جب ہاردک نے دسویں کے امتحان میں شرکت کی تو وہ یہ امتحان پاس نہیں کرسکا۔ ہاردک کے والد ہیروں کی تجارت کرتے تھے۔ پیسے کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں تھی۔ انہوں نے ہاردک کو اچھے اسکول میں شریک کروایا تھا۔ لیکن ہاردک کبھی بھی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے سکا۔ حالانکہ وہ جتنا پیسہ مانگتا تھا ہاردک کی ماں اس کو دے دیا کرتی تھی۔ مگر ہاردک کے والد کو پتہ تھا کہ ہاردک دراصل غلط صحبت میں ہے۔ اس کے دوست اچھے نہیں ہیں۔ وہ بری عادتوں میں مبتلا ہیں۔ اور ہاردک کو باپ کی ڈانٹ سے نفرت اور دوستوں کی صحبت سے پیار ہوگیا تھا۔
ہاردک کو جب اس کے پتاجی نے موج مستی کے لیے پیسے دینے بند کردیئے کہ وہ نہ تو پڑھائی کر رہا ہے اور نہ ہی کاروبار سیکھ رہا ہے تو ایک دن ہاردک نے چوری کرنے کا کام کیا اور چوری کہیں اور نہیں بلکہ خود اپنے ہی گھر میں۔ اپنے باپ کی تجوری سے پیسے اور لاکھوں کے ہیرے چوری کیے اور گھر چھوڑ کر دوستوں کے ساتھ چلا گیا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ جیب میں پیسے تھے۔ ساتھ میں دوست۔ لیکن آہستہ آہستہ بینک بیالنس بھی ختم ہوگیا تو دوستوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور پھر جب کرونا کے سبب لاک ڈائون لگ گیا تو ہاردک کے لیے باہر کی دنیا بالکل بند ہوگئی۔ تب اس نے اپنی ماں کو فون کیا اور اپنی پریشانی بتلائی کہ اب تو وہ سڑک پر آگیا ہے۔ رہنے کے لیے کوئی چھت بھی باقی نہیں رہی ہے۔
ہاردک کی ماں نے سفارش کی تو اس کے باپ نے بھی بیٹے کو اس کی غلطیوں کے لیے معاف کردیا اور یوں ہاردک دوبارہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنے لگا۔ لیکن جلد ہی ہاردک اپنے باپ سے دوبارہ پیسے مانگنے لگا۔ آخر باپ بیٹے کے درمیان جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ کرونا لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد ہاردک کے والد نے اس کو گھر سے نکال دیا۔
ہاردک نے راجستھان میں اپنے ماں باپ کا گھر تو چھوڑ دیا اور ممبئی چلا آیا۔ جہاں پر اس نے ایک نرس کے ساتھ عاشقی کی۔ ہاردک کے پیار میں پاگل ہوکر میگھا تو روی نامی نرس نے اپنوں کو چھوڑ دیا اب ہاردک اور میگھا دونوں میاں بیوی کی طرح رہنے لگے۔ پہلے تو یہ لوگ نالاسوپارہ میں تھے۔ بعد میں ان لوگوں نے دوسرے علاقے میں ایک فلیٹ کرایہ پر لے لیا۔ ایجنٹ کو ان دونوں نے اپنا تعارف میاں بیوی کے طور پر کروایا۔ میگھا تو نرس تھی۔ روز اپنے کام پر جاتی تھی اور ہاردک صرف میگھا سے پیار کرنے کا کام کرتا تھا۔ لیکن پیار سے دونوں کا پیٹ نہیں بھرتا تھا اور اسی بات کو لے کر دونوں میں جھگڑاشروع ہوگیا۔
وہ ہاردک جو اس کو جنم دینے والے ماں باپ سے وفاداری نہیں کرسکا وہ میگھا سے کیا ہمدردی رکھتا۔ پھر ایک دن اس نے میگھا کو بھی چھوڑ دیا۔
قارئین ہاردک نے میگھا سے اپنا تعلق کیسے توڑا وہ بھی جان لیجئے۔ میگھا اگرچہ ہاردک کے پیار میں پاگل تھی لیکن عمر میں بڑی تھی۔ میگھا کی عمر 40 برس اور ہاردک کی عمر 27 برس تھی۔ لیکن میگھا حالات کی ستائی ہوئی ایسی عورت تھی جس نے ہاردک کی ہر بات پر یقین کرلیا تھا۔ لیکن میگھا جانتی تھی کہ وہ اکیلی کماتی ہے اور ہاردک صرف پیار کرتا ہے۔ میگھا ہاردک کو کہتی ہے کہ پیار کرنے کا مطلب خالی ہاتھ بیٹھنے سے نہیں ہے۔ اس لیے اس کو بھی محنت کرنی چاہیے اور کوئی کام ڈھونڈ لینا چاہیے۔ میگھا کی بات ہاردک کی سمجھ میں آگئی۔ اس نے بھی بالآخر کام ڈھونڈ لیا۔ لیکن یہ کام دوسری نوعیت کا تھا۔ کیونکہ ہاردک نے جو کام ڈھونڈا اس میں میگھا کے لیے ایک ہی رول تھا کہ میگھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوجائے۔ ہاردک نے میگھا کو گلا گھونٹ کر موت کی نیند سلادیا اور پھر اس کے مردہ جسم کو پلنگ کے نیچے سامان رکھنے کے خانے میں چھپا دیا۔
