رحمۃ للعالمین ﷺ
جوں ہی ماہ ربیع الاول کا آغاز ہوتا ہے دنیا کے چپہ چپہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جگہ جگہ عظیم الشان جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جلسوں میں رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو بیان کیاجاتا ہے خاص طورپر ۱۲ ربیع الاول کو جو حضور اکرم کی ولادت کا یوم ہے۔
ڈاکٹر یوسف حامدی
نائب صدر کل ہند مجلس تعمیرملت
جوں ہی ماہ ربیع الاول کا آغاز ہوتا ہے دنیا کے چپہ چپہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جگہ جگہ عظیم الشان جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جلسوں میں رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو بیان کیاجاتا ہے خاص طورپر ۱۲ ربیع الاول کو جو حضور اکرم کی ولادت کا یوم ہے۔ مسلمان اس کو عید کے طورپر مناتے ہیں اس لئے کہ آپ کی ولادت سے پہلے لوگ اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہوئے بتوں کو خدا کا مقام دیکر ان کی پوستش کرتے تھے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ نے اس گمراہ قوم کو اندھیروں سے نکال کرروشنی میں لاکھڑا کیا ہزاروں خود ساختہ خداوں نجات دلاکر ایک حقیقی خدا سے ان کا رشتہ جوڑیا ان میں حرام وحلال کی تمیز پیدا کی اور انھیں انسانیت کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کرایا یقینا اس مسعود موقع پر جس قدر بھی خوشی منائی جائے کم ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمینؐ بناکر بھیجے گئے آپؐ نہ صرف انسانوں کو محبت کا سلیقہ سکھایا بلکہ حیوانات کے ساتھ بھی اچھے سلوک کا درس دیا حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ دنیائے انسانیت کے لئے ایک ابدی اور لازوال منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپؐ نے اس موقع پر فرمایا کہ آج سے امیر وغریب کا لے اور گورے، اور عربی اور عجمی کا امتیاز ختم ہوگیا۔ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو لیکن تم میں وہ بہتر ہے جو متقی اور پرہیزگار ہے فتح مکہ موقع پر آپؐ نے دشمنوں سے بدلہ لینا توکیا عام معافی کا اعلان کردیا عفوودرگذر کی اتنی عظیم مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔
من حیث القوم ہم پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے اس لئے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اس وقت تک ہم اپنے آپ کو سچے مسلمان نہیں کہہ سکتے جب تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنی اولاد اور اپنی جان ومال کی محبت پر فوقیت نہ رکھے اس وقت غور طلب امریہ ہے کہ مسلمان ا س معاملہ میں وہ کردار ادا نہیں کررہے ہیں جو انھیں ادا کرنا چاہئے تھا میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے مسائل گوناگوں ہیں تعلیمی سماجی سیاسی اور معاشرتی مسائل کو ہم حل کرنے کے قابل نہیں ہوئے کہ ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت کی کوششیں اس انداز سے کی جارہی ہے کہ ہم صدائے احتجاج بلند کرنے کے سوا کچھ نہیں کرپارہے ہیں ہمیں اپنے جملہ مسائل کے حل کیلئے ایک طاقتور قوم بن کرابھرنا ہوگا بنام خدا کلمہ توحید کی بنیاد پر متحد ہوکر اس چیلنج کا جواب دینے کیلئے آگے بڑھنا ہوگا جہاں جہاں میلاد کے جلسے منعقد ہوں مسلمانوں کو چاہئے کہ سیرت پاک کے ایسے پہلوئوں کا جائزہ لیں۔ جو آج کے دور میں ہندوستانی مسلمانوں کیلئے فوری عمل کا مطالبہ کرتے ہیں اس طرح مسلمان آگے بڑھیں کہ ایک طرف ان میں اسلام کا صحیح جذبہ موجزن ہوتو دوسری طرف حق و صداقت کی وہ روشنی جو ان کے پاس ہے وہ دوسروں تک بھی پہنچے اس طرح یقین ہے۔
اسلامی تاریخ میں کسی بھی شخصیت پر قلم اٹھائیے۔ مقام فضیلت میں ایک ہی پہلو محور اور مرکز بنے گا۔ اور وہ یہ کہ وہ شخصیت اگر اہل بیت سے ہے تو سرکار دو عالمؐ سے قربت رکھتی ہے۔ اصحاب کی فضیلت یوں ہے کہ کسی نے کتنا زمانہ سرور کائنات کے ساتھ گزارا۔ تابعین کا شرف یہ ہے کہ انہوں نے حضور کے صحابہ کے سیرت کو دیکھ کر پیروی، رسالت سے اپنے کو مضتخر کیا کسی بھی شخصیت کا یہ شرف اور یہ فضیلت اہم ترین سمجھی جاتی ہے کہ اسے کسی طرف سے بھی سرکارؐ سے نسبت، ایک نظریہ، ایک نظام حیات، ایک دستورِ زندگی جسے ساری دنیا اسلام کے نام سے جانتی ہے۔ اس کے شرف ووقار کی کلاء افتخار میں موتی بھی ٹکاہوا ہے کہ اس نظریہ اور اس دستور زندگی اور اس نظام حیات کو سرکار دوعالمؐ نے دنیا کے سامنے عملی طورپر پیش کیا تھا۔
