دہلی

اب آرٹیکل142 ایٹمی میزائل بن گیا،نائب صدر جگدیپ دھنکڑ کی عدلیہ پر سخت تنقید، صدر کو حکم دینا درست نہیں

 انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 142، جو عدالتِ عظمیٰ کو "مکمل انصاف" کے لیے کسی بھی قسم کا حکم دینے کا اختیار دیتا ہے، اب جمہوری قوتوں کے خلاف ایک "ایٹمی میزائل" بن چکا ہے۔

نئی دہلی: صدرِ جمہوریہ اور گورنروں کو بلوں کی منظوری کے لیے وقت مقرر کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ تاریخی فیصلے کے بعد نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے عدلیہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورتحال نہیں ہونی چاہیے جہاں عدالتیں صدر جمہوریہ کو ہدایات دیں۔

متعلقہ خبریں
وائرل ویڈیو سے مجھے دلی رنج پہنچا: دھنکر (ویڈیو)
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
شیوسینا میں پھوٹ‘ اسپیکر کا 10 جنوری کو فیصلہ
تلنگانہ حکومت کھیلوں کے فروغ کے لیے پرعزم: محمد فہیم الدین قریشی
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ

 انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 142، جو عدالتِ عظمیٰ کو "مکمل انصاف” کے لیے کسی بھی قسم کا حکم دینے کا اختیار دیتا ہے، اب جمہوری قوتوں کے خلاف ایک "ایٹمی میزائل” بن چکا ہے۔

دھنکھڑ نے صدرِ جمہوریہ کو بلوں پر فیصلہ کرنے کے لیے وقت مقرر کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا: "ہندوستان نے ایسا جمہوری نظام کبھی تصور نہیں کیا تھا جہاں جج قانون سازی کریں، انتظامیہ کا کام خود سنبھالیں، اور ایک ‘سپر پارلیمنٹ’ بن جائیں۔”

انہوں نے مزید کہا:”حال ہی میں ایک فیصلے میں صدرِ جمہوریہ کو ہدایت دی گئی ہے۔ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمیں بہت حساس ہونا پڑے گا۔ یہ صرف نظرثانی پٹیشن کی بات نہیں ہے، بلکہ بنیادی اصولوں کا سوال ہے۔ ہم نے اس دن کے لیے جمہوریت سے سودا نہیں کیا تھا۔”

دھنکھڑ نے کہا کہ آئندہ سے اگر صدر وقت پر فیصلہ نہ کریں تو بل خودبخود قانون بن جائے گا — یہ رجحان آئینی دائرہ کار سے باہر ہے۔

"ہم ایسی صورتِ حال پیدا نہیں کر سکتے جہاں آپ بھارت کے صدر کو ہدایت دیں، اور وہ بھی کس بنیاد پر؟ آپ کے پاس صرف آئین کے آرٹیکل 145(3) کے تحت آئینی تشریح کا اختیار ہے، جس کے لیے پانچ یا اس سے زیادہ ججوں کی ضرورت ہوتی ہے۔”

دھنکھڑ نے دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کے گھر سے جلے ہوئے نوٹوں کے بنڈل ملنے کے واقعے پر بھی سوال اٹھائے۔

"14 اور 15 مارچ کی درمیانی شب دہلی میں ایک جج کے گھر یہ واقعہ پیش آیا، لیکن ایک ہفتے تک کسی کو خبر نہیں تھی۔ 21 مارچ کو ایک اخبار نے اس کا انکشاف کیا، اور پورا ملک سکتے میں آ گیا۔ عدلیہ جیسا معتبر ادارہ سوالوں کے گھیرے میں ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی تفتیش تین ججوں کی کمیٹی کر رہی ہے، لیکن "تفتیش کا دائرہ انتظامیہ کا ہے، عدلیہ کا نہیں۔ کیا یہ کمیٹی آئینی حیثیت رکھتی ہے؟ کیا اس کی بنیاد کسی پارلیمانی قانون پر ہے؟”

دھنکھڑ نے آرٹیکل 145(3) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب یہ شق آئین میں شامل کی گئی تھی، تو سپریم کورٹ میں صرف 8 جج تھے، جن میں سے 5 کی اکثریت تشریح کے لیے کافی سمجھی گئی۔

"آج ججز کی تعداد 30 سے زیادہ ہے، مگر 5 جج ہی آئینی تشریح کرتے ہیں۔ اس میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے۔”

انہوں نے زور دے کر کہا: "آرٹیکل 142 اب ایک ایسا ایٹمی میزائل بن چکا ہے جو جمہوری طاقتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، اور عدلیہ کے پاس یہ طاقت 24×7 دستیاب ہے۔”