بے نامی جائیدادوں پر شدید کارروائی ہورہی ہے۔ قانون پاس ہوچکا ہے
ایک لاکھ کروڑ روپیہ بیساکھیوں کے کرایہ کی ادائیگی کے بعد دیگر اخراجات کی پابجائی کے لئے بے نامی جائیدادوں کے علاوہ وراثت ٹیکس اور شہری جائیدادوں پر سیلنگ قانون کے نفاذ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ورنہ اخراجات کی تکمیل ناممکن ہوجائے گی کیوں کہ نصف قومی آمدنی صرف سود کی ادائیگی میں صرف ہورہی ہے
٭ شہری جائیدادوں پر سیلنگ قانون سازی ہوسکتی ہے۔
٭ وراثت ٹیکس کا نفاذ نوشتۂ دیوار ہے۔
٭ لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ قومی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہ قانون پاس ہوچکا ہے۔
کچھ ماہ قبل لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ پر تفصیلی مضامین لکھے گئے تھے۔ اس قانون کے مطابق اب رجسٹر شدہ دستاویزات کی اساس پر کوئی بھی شخص جائیداد کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا بلکہ مالکِ جائیداد کو از خود قانون کے تحت مقرر کردہ اتھاریٹی کے روبرو کھڑے ہوکر اپنا ٹائٹل یعنی حقِ ملکیت ثابت کرنا پڑے گا اور یہ بات اس عہدیدار کے صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ درخواست گزار کے حقِ ملکیت کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ حقِ ملکیت تسلیم نہ ہونے کی صورت میں ایک اپیلیٹ اتھاریٹی کے روبرو اپیل کرنی ہوگی۔ پھر اس کے بعد ایک ٹریبونل سے رجوع ہونا پڑے گا اور پھر اس مرحلے کے بعد ہائیکورٹ سے رجوع ہونا پڑے گا اگر خوش قسمتی سے حقِ ملکیت یا TITLE تسلیم کرلیا گیا تو رجسٹریشن فیس ادا کرنا ہوگا جو لاکھوں میں ہوسکتی ہے ۔ اس قانون سازی کا ظاہری مقصد صرف حصولِ آمدنی کے سوا اور کچھ نہیں ورنہ اس قانون سازی کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی جبکہ قدیم رجسٹریشن قانون موجود تھا جو خود رجسٹریشن کے ذریعہ حق ملکیت عطا کرتا تھا۔
علاوہ ازیں بے نامی جائیداد کا قانون2017ء میں پاس ہوا جس کی روشنی میں کوئی بھی شخص اگر اپنی کمائی سے اپنے بیٹے بیٹی یا بیوی کے نام پر کوئی جائیداد خریدے تو خریدار کو ذرائع آمدنی کا اظہار ضروری تھا اور اس آمدنی پر انکم ٹیکس کی ادائیگی کا لزوم تھا ورنہ ایسی جائیدادیں قابلِ ضبطی بحقِ سرکار تھیں۔ علاوہ ازیں جرمانے اور سزائے قید کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ اس قانون پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے اور زورشور سے کارروائیاں ہورہی ہیں۔
اگر آپ اپنا موبائل فون کھل کر Whatsapp پر جاکر (META-A1) پر لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ 2022ء ٹائپ کرکے سوال کریں یا صرف یہ حروف لکھ دیں تو آپ کو جواب ملے گا کہ اپوزیشن کے مطابق اس قانون کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت عوام کی جائیدادوں کو ہڑپ کرلینا چاہتی ہے‘ جو کہ ایک معقول جواب نظر آتا ہے ورنہ رجسٹریشن ایکٹ کی موجودگی میں اس قانون کے نفاذ کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ہماری قارئین کرام سے خواہش ہے کہ اولین فرصت میں ایک دو منٹ میں اس سوال کو ٹائپ کرکے خود تسلی کرلیں۔ آپ پر تمام باتیں واضح ہوجائیں گی۔ اس قانون کی خاص بات یہ ہے کہ اگر کسی ریاستی حکومت نے اس قانون کو پاس نہیں کیا تو یہ بات سمجھی جائے گی کہ قانون پاس ہوچکا ہے یعنی اب یہ حقیقت ہے کہ قانون پاس ہوچکا ہے اور بس جائیدادوں کو بحقِ سرکار ہڑپ لینے کا مرحلہ باقی ہے۔
تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کسی بھی وقت وراثت ٹیکس لاگو کرسکتی ہے کیوں کہ اسے کرایہ کی بیساکھیوں کا سہارا مل چکا ہے جس کا کرایہ ادا کرنے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ جس طرح زرعی قانون کے ذریعہ کسانوں کی اراضیات کو اپنے من پسند کارپوریٹ اداروں کو یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا گیا تھا کہ شائد ہماری تپسیہ میں کوئی کمی رہ گئی تھی۔ وراثت ٹیکس اس صورت میں لاگو ہوگا جب جائیدادوں کے مالک فوت ہوجائیں تو اس کی اولاد ‘ ورثاء سے پچاس تا ساٹھ فیصد ٹیکس حاصل کیا جائے گا۔
حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ ہندوستان کی ساری دولت رئیل اسٹیٹ میں ہے اور سب سے زیادہ قیمتی جائیدادیں شہری علاقوں میں ہیں۔ جس طرح1976ء میں اربن لینڈ قانون پاس ہوا تھا ‘ اس اساس پر اب شہری جائیدادوں کی بھی سیلنگ ہوگی یعنی کوئی بھی شخص ایک سے زیادہ شہری جائیداد نہیں رہ سکتا۔ بعض گوشوں میں اس سوال پر مباحث ہورہے ہیں کیوں کہ موجودہ حکومت سے اپنی بقاء کے لئے کسی بھی حد تک گزرجانے کی امید کی جاسکتی ہے۔
حکومت اپنے اخراجات کی بھرپائی اور قرض کی ادائیگی کس طرح کرسکتی ہے
اخراجات کا سب سے بڑا مد قرض کی ادائیگی ہے جو موجودہ قومی آمدنی کا تقریباً پچاس فیصد ہے۔ گویا صرف سود ہی قومی آمدنی کا نصف ہے ۔ علاوہ ازیں دفاعی بجٹ کا تقریباً 70 فیصد تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے۔ دیگر ضروریات مثلاً ہتھیاروں کی خرید اور دیگر اخراجات کیلئے دفاعی بجٹ کا صرف30فیصد رہ جاتا ہے۔
دیگر اخراجات میں بیساکھیوں کے کرایوں کے علاوہ سڑکوں کی تعمیر و نگہداشت ‘ تمام محکمہ جات کے ملازمین کی تنخواہیں‘ اور دیگر کئی اخراجات کے مد ہیں جن کی تفصیل بہت طویل ہوگی۔ اتنی قلیل رقم سے اتنے سارے اخراجات کی تکمیل ناممکن ہے لہٰذا ذرائع آمدنی میں اضافہ کے لئے مندرجہ بالا قاونین کے نفاذ اور ان پر عمل درآمد کے سواء کوئی دوسری اور راہ باقی نہیں رہ جاتی۔ ان حقائق کے پیش نظر حکومت کا یہ دعویٰ کہ بہت جلد ہم دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جاتے ہیں‘ بالکل کھوکھلا نظر آتا ہے کیوں کہ ان ہی ذرائع آمدنی میں سے تقریباً85 کروڑ بھوکے عوام کو ماہانہ پانچ کلو اناج بھی تو دینا ہے اور اس کی معیاد 2029ء تک ہے۔
ایسی صورت میں سوائے اس بات کے کہ ذرائع آمدنی کو بڑھانا ہے‘ ان قانون سازیوں کے علاوہ کوئی اور دوسری راہ باقی نہیں رہتی۔ اگر ایسی بات ہوتو یہ بات صرف ایک کمیونسٹ ملک ہی میں ممکن ہے اور یہ بات ہندوستان میں ممکن نہیں۔
اخراجات میں کٹوتی کے لئے حکومت نے اپنی کلہاڑی بے چارے فوجیوں پر ماری۔ کورونا کے تین سالوں میں افواج میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی جبکہ سالانہ ساٹھ ہزار فوجی پنشن پر علاحدہ ہوئے جن کی مجموعی تعداد تقریباً دو لاکھ ہے۔ لہٰذا فوج دو لاکھ نفری کی حد تک گھٹ چکی ہے۔ اس کمی کی بھرپائی ناممکن ہے کیوں کہ اگنی ویر اسکیم میں کوئی بھی جانے کو تیار نہیں۔ شمالی ریاستیں مثلاً پنجاب ‘ ہریانہ‘ اتراکھنڈ اور اترپردیش جہاں سے فوج کی بھرتی ہوا کرتی تھی‘ وہاں سے اب کوئی بھی چار سالہ خدمت اور بعد میں بے روزگاری کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ۔ فوج کا حوصلہ متاثر ہورہا ہے۔ حکومت کی اس پالیسی سے عوام میں ایک بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی بھی اپنے عروج پر ہے ۔
عوام ایک مشکل دور سے گزررہے ہیں اور ہر طرف افراتفری کا عالم ہے اگر کوئی خوش ہے تو وہ صرف خوش حال اور مالدار طبقہ ہے جسے ملک کی دگردوں حالت کی کوئی فکر نہیں۔ کارپوریٹس پر مہربانیوں کی بوچھار ہورہی ہے۔ GST کی وجہ سے درمیانی تجارت تباہ و برباد ہوگئی ہے جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اب حکومت ان قوانین کا سہارا لے کر اپنے نقصانات کی پابجائی کرنا چاہتی ہے ۔ لوگوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
Help line : 040 – 23535273 – 9908850090