میگھا نرس کے طور پر کام کر کے گھر جمانے کے لیے جو ایک ایک چیز جوڑی تھی ہاردک گھر کا ایک ایک سامان بیچنے لگا۔ محنت تو وہ کرتا نہیں تھا۔ کھانا کھانے کے لیے جب رقم کی ضرورت تھی تو وہ گھر کا سامان بیچتا اور اس گھر میں کھانا کھاتا۔ جس کے پلنگ کے نیچے میگھا کی نعش چھپائی تھی۔
آخر میں ہاردک نے پرانا سامان خریدنے والے اسکراپ ڈیلر کو اپنے فلیٹ میں بلایا اور پلنگ کو چھوڑ کر سارا سامان بیچ دیا اور 4500/- حاصل کیے اور ان پیسوں سے راجستھان گھر واپس جانے ٹرین کا ٹکٹ خرید لیا اور اتوار 12؍ فروری کو ٹرین میں سوار ہوگیا۔ وہ جو کہاوت ہے کہ قاتل کو آخر کار اعتراف کرنا ہی واحد راستہ نظر آتا ہے تو ٹرین میں واپسی کے دوران اس نے میگھا کے رشتہ دار کو مسیج کیا کہ وہ لوگ فلیٹ میں جاکر میگھا کی نعش نکال لیں اور آخری رسومات انجام دیں۔
اخبار انڈین ایکسپریس کی 16؍ فروری کی رپورٹ کے مطابق ہاردک نے پولیس کو بتلایا کہ وہ بھی خود کشی کرنا چاہتا تھا مگر راجستھان میں اگلے اسٹیشن پر اترتے ہی پولیس نے ہاردک کو گرفتار کرلیا۔ کیونکہ میگھا کے گھروالوں نے پولیس میں شکایت درج کروادی تھی اور بتلادیا تھا کہ میگھا کا قتل کرنے کے بعد ہاردک ٹرین سے واپس اپنے گھر جارہا ہے۔
اخبارات نے اس واقعہ کی رپورٹنگ کے دوران واضح طور پر لکھا کہ ہاردک نے میگھا کے ساتھ شادی نہیں کی تھی بلکہ وہ دونوں Live in Relationship میں تھے۔
قارئین ہندوستانی میڈیا 12؍ نومبر 2022ء کو آفتاب پونا والا کو شردھا والکر کے قتل اور نعش کو ٹکڑے کر کے فریج میں چھپادینے کے واقعہ کے بعد آفتاب نامی قاتل کے بہانے جس طرح سے ملک کے مخصوص طبقے کو قاتل، دہشت گرد اور ظالم ثابت کرنے کے لیے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا وہ یہ بھول گیا تھا کہ ہندوستان میں آج سب سے مظلوم طبقہ خواتین کا ہے۔ چاہے ہندو ہو یا مسلمان، اونچی ذات سے ہوں یا نچلی ذات، خواتین کو بری طرح سے اور ہر برے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس میں کسی مذہب کا کوئی خاص تعلق نہیں بلکہ یہ ایک سماجی ناسور ہے۔
جس سماج میں شادیاں مشکل ترین بنادی جائیں وہاں Live in Relationship ہی فروغ پائے گی۔ جس پر کسی مذہب کا اور کسی قانون کا نفاذ نہیں اور شادی کے بغیر جوابدہی کے تصور سے عاری یہ مرد و عورت کے تعلقات کیا رنگ لاتے ہیں دیکھ لیجئے۔
ساحل گہلوٹ عمر 24 سال، نکی یادو عمر 23 سال کے ساتھ بغیر شادی کے ایک ساتھ زندگی گذار رہا تھا۔ ساحل دہلی میں سڑک کنارے ایک ہوٹل چلاتا ہے۔ ساحل نے اپنے گھر والوں کو بتلایا کہ وہ نکی یادو کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کے گھر والوں نے صاف طور پر منع کردیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے دوسری لڑکی کے ساتھ ساحل کی شادی بھی طئے کردی۔
9؍ فروری کی رات نکی یادو کو پتہ چلتا ہے کہ ساحل کے گھر والے اس کی شادی کسی دوسری لڑکی کے ساتھ طئے کرنے جارہے ہیں۔ نکی یادو ساحل گہلوٹ سے خوب بحث کرتی ہے۔ وہ کیسے کسی دوسری لڑکی کے ساتھ شادی کرسکتا ہے۔
اس نے نکی کے ساتھ شادی کا وعدہ کیا ہے۔ اس جھگڑے سے تنگ آکر ساحل گہلوٹ نے نکی یادو کو اپنی کار میں بٹھاکر گھمانے لے جاتا ہے اور راستہ میں موقع پاکر موبائل فون کے وائر سے نکی یادو کا گلا گھونٹ کر اس کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیتا ہے۔ اس کے بعد ساحل گہلوٹ نکی کی نعش اپنی ہوٹل کو لے جاکر ہوٹل کے فریج میں رکھ دیتا ہے اور گھر آکر کپڑے تبدیل کر کے دوسری لڑکی سے شادی کے لیے چلا جاتا ہے۔ جہاں پر اس کی شادی دوسری لڑکی سے ہوجاتی ہے۔
