مہاراشٹرا

مہاراشٹرا میں چھوٹے مسائل کو مذہبی رنگ دیا جارہا ہے: شردپوار

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) صدر شردپوار نے چہارشنبہ کے دن دعویٰ کیا کہ مہاراشٹرا میں بعض چھوٹے مسائل کو ”مذہبی رنگ“ دیا جارہا ہے اور برسراقتدار جماعتیں ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں جو باعث ِ تشویش ہے۔

اورنگ آباد: نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) صدر شردپوار نے چہارشنبہ کے دن دعویٰ کیا کہ مہاراشٹرا میں بعض چھوٹے مسائل کو ”مذہبی رنگ“ دیا جارہا ہے اور برسراقتدار جماعتیں ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں جو باعث ِ تشویش ہے۔

متعلقہ خبریں
مہاراشٹرا میں دستانے بنانے والی فیکٹری میں آتشزدگی، 13 مزدور ہلاک
شردپوار گروپ کا نام ’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی شردچندر پوار‘
چار سالہ لڑکی کو مسلسل اذیت دینے پر باپ اور 2 چاچاؤں کے خلاف کیس درج
نواب ملک کو سپریم کورٹ سے 2 ماہ کی عبوری ضمانت
عزیزوں کی توہم پرستی سے مریض کی حالت بگڑی (توہم پرستی کا ایک ویڈیو)

شردپوار نے احمدنگر میں ایک جلوس کے دوران بعض نوجوانوں کی طرف سے 17 ویں صدی کے مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی تصویر لہرانے اور چہارشنبہ کے دن کولہاپور میں ٹیپو سلطان کی تصویر کے قابل اعتراض آڈیو میسیج کے ساتھ بعض مقامی لوگوں کے سوشل میڈیا پر استعمال پر کشیدگی کے پس منظر میں یہ ریمارک کیا۔

نظم وضبط کی صورتِ حال اور تشدد کے بعض واقعات کے بارے میں پوچھنے پر شردپوار نے دعویٰ کیا کہ ریاست میں بعض چھوٹے مسائل کو مذہبی رنگ دیا جارہا ہے۔

ریاست میں نظم وضبط کی برقراری کے لئے حکمراں ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اگر برسراقتدار جماعتیں اور ان کے لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور دونوں مذاہب میں پھوٹ پیدا کریں تو یہ اچھی علامت نہیں۔ این سی پی قائد نے اورنگ آباد میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ حال میں ہم نے اورنگ آباد واقعہ کے بارے میں سنا۔ آج میں نے کولہاپور کی خبر دیکھی ہے۔

لوگوں کا سڑکوں پر نکل آنا اور فون پر ایک میسیج بھیجنے کے چھوٹے واقعہ کو مذہبی رنگ دینا اچھی علامت نہیں۔ برسراقتدار جماعتیں ایسی چیزوں کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ کولہاپور میں دایاں بازو کارکنوں کے ایک گروپ نے ٹیپو سلطان کی تصویر کے ساتھ ایک قابل اعتراض آڈیو میسیج پر احتجاج کیا۔ بعض مقامی لوگوں نے اسے سوشل میڈیا پر اپنا اسٹیٹس بنارکھا تھا۔

بعدازاں چند لوگوں نے سنگباری کی۔ پولیس کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنا پڑا۔ ایک پولیس عہدیدار نے یہ بات بتائی۔ این سی پی سربراہ نے کہا کہ موبائل فون سے بھیجے گئے کسی بھی میسیج کو مذہبی رنگ دینا غلط ہے۔ نظم وضبط کی برقراری حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن حکومت ہی لوگوں کو بھڑکائے اور سماج میں پھوٹ ڈالے تو یہ اچھی علامت نہیں۔

شرد پوار نے کہا کہ ریاست میں پچھلے چند دن میں فساد جیسے واقعات پیش آچکے ہیں لیکن اچھی بات یہ رہی کہ کشیدگی متعلقہ علاقہ تک محدود رہی۔ انہو ں نے کہا کہ ایسی حرکتیں دانستہ کی جارہی ہیں۔ مثال کے طورپر اگر کسی نے اورنگ آباد میں اورنگ زیب کا پورٹریٹ دکھایا تو پونے میں احتجاج کی کیا وجہ ہے؟۔

شردپوار نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اوڈیشہ اور بعض دیگر ریاستوں میں گرجا گھروں پر حملے ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عیسائی پرامن برادری ہیں۔ خاطیوں کو سزا ملنی چاہئے لیکن اس کے بجائے چرچ نشانہ بن رہے ہیں۔ کوئی فردِ واحد ایسا نہیں کرسکتا بلکہ ایک مخصوص آئیڈیالوجی کام کررہی ہے جو سماج کے لئے ٹھیک نہیں۔