مذہب

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

تمام انبیائے کرام جب دنیا میں آئے تو ان کو بہت دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ فرعون، نمرود، ہامان، شداد اور اہل کفر وشرک کی چیرہ دستیاں مخالفین کی اور مخالف حکومتوں کی تلواریں ان تمام دشوار کن حالات سے ان کو سابقہ پیش آیا۔

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

تمام انبیائے کرام جب دنیا میں آئے تو ان کو بہت دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ فرعون، نمرود، ہامان، شداد اور اہل کفر وشرک کی چیرہ دستیاں مخالفین کی اور مخالف حکومتوں کی تلواریں ان تمام دشوار کن حالات سے ان کو سابقہ پیش آیا۔ لیکن انبیائے کرام نہ ڈرے نہ گھبرائے، نہ انھوں نے اپنا قدم پیچھے ہٹایا، ان کا ایمان اس ذات پر تھا جو چاند، سورج، زمین، سمندر اور پہاڑ سب کے مالک ہے، آسمان و زمین سب اس کے لشکر ہیں وللّٰہ جنود السمٰوات والأرض۔ اس ایمان محکم کے بعد بادشاہوں کا جاہ وجلال اور بڑی طاقتوں کی دھمکیاں کیسے خوفزدہ کر سکتی تھیں، جس کے ساتھ رب العالمین کی طاقت ہو تو وہ ہیچ اور فرومایاں طاقتوں سے کیسے لرزہ برآمداں ہوسکتا ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت ایسے انسان کو خوفزدہ نہیں کر سکتی، بقول شاعر

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

تاریخ اسلام میں بے شمار ایسے واقعات ہیں کہ مسلمانوں کی تھوڑی سی فوج نے اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کو شکست دی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ان کے ساتھ تھی۔

ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلمان اگرچہ کم بھی ہیں اور کمزور بھی ہیں، لیکن اگر اللہ کی تائید ونصرت انھیں حاصل ہے تو دشمنوں کی بڑی سے بڑی طاقت اور ان کا دھرم سنسد ان کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ یقین محکم پیدا ہو جائے اور اللہ کی مدد نازل ہوجائے اور اللہ کی مدد اسی وقت نازل ہوتی ہے جب مسلمان بھی اللہ کی مدد کے لیے پورے طور پر تیار ہوتے ہیں۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا ان تنصروا اللہ ینصرکم وثبت أقدامکم، یعنی اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ کی نصرت تم پر نازل ہوگی اور اللہ تمہارے قدموں کو مضبوط جمادے گا۔

اللہ کی نصرت یہ ہے کہ اللہ کے دین کا تعارف دنیا میں عام کیا جائے، دین توحید کی دعوت دی جائے، شرک اور بت پرستی سے لوگوں کو روکا جائے، تمام پیغمبروں نے اپنے اپنے زمانے میں یہ ضروری کام انجام دیئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اس مشن سے عبارت تھی، مکہ میں جب سرداران قریش نے آپ کی بات نہیں مانی تو آپ طائف گئے اور طائف کے سرداروں سے اپنی بات کہی۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ ہمارے ملک میں کون قائد ہے جو اس پیغمبرانہ مشن کو انجام دے رہا ہے اور اگر کوئی بھی انجام نہیں دے رہا ہے تو اللہ کی نصرت کیسے نازل ہوسکتی ہے۔

اِس وقت برادرانِ وطن تک پہنچنے اور ان کے دلوں کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہے، ہم بھوکوں کو کھانا کھلائیں، بیماروں کی تیمارداری کریں، غریبوں اور محتاجوں کے کام آئیں، یتیموں کے سرپر دست شفقت پھیریں، عورتوں اور بچوں کی مدد کریں اور سماج کے مجبور وکمزور طبقات کی تقویت کا سامان بہم پہنچائیں۔ یاد رکھیئے کہ اللہ کے دین کے لیے کھڑے ہونے والوں کا یہی کردار ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت ملی اور آپ غار حرا سے اتر کر گھر تشریف لائے اور لرزہ براندام تھے تو حضرت خدیجہؓ نے آپ کو یہی اطمینان دلایا کہ آپ مسکینوں کی مدد کرتے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، محتاج وبے رواں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اللہ آپ کو ضائع نہیں کرسکتا۔ حضرت خدیجہؓ کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیائی مشن کے لیے جن کو کھڑا ہونا ہے ان کے اندر یہی صفات بھی ہونی چاہیے۔