درودو سلام اس پر جس نے کائنات کو اپنے نور سے راہِ نجات دکھائی۔ جس نے زندگی کو حسن تفکر، مزاج تعلق معیار تدبر اور سلیقہ عمل سکھایا۔ کائنات پر نظر ڈالی معلوم ہو اکہکشاں اسی کی روندی ہوئی راہ گزر ہے۔ ڈھلتا ہوا چاند اس کی انگلیوں سے مرتعش ہے۔ اور رات یہ بتاتی ہے کہ تاریخ نے ایک ایسی بھی رات دیکھی تھی جب حبیب اپنے محبوب کے پاس تھا۔ روشنی پر نظر پڑتی ہے تو نور مجسم کی یاد آتی ہے۔ اس کی یاد آتی ہے جس نے دنیا کو بتایا کہ فتح وشکست کا معیار نہ زمین پر قبضہ کرنے کانام ہے،نہ میدان جنگ میں تلواروں کی جھنکا رہے۔ نہ لوگوں کو غلام بناکر ان پر حکومت کرنا ہے۔ بلکہ تحقیقی فتح کا معیار انسانی قلوب کی تسخیر ہے ۔انسانی نظریات اور طرز فکر کو بدل دینا ہے۔ نظام حیات کو آراستہ کرنا ہے۔ طرز زندگی میں اصول بندگی شامل کرکے انسانیت کو معیار کمال تک پہنچاناہے۔
سرکار دوعالم ﷺ کا یہ وہ اعجاز ہے جس پر غور کیا جائے تو یقینا تاریخ ایسا کوئی معجز نہیں پیش کرسکتی جب کہ اس قدر مختصرسی مدت میں لاکاھوں افراد نے اپنے عقائد بدل دیئے۔ فکر و نظر کا زاویہ بدل دیا۔ صدیوں پرانی عادتیں ترک کردیں۔ اوہام نے اصنام توڑڈالے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب صرف قول سے نہیں بلکہ عمل سے اپنے نظریہ اور اصول زندگی کو نمونہ بناکر پیش کیاجائے۔ تسخیر وفتح کا یہ وہ معیار تھا جس کی نظیرنہ آج تک پیش کی جاسکی۔نہ پیش کی جاسکتی ہے۔!
آئیے ایسے میں دیکھیں کہ اس نے جسے قدرت نے طٰہٰ اور یٰسین کہہ کر پکارا ، رحمۃ للعالمینؐ کہہ کر متعارف کرایا۔ کبھی مزمل کہہ کرکبھی مدثر کر دنیا کو اس کے کردار کے ہر پہلو سے آشنا کرایا اور ایک مکمل نظام حیات ان کے ہاتھوں دنیاتک پہنچایا۔
اے وجہہ تخلیق کائنات، اے رحمۃ للعالمینؐ اے نبیوں کے نبیؐ، رسولوں کے رسول،ؐ اے محسن انسانیتؐ، اے آمنہ کے لال، ابوطالب کے دلارے، امت کے پیارے، ہم ہند کے رہنے والے شمع محمدیؐ کے پروانے، عشق رسول میں دیونے ، دین اسلام کے مستانے تجھے آواز دیتے ہیں۔ پکارتے ہیں، فریاد کرتے ہیں۔آپ کے حضور اپنے دلوں کے داغوں کی نمائش کرنا چاہتے ہیں۔اس بہے ہوئے خون کا حقیر نذرانہ پیش کرنا چاہتے ہیں جو اس جرم کی سزا ہے کہ ہم مسلمان ہیں،اپنے ان مائوں، بہنوں اوربیٹوں کے آنسوئوں اور کراہوں کا نذرانہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جن کی چادر عصمت اس لیے کھینچ لی گئی کہ وہ خدا کے نام لیوا اور آپ کے شیدائی تھے۔ ان معصوم بچوں کی جانیں نذر کرنا چاہتے ہیں جن کو نیزوں پر چڑھایا گیا۔
اے رہنمائے انسانیت ،ائے آفتاب رسالتؐ، ہند میں ہمارا کوئی نگہبان نہیں، بندوق، خنجر، تیرو تبر ہمارے سینوں کو چھلنی کررہے ہیں۔ ہمارے مکانوں کو دھواں کررہے ہیں۔ ہماری معیشت کو تباہ وتاراج کررہے ہیں، اہل باطل کروڑوں کی تعداد میں، کروفر ہے، شان وشوکت ہے روپیہ پیسہ ہے، اقتدار ہے،ہر جگہ ہمارے خلاف سازش کا دربار ہے، سب کا مقصد ایک ہے کہ ہم کو صفحہ ہستی سے میٹ دیاجائے۔ اور ہم کو نجات دہندہ انسانیت، سچائی کے علمبردار، حق کے طرفدار، بے دست وپا ہیں، کمزور ہیں، جانوروں کی طرح کٹ رہے ہیں، تیرے پر یر کھاکر بھی مسکراتے ہیں کہ آنسو بہانا ہے منع۔
آئیے آج یوم رحمۃ للعالمینؐ کے اس مبارک ومسعود موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم پندرہویں صدی ہجری کاآغاز اسلام کی تبلیغ واشاعت کے نشانے کو اپناتے ہوئے کریں گے،یہی کام ہمارا نصب العین ہوگا اور یہی جدوجہد ہمارانشانہ ہوگی۔ گوکہ ہم میں بہت سی کمزوریاں ہیں، کوتاہیاں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے فریب بھی ہیں کہ مسلمان پہلے مسلمان ہوجائیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسی فریب کاریوں نے قافلہ، حجاز کو کہاں کہاں روکا ہے۔ رسول اکرمؐ کی شخصیت اس قافلہ کیلئے سالار کارواں ہے ہماری اس گزرگاہ کیلئے مینارہ نور ہے اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں ہمارے راستے کے چراغ ہیں، خداہمارا مددگار ہے اور قرآن ہمارا راستہ ہے ۔بس اس یقین او ریکسوئی کے ساتھ ہمیں رخت سفر باندھنا ہے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
٭٭٭