مان نہ مان میں تیرا مہمان ، بن بلائے مہمانوں کا شگفتہ تذکرہ
بعض اوقات اتنے دلچسپ اوردل پذیر ہوتے کہ مدتوں بعد نہیں بھولتے تھے اور ان واقعات کوریفرنس کے طورپر پیش کیا جاسکتا تھا۔ انہی واقعات کوپیش نظررکھتے ہوئے ایک آپ بیتی رقم کررہا ہوں۔ امید ہے قارئین پسند فرمائیںگے۔
حبیب اشرف صبوحی:۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ، اُردو رسالوں کو اپنے گھر آتے دیکھا۔ ان کے مضامین، افسانے خاص طورپر لوگوں کی آب بیتیاں اورجگ بیتیاں عوام میں بہت مقبول ہوتی تھیں۔ بعض اوقات اتنے دلچسپ اوردل پذیر ہوتے کہ مدتوں بعد نہیں بھولتے تھے اور ان واقعات کوریفرنس کے طورپر پیش کیا جاسکتا تھا۔ انہی واقعات کوپیش نظررکھتے ہوئے ایک آپ بیتی رقم کررہا ہوں۔ امید ہے قارئین پسند فرمائیںگے۔
1990ء میں دوران ملازمت میرا تبادلہ کسی دوسرے شہر ہوگیا۔ جہاں میں چھ سال مقیم رہا۔ جن صاحب سے چارج لیاان کا نام چودھری صاحب تھا۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں یہاں بہت تھوڑے عرصہ رہا ہوں۔ اپنے بچوں کوبھی یہاں کی سیرنہیں کراسکا۔
موقع ملا تو میں ان کو لے کرآؤں گا، یہ بڑی پرفضا جگہ ہے۔ بڑی پرسکون اورقابلِ دید مناظر ہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ چودھری صاحب جب کبھی ٹیلی فون کرتے یا میں سرکاری طورپر شہرجاتا، تو وہ اس بات کی یاددہانی کراتے کہ میںاور میری بیگم ایک دوروزکے لیے آپ کے پاس آئیں گے۔ میں ان کو ’’خوش آمدید‘‘ کہتا۔ وقت گزرتا گیا۔
چندسال بعدچودھری صاحب کا خط آیا۔ اس میں لکھا تھا کہ وہ فلاں تاریخ کومیرے شہر ایک شادی میں آرہے ہیں۔ ایک دوروز کے لیےمیرے ہاں آنا چاہتے ہیں۔ اس روز سرکاری گاڑی بھیج دیں، تو میں اور میری بیگم چلے آئیں گے۔
ایک روز صبح فون آیا کہ میں آگیا ہوں۔ آپ12بجے تک مقررہ جگہ بھیج دیں۔دوپہر کا کھانا آپ کے ساتھ آپ کے گھرپر کھاؤں گا۔ میں نے ان سے مکمل پتا لے لیا تاکہ ڈرائیوراورگاڑی بھیج دوں۔
ہمارے دفتر کے مینیجرنے یہ نوٹیفکیشن جاری کیاتھا کہ شہر سے باہر اگر کوئی گاڑی گئی، تووہ میری اجازت سے جائے گی ورنہ نہیں۔ اتفاق سے ایک روزقبل میں نے ریجنل مینیجر سے اجازت لے کر گاڑی بھیجی تھی۔
اگراگلے روزاجازت مانگنا تومینیجر اعتراض لگاتے کہ ابھی کل ہی تو گاڑی شہر گئی ہے، آج پھرتم دوبارہ بھیج رہے ہو…
میں نے سوچا ،ایک بجے تک گاڑی جاکر واپس آجائے گی، اس لیے اجازت کی ضرورت نہیں۔ میں نے ڈرائیور کو بتادیا کہ تم ہر حالت میں ایک بجے تک پہنچ جانا اور اس کوروانہ کردیا۔
گھر میں کہہ دیا کہ دومہمانوں کے لیے کھانا تیارکردیں۔ میں کھانے پرمہمانوں کا انتظار کرتارہا پھروقت گزرتا گیا اور ساتھ ہی میرے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوتی گئیں۔ مغرب کا وقت ہوگیا۔ جلد بارش اورژالہ باری بھی شروع ہوگئی۔
موسم تبدیل ہونے سے ‘سردی شروع ہوگئی اور عشا کی اذانیں ہونے لگیں۔ ساتھ میرے بلڈپریشر کا معیار بھی بلند ہونے لگا اورہاتھ میں تسبیح آگئی۔ مجھے سوفیصد یقین ہوگیا کہ گاڑی کسی حادثہ کا شکار ہوچکی۔ میں دفتر کے کسی آدمی کواس پریشانی میں حصہ دار نہیں بناسکتا تھا۔