جب پولیس ایک خفیہ اطلاع پر کاروائی کرتے ہوئے ساحل کی ہوٹل کی تلاشی لیتی ہے تو وہاں سے پولیس کو نکی کی نعش ملتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ساحل کے والد کو پتہ تھا کہ ساحل نکی یادو کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا لیکن گھر والوں نے منع کردیا تو ساحل نے نکی کو مار ڈالا۔ وہاں پر ساحل دوسری لڑکی سے شادی کرلیتا ہے جو کہ گھر والے پسند کرتے ہیں۔
پولیس کے حوالے سے خبر رساں ادارے PTI نے 14؍ فروری کو خبر دی کہ ساحل دسویں کلاس کی کوچنگ لے رہا تھا اور نکی یادو میڈیکل کے انٹرنس کی کوچنگ، تب دونوں میں دوستی ہوجاتی ہے۔ دونوں فلیٹ لے کر ساتھ رہنے لگتے ہیں اور نکی یادو کو میڈیکل میں داخلہ نہیں ملتا ہے تو وہ بی اے انگلش کرنے لگتی ہے اور ساحل ڈی فارم پڑھنے لگتا ہے۔ کویڈ میں اپنے گھروں کو چلے جانے والے یہ لڑکا لڑکی کویڈ کے بعد دوبارہ ایک ہی فلیٹ میں رہنے لگتے ہیں اور ان کے تعلقات کو میڈیا نے Live in Relationship سے تعبیر کیا ہے۔ جب ساحل کی شادی کہیں اور طئے ہوجاتی ہے تو نکی یادو احتجاج کرتی ہے۔ تب ساحل نکی کا قتل کردیتا ہے۔
اب چونکہ ساحل بھی غیر مسلم اور نکی یادو بھی غیر مسلم تو میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ نکی یادو بھی ایک لڑکی ہے۔ اس کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کا قتل بھی ہوجاتا ہے مگر میڈیا کو ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ اس لیے اس واقعہ کو آفتاب پونا والا کی طرح اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔
قارئین کرام Live in Relationship کے بعد خواتین اور لڑکیوں کے قتل کردینے کے واقعات کس طرح دل کو دہلا دیتے ہیں اور سونچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ہر فکر مند شہری کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے سدباب کے لیے اقدامات کرے۔
21؍ فروری کو اخبار نیو انڈین ایکسپریس نے دہلی سے خبر دی کہ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس (AIMS) میں 10 دنوں تک موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا 28 برس کی ایک خاتون نے بالآخر 20؍ فروری کو دم توڑ دیا۔
خبر کی تفصیلات کے مطابق 28سالہ خاتون 6 برس قبل اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد Live in Relationship میں موہت نامی شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔ اس خاتون کو 8 سال کا ایک لڑکا پہلے شوہر سے ہے اور جس شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی اس سے خاتون کو چار سال کی لڑکی ہے۔ خاتون کو جب اپنے پارٹنر کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ دوستوں کے ساتھ نشہ کرتا ہے تو وہ اس پر اعتراض کرتی ہے جس پر غصے میں آکر موہت نے اپنی ساتھی خاتون پر تیل چھڑک کر آگ لگادی۔
میڈیاء مسلم لڑکیوں کے برقعہ پر آواز اٹھاتا ہے۔ یہ ان کی آزادی کے خلاف ہے۔ میڈیا طلاق ثلاثہ کو مسلم خواتین پر ظلم سے تعبیر کرتا ہے۔ میڈیا مسلمانوں میں لڑکی کے بالغ ہوتے ہی شادی کرنے کو کم عمر لڑکیوں کے ساتھ زیادتی قرار دیتا ہے۔ میڈیا مسلم مردوں کے طلاق کے حق پر اعتراض جتاتا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کی کل آبادی کا مسلمان صرف 15 فیصد ہے۔ لیکن جب زیادتی، ہراسانی اور ظلم، غیر مسلم خواتین پر ہوتو یہی میڈیا لب کشائی سے گریز کرتا ہے۔ یا صرف رسماً کوریج کر کے خاموشی اختیار کرتا ہے۔ زیر نظر کالم میں تو صرف ان چند ایک واقعات کو بطور حوالہ درج کیا گیا ہے۔ جو گذشتہ ہفتے کے دوران نظروں سے گزرے ورنہ حقیقی صورت حال تو ا س سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ کاش کہ ہم مسلمان بھی اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور دیگر برادران وطن تک مذہب اسلام کا لٹریچر ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے عملی نمونے بھی پیش کریں۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں) sarwari829@yahoo.com