مضامین

حامدانصاری کے سیاسی قدوقامت پرحملہ بھارت کی توہین ہے

صوفی انیس دُرّانی

عیدقرباںپراستعمال ہونے والی چھریوں پر ابھی دوبارہ سان بھی نہیں رکھی گئی تھی، ان کند ہوچکی چھریوں اور چھروں کودوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے تیاریاں ہی کی جارہی تھیں کہ سابق نائب صدرجمہوریہ جناب حامدانصاری کی گردن پر ان سے مشق نازکی جانے لگی۔ بدبختوں نے اس بات کا بھی لحاظ نہیں کیا کہ عمر کے سردو گرم دیکھ چکی یہ گردن اب مزیدزخم کھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی، لیکن ملک کی قیادت کرنے والا موجودہ سفاک ٹولہ جو تمام اخلاقی اور سیاسی قیود سے مادر پدر آزاد ہے، کیسے کوئی اچھا کام کرسکتاہے ۔ اس کی تورگ رگ میں رام رام اور رادھے رادھے کرنے والا راون کاخون دوڑرہا ہے۔ بھارت کا ایک بطل جلیل جس نے اپنی ساری زندگی بھارت کی سیوا میں گزاردی اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں خدمات انجام دیں اور آج بھی یہ مدبر قلم کے ذریعہ قوم کو صحیح راہ پر چلنے کی ترغیب دیتاہے۔
گزشتہ کئی روز سے حکومت کا گردان گودی میڈیا سابق نائب صدر جمہوریہ کے عہد میں ہوئی کچھ سیاسی اور سفارتی کانفرنسوں کو لے کر ایسے مبہم اور غیرمبہم ہوائیاں چھوڑرہا ہے جس میں ان کی صاف وشفاف شخصیت کو داغدار بنانے کی کوششیں صاف نظرآرہی ہیں۔ اس سارے فتنہ کا سرخیل بھارتیہ جنتا پارٹی کاترجمان گورو بھاٹیہ ہے جو کھودکھودکر سڑی گلی لاشیںاس لیے نکال رہا ہے کیوں کہ لاشوں کی شناخت کرنا بہت ہی مشکل اور لاحاصل کام ہے۔صرف متوفیان کے نام اور ڈھانچے نکال کر دکھانے سے کوئی قانونی کیس نہیں بنتاہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ مذکورہ واقعات کئی سال پرانے ہیں، اب ان کا پاکستان کے ایک ناقابل اعتبار صحافی نے کسی سانٹھ گانٹھ کے سبب یہ سارامعاملہ طشت ازبام کیا ہے، اس کو پانچ مرتبہ ایک غیر معروف صحافی ہونے کے سبب ہی بھارت میں مدعو کیا گیاتھا اور ان ملاقاتوں میں جو خاص معلومات خفیہ اس کے علم میں آئیں، اس نے انھیں پاکستانی خفیہ ایجنسی ISIکے بریگیڈیرکو سونپ دیں، موصوف کایہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمودقصوری سے ان کے بہت نجی قسم کے تعلقات ہیں۔ یہ بات نصرت مرزا جیسے غیر معروف صحافی نے اس لیے کہی تاکہ اس کا صحافتی وزن بڑھ سکے۔ جو لوگ پاکستانی سیاست پر نظررکھتے ہیں، وہ اس سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ پاکستان کے سیاست داں صحافیوں کی بالکل عزت نہیں کرتے کیوں کہ جب نام نہاد جمہوریت وہاں آتی ہے تویہ بیشتر صحافی جاگیردار اور ووٹروں اور نواز شریف کے مخبروں کے آگے ہاتھ پھیلائے پھرتے ہیں اور جو دوبارہ فوج کا راج آجاتاہے تویہ کاسہ گدائی لیے فوجی کنٹونمٹوں کے چکر لگاتے نظرآتے ہیں۔ اس لیے نصرت مرزا کو ضرورت پڑی کہ وہ اپنے حوالہ کسی وزیر سے جوڑے تاکہ معتبر صحافیوں میں اپنا نام شامل کراسکے۔ اس کے علاوہ بھارت کے نائب صدر جمہوریہ پر حملہ کرنا تھا تواس کے لیے ایک معتبر اور بھاری بھرکم شخصیت کی بھی ضرورت تھی، اس لیے نصرت مرزا کو ثمر بار کیا گیا۔ ان واقعات کو پھر کھول کر نکالنے کی کیا اہم ضرورت آپڑی؟