دوپہر سے میں نے مہمانوں کے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایاتھا۔ لہٰذا بڑی مصیبت میں گرفتار تھا۔ سوچا کہ اگر حادثہ ہوگیا ،توسب سے پہلے ذمہ داری مجھ پر آئے گی کہ بغیر اجازت گاڑی کسی دوسرے شہر کیوں بھیجی ؟
اس کے علاوہ کئی اور انتظامی معاملات بھی پیش نظرتھے۔ بارش اورژالہ باری اتنی تیز تھی کہ رکنے کا نام نہ لیتی۔ اسی دوران بجلی بھی چلی گئی…
رات تقریباً سواگیارہ بجے ہارن کی آواز آئی ،توسانس میں سانس آئی۔ چھتری اورلالٹیں لیتے ہوئے دروازہ کھولا۔ گاڑی کو ٹھیک حالت میں پایا توشکرکی سانس لی۔ لیکن دوسرے لمحے ساری خوشی کافورہوگئی جب گاڑی سے پوری بارات اترتے دیکھی۔ چھوٹے بڑے افراد کوملا کر بارہ نفوس تھے۔
میرا بلڈپریشر پھر بلندی پرپہنچ گیا۔ میرے مہمان جان گئے کہ میں پریشان ہوں۔ میرے گلے لگتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں بولے میرے ساس سسر ہیں لندن سے آئے ہیں۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ ہم آپ کے ہاں جارہے ہیں تووہ کہنے لگے کہ ہم بھی ساتھ چلیں گے، باقی میرے بچے وغیرہ ہیں۔
میں نے کہا ’’بھائی آپ تو دوپہر کوآنے والے تھے۔ ‘‘ کہنے لگے ’’جب ہم نکلنے لگے تو شادی کے گھروالوں نے کہا کہ آپ ولیمہ کھاکرجانا۔ کھانا دیرسے شروع ہوا۔ واپسی پراس طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جگہ ٹھہرنے رہے، طوفان کم ہوا توچل دیے۔‘‘
جلے دل کے ساتھ سب کو گھر کے اندرلائے۔ پوچھا، کھانا کھائیں گے؟ بولے ہاں !وہ تو ہم کھائیں گے۔ اس سے قبل کہ ان کے لیے کھانا تیار کیاجاتا، میری بیگم کہنے لگی کہ سردی شدیدہوگئی ہے۔ ان کے لیے لحاف اورگدوں کا انتظام کرنا ہوگا۔ چنان چہ محلے والوں کواٹھایاگیا۔
ان کے گھروں سے لحاف وغیرہ اکٹھے کیے گئے۔ پھران کے لیے کھانا تیار ہوا۔ رات دو بجے فارغ ہوئے۔ صبح ان لوگوں کے لیے ناشتا تیارکیاگیا۔ دوپہر کوگاڑی دی گئی تاکہ وہ شہر کی سیرکر لیں۔ دوروزبعدہمیں کہیں اورایک شادی میں جانا تھا۔ تیسرے روزمہمانوں سے کہا ’’جناب کل ہم جارہے ہیں ایک شادی میں !‘‘ آپ کا کیا پروگرام ہے؟
کہنے لگے، آپ بخوشی جائیں، ابھی ہم ایک ہفتہ اوررہیں گے ۔ گھر کی چابی ہمیں دے دیں۔ جب ہم یہاںسے گئے تالا لگاچابی پڑوس میں دے جائیں گے۔ اطمینان رکھیں!آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
انھیں بتایا کہ میری بیگم اس بات کو اجازت نہیں دے گی۔ ہمارے گھرکا ماحوال بھی خراب ہورہا ہے ۔ ہمارے دفتر کے سبھی لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ آپ کسی دوسرے گھر منتقل ہوجائیں۔ کہنے لگے، جوسکون آپ کے گھر ملا، وہ کہیں اورنہیں ملتا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ہمیں بے سکون کرکے انھیں کتنا سکون مل رہا ہے۔
جب انھیں مجبورکیا، تو ہمارے مہمان کہنے لگے ’’لگتا ہے آپ ہمارے ساتھ مذاق کررہے ہیں؟ آپ کا کہیںجانے والا پروگرام نہیں، آپ ہمیں بھگانا چاہتے ہیں۔ اگرآپ جارہے ہیں، تو ہمارے ٹکٹ بھی خریدلیں۔‘‘
میں نے کہا۔’’بہت اچھا!‘‘ جب میں ان کے ٹکٹ خریدلایا توکہنے لگے، واقعی آپ جارہے ہیں، توپھر ہم آپ کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔ پھرخودہی کہنے لگے کہ آپ جھوٹوں کوجھوٹوں کے گھر تک تو پہنچاتے تھے۔ ہمیں یہ نہیں پتاکہ آپ مہمانوں کو بھی گھرتک پہنچاتے ہیں۔‘‘
