انٹرٹینمنٹ

منا بھائی ایم بی بی ایس کے مقصود بھائی (سریندر راجن) ملک میں مسلمانوں پر ظلم و ستم سے پریشان

انہوں نے کہا کہ وہ موجودہ حالات کی وجہ سے بے چین ہیں کیونکہ فی الحال مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والے ناتھورام گوڈسے کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہر معاملے میں مذہب کو سامنے رکھ کر سیاسی مساوات کو آسان بنایا جارہا ہے۔

ممبئی: مشہور زمانہ فلم منا بھائی ایم بی بی ایس میں ‘جادو کی جھپی’ دے کر پردہ سیمیں پر سب کو خوش کرنے والے 81 سالہ فلمی اداکار سریندر راجن نے ملک کے موجودہ حالات سے پریشان ہو کر اپنا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ موجودہ حالات کی وجہ سے بے چین ہیں کیونکہ فی الحال مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والے ناتھورام گوڈسے کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہر معاملے میں مذہب کو سامنے رکھ کر سیاسی مساوات کو آسان بنایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ غربت، بے روزگاری اور تعلیم جیسے اہم موضوعات کو نظر انداز کرکے مرکزی حکومت نفرت کی زمین بنا رہی ہے۔ سریندر راجن، جنہوں نے فلموں اور کئی ٹیلی ویژن سیریلز میں کام کیا ہے، نے ایک رسالہ سے خصوصی بات چیت میں اپنا درد بیان کیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا غیر ملکی ہندوؤں کے تحفظ کی بات کرنے والی حکومت ہندوستانی ہندوؤں کی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ ہر ایک عام آدمی جدوجہد پر مجبور ہے، اسے سمجھ نہیں آرہی کہ شکایت کس سے کی جائے۔

 ایسی سوچ کے خلاف ہندومت چھوڑ کر میں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں حکومت سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ آئے اور میرے ساتھ وہی سلوک کرے جیسا کہ وہ ایک عام مسلمان کے ساتھ کررہی ہے۔

راجن نے مزید کہا کہ میں کسی مذہب کو نہیں مانتا۔ بہت سے دوستوں نے کہا کہ آپ ہندو مذہب کو بھی نہیں مانتے، پھر اپنا مذہب کیوں بدلتے ہیں؟ تو میں کہتا ہوں، یہ احتجاج ہے کہ میں ملک میں نفرت کے بیج بونے نہیں دوں گا۔

راجن نے کہا کہ وہ کچھ دنوں سے مسلمانوں کی طرح ٹوپی پہن کر ان کے مسائل کو سمجھ رہے ہیں۔ حال ہی میں جب میں ممبئی کے اوبرائے مال میں سامان خریدنے گیا اور واپسی میں میری ٹوپی اور داڑھی دیکھ کر بس ڈرائیور نے حقارت سے دیکھا۔

جیسے ہی میں نے بس میں سوار ہونے کی کوشش کی، اس نے بس تیزی سے آگے بڑھا دی۔ میں گرنے لگا جس پر وہ زور سے ہنسا، اتنی نفرت؟

انہوں نے بتایا کہ حالات سے تنگ آکر وہ کچھ عرصہ قبل ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن سوچا کہ میں کیسے بچ سکتا ہوں؟ وہ واپس آئے اور احتجاج میں کھڑے ہو گئے۔

a3w
a3w