میں قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتاچلوں کہ جتنا مستحکم نظام حکومت بھارت میں ہے وہ نہ پاکستان میں ہے نہ بنگلہ دیش میں نہ سری لنکا میں ۔ یہاں کی افسر شاہی کاپورا نظام انگریزی سول سروس کے خطوط پر ہے۔پاکستان میں بھی یہی نظام تھا اور بنگلہ دیش میں ایسا ہی تھا لیکن وہاں بار بار فوج کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کے سبب وہاں کے مستحکم نظام درہم برہم ہوکر رہ گئے حالات توہمارے یہاں بھی دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں کیوں کہ ہندو توا کے عناصر کسی بھی طرح ہندوراشٹربنانے کے درپے ہیں۔ تمام افسر شاہی کو آہستہ آہستہ کمزور کیا جارہاہے تاکہ سرکاری فیصلہ کو قانون کی آڑمیں روکا نہ جاسکے۔ بھارت میں ان لوازمات کی ضرورت نہیںتھی کیوں کہ یہاں تو پہلے ہی گودی میڈیا فرقہ پرستی اور سرکار کی غلامی کا کلمہ پڑھتا رہاہے یہاں اکٹر بکڑ بمبے بوں قسم کے صحافیوں کی اکثریت ہے جو اپنی کرسی برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یہاں صدرجمہوریہ ہوں یا نائب صدر جمہوریہ سب کو منضبط ضابطوں کے مطابق ایک لائن پر عمل کرنا ہوتاہے، ایسا نہیں ہے کہ صدر نائب صدر اپنی من مانی کرسکیں!
جو تفصیلات سامنے آئی ہیں نصرت مرزا کے مطابق اسے پانچ مرتبہ نائب صدر کی دعوت پر بھار ت بلایاگیا تھا۔ گیارہ دسمبر ۲۰۱۰ کو وہ نائب صدر کی دعوت پر بھارت گئے تھے جہاں انھوںنے دہشت گردی کے خلاف ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ حامدانصاری نے اس بات کی واضح طریقہ پر تردید کی ہے۔ انھوںنے کہا کہ نہ میں اس شخص کوجانتا ہوں اور نہ میں نے اس کوکہیں مدعو کیا تھا۔ انھوں نے سرکاری طریق کار بھی بتا یا کہ اس قسم کی کانفرنسیں جو حکومت کے تعلق سے ہوتی ہیں، اس کا دعوت نامہ وزارت خارجہ جاری کرتی ہے وہی اس کے مدعوئین کی فہرست بناتی ہے ۔ میرا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا، صرف حکومت کے پاس ہی اس بات کا ریکارڈ ہوگا کہ کس نے کس کو مدعو کیا۔ نہ میں نے کبھی نصرت مرزا کو مدعوکیا اور نہ ملاقات کی ہے۔ حکومت اس تعلق سے ہربات واضح کرے۔ حامد انصاری صاحب کی اس بات میں وزن ہے۔ انہی گوروبھاٹیہ نے ایک اور ناقابل معافی سفارتی گناہ کیا ہے ، انھوںنے اس مایہ ناز ڈپلومیٹ پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ ایران کی سفارت کاری کے دور میں کئی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ اگرچہ سابق نائب صدر جمہوریہ ایک معمولی سے سیاسی کارکن کے الزام کاجواب دینے کے پابند نہیں ہیں تاہم بھارت پاک تعلقات کی نزاکت کے پیش نظر اور خود ان کے ایک مسلمان ہونے کے سبب انھوں نے گورو بھاٹیہ کی کج روی کا جواب دیا، اس پر ساری بھاجپا کو شرمندگی کا اظہار کرنا چاہےے۔ حامدانصاری صاحب نے کہا کہ میرے ایران کے سفیرکی میعادختم ہونے کے بعد حکومت ہند نے میری کارکردگی کی ستائش کی تھی اور مجھے اقوام متحدہ میں بھارت کا مستقل مندوب بنادیا تھا۔ یہ سب باتیں حکومت کی فائلوںمیں ریکارڈ ہیں۔ حکومت ان تمام معاملات کی توثیق کرسکتی ہے بشرطیکہ کرنا چاہے، تمام سفارتی سرگرمیوں کا ایک ایک دن فائلوں میں ریکارڈ ہوتاہے۔ یہ سارا معاملہ ذہنی عارضوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس نے الزام لگانے والوں کے دل ودماغ پر گرفت کرلی ہے۔ گورو بھاٹیہ نے اپنی کذب افتراع پر پردہ ڈالنے کے لیے کہا کہ نائب صدر کا منصب ایک آئینی منصب ہے۔ ملک کی سیکورٹی اور تحفظ کے لیے اس سے وابستہ حقائق اورمساوات کو عوامی سطح پر نہیں کھولا جاسکتا۔ یہی بات توحامد انصاری بھی کہہ رہے ہیں کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات کی فائلیں حکومت کے پاس ہونی لازمی ہیں۔ حکومت اس کی تصدیق اور توثیق کرے۔ حامد صاحب اپنے سابق منصب کے اصول وضوابط کی پاسداری کررہے ہیں، اس لیے ان کا بولنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس سے زیادہ شرمناک بات حکومت کے لیے کیاہوسکتی ہے کہ اس کانائب صدر جمہوریہ ہمارے دشمن پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ سے ایک معمولی سے صحافی کے توسط سے رابطہ میں ہو۔ کوئی ادنیٰ سا بھی وزیر ہو تواس کے یہاں آنے جانے والوں پرباضابطہ ریکارڈ رکھا جاتاہے ۔ کبھی نائب صدر جمہوریہ کا دفتر اور رہائش گاہ جہاں قدم قدم پر سیکورٹی کے آلات نگرانی کرتے ہےں، کوئی پرندہ بھی پرنہیں مارسکتاوہاں دشمن ملک کا ایک صحافی پانچ مرتبہ مدعو کیا جائے اورکسی کو کانوں کان خبرنہ ہو ایسا ہونا ناممکن ہے۔
کبھی کبھی تومجھے حامد انصاری صاحب پر ترس بھی آتاہے کہ انھوںنے سنگھ پریوار کی کون سی بھینس کھول لی ہے جو آج تک ان کا تعاقب نہیں چھوڑرہی ہے۔ قارئین اس واقعہ کو نہیں بھولے ہوں گے جب ملک کے قومی پرچم کو سلامی نہ دینے کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ اس پر اخبارات اور گودی میڈیا اوربرقی میڈیا نے بڑے مضحکہ خیز تذکرے کیے تھے کہ نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کو بھی یوم جمہوریت کی پریڈ میں پرچم کوسلامی دینی چاہےے تھی۔ بعدمیں جب نائب صدرجمہوریہ کے آفس سے وضاحت جاری ہوئی کہ یوم جمہوریہ پر جھنڈا سلامی کا اختیار صرف صدرجمہوریہ کو ہوتاہے تومیڈیا کی بولتی بند ہوگئی۔ اسی طرح اگست کے مہینے میں ہونے والے چند سال قبل یوگا دیوس کی تقریب میں انصاری کے نہ پہنچنے کو لگ بھگ ملک دشمنی قرار دے دیا گیا تھا۔ بعد میں نائب صدرجمہوریہ کے آفس نے میڈیا کو بتلایا کہ ان کو اس تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے نائب صدر جمہوریہ کوئی سیتارمن یا گپتا جی توہیں نہیں کہ وہ بن بلائے سینہ ٹھوکتے ہوئے کسی سرکاری تقریب میں گھس جائیں اورہاتھ جوڑجوڑکر سب کو نمسکارکریں اور دکھائیں کہ ہم بھی ہیں پانچ سواروں میں ۔
ان سب واقعات کے مختصراً بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قارئین باخبر رہیں کہ کس طرح سنگھ پریوار نائب صدر جمہوریہ کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگیاہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق اس تازہ ترین حملے کی پشت پر دونشانے ہیں۔ بھاجپا اور سنگھ پریوار کا اصل نشانہ کانگریس ہے وہ حامد انصاری کانام لے کر کانگریس کو مسلمانوں کی چاپلوس قراردینا چاہتی ہے جس نے مسلمانوں کی چاپلوسی کے لیے ملک کے تحفظ جیسے سنگین معاملات میں بھی مداخلت کی۔ ملک کی سرحد کی حفاظت اوراس کے مفادات کی حفاظت کی آڑ میںراہول اور سونیا گاندھی پربھی نشانہ لگایا جارہاہے۔بعض حلقوں کے مطابق حامدانصاری صاحب کو اس لےے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وزارت خارجہ ‘ حامد انصاری صاحب کے پورے گلف میں پھیلے ہوئے تعلقات کو اہانت رسول کے بعد اٹھنے والے طوفان کا بل نکالنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی، مگر حامد انصاری اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اب ان کو ملک کے تحفظ کے لیے خطرہ جیسے معاملات میں پھنسا یا جارہاہے ۔ ایسے تمام کھیل ناگپور میں کھیلے جاتے ہیں۔ ملک کو سب زیادہ نقصان سنگھ پریوار نے ہی پہنچایا ہے اور اب معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی سنگھ پریوار پس پردہ کام کررہا ہے، لیکن سنگھ کے لیے اپنے پیدا کیے مسائل کوحل کرنا تقریباًناممکن ہے۔ حالات سے مجبور ہوکر بھاگوت جی عجیب وغریب قسم کی تقاریر اور بیانات دے رہے ہیں، ان کے عمل اور ان کے پیروکاروں کی سرگرمیاں ان کے احمقانہ بیانات سے میل نہیں کھاتیں اس لیے آہستہ آہستہ اب ان کے حواری ان کے بیانات کو محض برائے گفتن معاملہ سمجھنے لگے ہیں۔ ان کا ایک ایسا تازہ بیان ملک کی آبادی بڑھنے پر آیاہے جس میں بالواسطہ طورپر ہندوﺅں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی حمایت کی گئی ہے۔ وہ بنگلور میں ستیہ سائی یونیورسٹی فارہیومن ایکسی لینس کے پہلے کانوکیشن میں تقریر کررہے تھے۔ موصوف نے فرمایا کہ کھانا پینا اور آبادی بڑھانا یہ سب کام توجانوربھی کرتے ہیں، جو مضبوط ہوگا وہی زندہ رہے گا۔ وہ دراصل چند روز قبل کے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے ایک بیان کے تناظر میں تھا۔ یوگی نے کہاتھا کہ اگر آبادی میں عدم توازن برقرار رہا تواس سے افراتفری اورانتشار پھیل سکتاہے، اس لیے عدم توازن کی صورتحال کو پیدا نہیں ہونے دیا جانا چاہےے، دراصل وہ الفاظ کو طرح طرح کے نقاب پہناکر یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مسلمانوں کی آبادی پر کنٹرول کرنا چاہےے ورنہ بھارت بھارت نہیں رہے گا۔ان سب باتوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کی حمایت میں عالم اسلام میں بھارت کے خلاف جو لہر اٹھی تھی اس کو خوش اسلوبی کے ساتھ ٹھنڈا کردیا جائے۔ اس معاملہ کولے کر حامد انصاری کے عدم تعاون کے سبب ان کے خلاف یہ موجودہ طوفان کھڑاکیا گیا ہے۔ پاکستانی صحافی نصرت مرزا کی ان کے ملک پاکستان میں نیک نامی اور ایماندارصحافی کے طورپر کوئی شناخت نہیں ہے مگر وہ ایسے متنازعہ بیانات دینے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں،جن میں ان کانام اچھلے ۔چنانچہ نصرت مرزاکا بھی مقصدپوراہوگیااور سنگھ پریوار کا مقصدبھی پوراہوگیا ۔
٭٭٭