اسی ضمن میں بن بلائے مہمان کا ایک اورواقعہ یادآگیا۔ایک روز رات کو عشا کے بعدکھانا کھاکرسونے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ کال بیل بجی۔ دروازہ کھولا تو دفتر کا چوکیدار کھڑاتھا۔ اس کے ساتھ دوگاڑیاں تھیں جس میں خواتین اوربچے سوار تھے۔ چوکیدار نے کہا کہ یہ آپ کے مہمان ہیں۔
آپ کا پتا پوچھ رہے تھے، میں گھر لے آیا۔ گاڑی کے قریب گیا، تو دیکھا کہ ہمارے بہت دور کے عزیز جنھوں نے تین شادیاں کررکھی تھیں۔ اب دو بیویوں اور بچوں کے ساتھ آئے تھے۔ بڑے پتاک سے ملے، کہنے لگے، ہم جا کہیں اوررہے تھے۔ راستے میں گاڑی خراب ہوگئی تھی جواب ٹھیک ہوگئی۔
رات کوسفر کرنا خطرناک تھا۔ آپ کادفتر کابورڈ نظرآیا تو ہمیں آپ یاد آگئے۔ اب چوکیدار کی مددسے آپ کے گھر تک پہنچ چکے۔ رات یہیں قیام کریں گے۔‘‘
میں نے کہا ’’خوش آمدید!‘‘
ہم نے ان کی گاڑیاں اپنے پڑوس میں کھڑی کرائیں۔ پھر ان سے پوچھا ’’آپ کھانا کھائیں گے؟‘‘
کہنے لگے کہ ہم نے سوچا، ہوٹل سے کھانا کھالیتے ہیں۔ لیکن تمام ہوٹل بند تھے۔ میں نے کہا کہ آپ فکرنہ کریں، ابھی کھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ وہ تقریباً بارہ لوگ تھے۔ بیگم سے پوچھا کہ گھرمیں کھانا وغیرہ ہے یابازارسے لے آؤں ؟ انھوں نے کہا کہ بازارسے کچھ لانا پڑے گا اور باقی گھرمیں انتظام ہوجائے گا۔
میں گھرسے برتن لے کر موٹر سائیکل پربازار چلاگیا تاکہ کوئی سالن وغیرہ بنوا کرلاؤں۔ تقریباً سب ہوٹل بند ہوچکے تھے۔ لاری اڈا گیا، وہاں ایک ہوٹل کھلاتھا۔ اس کو میں نے بالٹی گوشت بنانے کا کہا۔ مالک ہوٹل بولا ’’میں نے یہ دو کلوگوشت ابھی بنایا ہے۔
ایک گاہک کے کہنے پر ،مگر وہ نہیں آیا،بالکل تازہ ہے۔ میں بالٹی گوشت لے کر آگیا ۔گھر آکرگرم کیا تواس میں سے بدبو کے بھبکے آنے لگے۔ پتاچلا کہ باسی گوشت تھا۔ چنانچہ دوبارہ اسے برتن میںڈالا اورواپس کرنے جانے لگا۔ ہمارے مہمان کہنے لگے کہ میں بھی ساتھ چلتا اور اس دکاندار کواچھا سبق سکھاتا ہوں۔
چنانچہ وہ میرے ساتھ موٹرسائیکل پربیٹھ گئے ۔ ان کے ایک ہاتھ میں برتن تھا۔ جب ہم آدھے راستے تک پہنچے توموٹرسائیکل پنکچرہوگئی۔ اب آدھی رات کے وقت میں موٹرسائیکل گھسیٹتے ہوئے چل رہاتھا اورمہمان کے ہاتھ میں برتن تھا۔ جب میں موٹرسائیکل گھسیٹتا ہواتھک جاتا تووہ گھسیٹتے لگتے۔
تب برتن میں پکڑلیتا۔ جب وہ تھک جاتے تو میں برتن پکڑلیتا۔ جدوجہد اورپریشانی کے بعدہوٹل پرپہنچے تومالک اسے بند کررہاتھا۔ ہم نے اسے جاکر سالن سنگھایا اور اسے بڑا برابھلا کہا۔ اس سے بڑی مشکلوں سے رقم واپس کی۔
ایک دکان سے انڈے لیے پھر ایک سوزوکی کرائے پر لی۔ اس پرموٹرسائیکل کوچڑھا یا اور بڑے کشٹ اٹھاکر گھر پہنچے ۔ انڈوں کا آملیٹ بنوایا اورکچھ گھر میں سالن وغیرہ تھا۔ مہمانوں کورات گئے کھانا کھلا کرفارغ ہوئے۔ صبح ناشتا وغیرہ کا انتظام کیا۔ پھر مہمانوں نے شہر کے تفریحی مقامات کی تفصیل پوچھی۔
جب بتائی توکہنے لگے کہ اب ہم سب ان مقامات کی سیرکرکے ہی جائیں گے۔چنانچہ وہ لوگ دوروز اورٹھہرے اورمہمان داری کا حق ادا کرنے کے بعد آگے روانہ ہوئے۔ اس کوکہتے ہیں: ’’مان نہ مان میںتیرا مہمان!‘‘
٭٭٭