تلنگانہ

ایم ایل اے کی قربت کیلئے مسلم قائدین کی ایک دوسرے پر سبقت

ضلع عادل آباد میں مسلم اقلیتوں کے ڈھیر سارے مسائل ہیں یکسوئی کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔جگہ سیاست کی جارہی ہے جہاں انھیں اپنا مفاد پویشدہ نظر آرہا ہے۔

عادل آباد: ضلع عادل آباد میں مسلم اقلیتوں کے ڈھیر سارے مسائل ہیں یکسوئی کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔جگہ سیاست کی جارہی ہے جہاں انھیں اپنا مفاد پویشدہ نظر آرہا ہے۔

یہ بات صرف سیاست تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ صحافت پر بھی سیاست کا رنگ چڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ضلع میں مسلم اقلیتوں کے کئی مسائل ہیں۔ دو چار لیڈروں کے سب خاموش تماشائی بن بیٹھے ہیں۔جبکہ عادل آباد ضلع میں چھوٹے بڑے مسلم اقلیتی قائدین اورکارکنوں کی تعداد درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں میں ہیں۔

اس کا جیتا جاگتا ثبوت کسی بھی پارٹی کے جلسہ جلوس میں شہ نشین پر موجوددکھائی دینے والی تعداد ہی کافی ہے۔اقلیتی قیادت سے لیکر صحافت تک کایہ حال ہوچکا ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر سب دوگروہوں بٹ چکے ہیں۔

اقتدارپر بیٹھے اقاؤں کی چاپلوسی کرنے میں مصروف ہیں اور اپنے آپ کو ان کا رفیق یا بہی خواہ ثابت کرنے میں آخری حدتک گر چکے ہیں۔ لیڈرو ں سے کندھوں پر ہاتھ رکھوا کر تصویریں لینا، سیلفی لیکر اپنے سوشل میڈیا سائٹس کے پروفائل پر رکھنا یہ سب کچھ فخر سمجھا جارہا ہے۔

بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاسی قائدین ہو یا صحافی براردران اپنے آپ کو ایم ایل اے کا قریبی ثابت کرنے کیلئے جو حرکتیں کر رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔صحافت میں ایم ایل اے یا دیگر اقتدار پر بیٹھے قائدین کے قریبی بننے کے دوڑ والے افراد ڈھکے چھپے نہیں ہیں بلکہ ان کی تصویر کشی اور خبروں کے احاطہ سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ اگرکوئی رکن اسمبلی کے قریبی ہے اور اسے رکن اسمبلی کے نظروں میں گرانہ ہے تومنصوبہ بند طریقہ سے(POCSO)بتایاجاتاہے کہ پوکسو جیسے سنگین کیسس میں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

باوثوق ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق راست طور پر رکن اسمبلی سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ قریبی لوگوں کو ہٹادیا جائے۔ تاہم رکن اسمبلی نے تمام ہی گروپس کے قائدین کو مل جل کر کام کرنے کی صلح دی اورفراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گروپ بندی سے باہر آنے پر بھی زور دیا۔

بات یہاں پر بھی نہیں بنی تو نہ صرف ایک دوسرے پرمبینہ کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ کسی بھی حد تک سنگین جرائم میں پھنسانے کے منصوبہ بنائے جارہے ہیں۔تاکہ ان قائدین پر الزام تراشی کرکے سیاسی مستقبل ختم کر دیا جائے۔اگر یہی حال اقلیتی قائدین کاہوگا تو کیا امید کی جاتی ہے کہ آنے والے انتخابات میں یہ مسلم قیادت قوم کا کچھ بھلا بھی کر پائے گی۔