حیدرآباد

مسلم نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقصد زندگی کو سمجھیں اور اپنی شناخت کو مٹنے نہ دیں: مولانا حافظ پیر شبیراحمد کا بیان

شیخ سعدی کا مشہور قول ہے ” در جوانی تو بہ کردن شیوہ پیغمبری کہ جوانی میں تو بہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ اور طریق رہا ہے۔ ہم اگر اپنے زمانے پر نگاہ ڈالیں تو ہر نظیم تحریک، جماعت اور فوج میں نو جوانوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

حیدرآباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دین اسلام میں نو جوانوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے، جوانی ایک عظیم نعمت ہے، اور یہ مقام اس لئے عطا کیا گیا ہے کیونکہ نو جوان وہ صلاحیت رکھتا ہے جو بزرگ میں نہیں ہوتی ہے۔

جوانی کے قیمتی لمحات انمول ہوتے ہیں، یہ قوت و توانائی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ، اس لیے کامیابی کے کسی بھی امید وار کی یہ ذمہ داری ہے کہ جوانی اللہ تعالی کی اطاعت میں گزارے اور جوانی کے شب و روز عبادت الہی سے بھر پور رکھے، قرب الہی کی جستجو میں رہے، ہمہ وقت نفسانی اورشیطانی خواہشات کے مقابلے کیلئے جدو جہد کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو، آپ نے ان پانچ چیزوں میں بڑھاپے سے پہلے جوانی کا بھی ذکر فرمایا۔

نوجوانوں کی بہتری میں امت کی بہتری ہے، لہذا یہ امت اس وقت تک خوشحال ، معزز ، کامیاب، اور بہتری کی طرف گامزن نہیں ہو سکتی جب تک اس امت کے نو جوان عہد اول کے جوانوں کی طرح نہ بن جائیں ، ان کی دینی وابستگی اعلی ترین ، زندگی بھی خوشحال ، اور کسی بھی مفید اور نیک کام کیلیے جوش و جذ بہ بھی دیدنی ہوتا تھا۔

شیخ سعدی کا مشہور قول ہے ” در جوانی تو بہ کردن شیوہ پیغمبری کہ جوانی میں تو بہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ اور طریق رہا ہے۔ ہم اگر اپنے زمانے پر نگاہ ڈالیں تو ہر نظیم تحریک، جماعت اور فوج میں نو جوانوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

 سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نوجوان خودشناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں ، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور بڑے قومی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کرنے کی کوشش کریں اور اپنے سماج سے ہر قسم کی برائی کو ختم کر کے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں جس میں امن سلامتی ، برداشت رواداری اور اخوت ، سخاوت اور محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں ۔

نو جوانوں کے خیالات بلند ہوں، انسان کامل اور مرد مومن بننے کی خواہش ان کے دل کے اندر موجود ہو۔ لیکن آج کا نوجوان یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ شریعت نے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اس کا وجود، انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی کی امانت ہے، لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا، اسے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق استعمال کرنا ، اس سے وہ کام لینا جس کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے اور اسے نقصان وزیاں سے بچانا لازم ہے۔

 قیامت کے دن اس جوانی کے بارے میں خصوصی سوال کیا جائے گا۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے (۱) عمر کن کاموں میں گنوائی ؟ (۲) جوانی کی توانائی کہاں صرف کی ؟ (۳) مال کہاں سے کمایا ؟ (۴) اور کہاں خرچ کیا؟ (۵) جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا ؟

 لیکن آج کے نو جوانوں کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے، اپنے معاشرے پر نظر ڈالئیے اور دیکھئیے کہ آج کے مسلم نو جوان کہاں کھڑے ہیں؟ وہ کہاں مصروف ہیں؟ انکے مشاغل کیا ہیں؟ انکے شوق کیا ہیں؟ اسکے معمولات کیا ہے؟ نوجوان منشیات، فحاشی، خرافات جیسے کاموں میں اپنی جوانی، اپنا زور لگارہا ہے اور وہ ان میں ایسا مبتلا ہوا ہے کہ وہ سب کچھ بھول گیا ہے کہ میر اوجود کیا ہے اور میری شناخت کیا ہے۔

 لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ شیطان نو جوانوں کے ساتھ بڑی سخت دشمنی روا رکھتا ہے، اس کے لیے وہ نو جوانوں کو اہل باطل کےقافلے میں شامل کر کے جہنم کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے، لہٰذا مسلم نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقصد زندگی کو سمجھیں اور اپنی شناخت کو مٹنے نہ دیں۔کیونکہ قوم اس وقت تباہ نہیں ہوتی ہے جب کسی کی موت ہوتی ہے بلکہ قوم اُس وقت تباہ ہوتی ہے جب اس قوم کا نو جوان اپنی شناخت بھول جاتا ہے ۔

 الغرض نو جوان اپنے آپ پر نظر ڈالے کہ میری ذمہ داری کیا ہے، اور میں کسی حد تک اپنی ذمہ داری سے انصاف کر رہا ہوں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین