قومیسوشیل میڈیا

دیوبندمیں 80 سالہ مسلم کسان پرہندونوجوانوں کا وحشیانہ حملہ، جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا

ایک افسوسناک واقعہ میں، جس نے ملک میں بڑھتی مذہبی عدم رواداری پر شدید تشویش پیدا کر دی ہے، دیوبند نگر کے گاؤں امرپور میں ایک 80 سالہ مسلمان کسان اسرائیل پر دو ہندو نوجوانوں نے اس وقت وحشیانہ حملہ کیا جب وہ اپنے کھیت میں کام کر رہے تھے۔

دیوبند (منصف نیوز ڈیسک) ایک افسوسناک واقعہ میں، جس نے ملک میں بڑھتی مذہبی عدم رواداری پر شدید تشویش پیدا کر دی ہے، دیوبند نگر کے گاؤں امرپور میں ایک 80 سالہ مسلمان کسان اسرائیل پر دو ہندو نوجوانوں نے اس وقت وحشیانہ حملہ کیا جب وہ اپنے کھیت میں کام کر رہے تھے۔

متاثرہ شخص اسرائیل کے مطابق، حملہ صرف اس کے مذہب کی بنیاد پر کیا گیا۔ انہوں نے بتایا”انہوں نے میرا نام پوچھا۔ جب میں نے بتایا، تو انہوں نے میری داڑھی پکڑی، بار بار مارا اور مجھے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ وہ بار بار چیخ رہے تھے، ’پاکستان چلے جاؤ!“اسرائیل کی آنکھوں میں آنسو اور بازوؤں پر تشدد کے واضح نشانات تھے۔حملہ دوپہر تقریباً 2 بجے اس وقت ہوا جب اسرائیل اکیلے اپنے کھیت میں موجود تھے۔

دو نوجوان آئے، ان کا نام پوچھا، اور اچانک حملہ کر دیا۔ انہوں نے مکوں، لاٹھی اور شکایت کے مطابق ایک بیلچہ سے بھی حملہ کرنے کی کوشش کی۔اسرائیل نے اپنے بیان میں لکھا ”میں نے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔ میں بس کھیت میں کام کر رہا تھا۔ ان کے دلوں میں نفرت بھری ہوئی تھی۔“چیخ و پکار سن کر قریبی کسان موقع پر پہنچے۔

حملہ آور کچھ دیر کے لیے بھاگ نکلے، مگر مقامی لوگوں نے انہیں جلد ہی پکڑ لیا اور پولیس کو اطلاع دی۔ دیوبند پولیس نے دونوں ملزمان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ ایک سینئر افسر کے مطابق دونوں گرفتار ہیں۔ ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

حملے کے بعد اسرائیل کو طبی امداد دی گئی، اور بھیم آرمی کے کارکن انہیں تھانے لے گئے۔ بھیم آرمی ایک دلت حقوق تنظیم ہے جو ذات پات اور مذہبی تشدد کے خلاف سرگرم ہے۔بھیم آرمی کے ایک رکن نے کہاہم اسرائیل انکل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ صرف حملہ نہیں بلکہ اس ملک کی اقدار پر ضرب ہے۔

ہم نفرت کو جیتنے نہیں دیں گے۔متاثرین کی حمایت میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اور مقامی افراد ملزمین پر قتل کی کوشش اور نفرت پر مبنی جرائم کی دفعات لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔مسلمان برادری اور آس پاس کے دیہات میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ایک مقامی کسان محمد رضوان نے کہا ”اگر ایک بوڑھے شخص کو صرف مسلمان نام رکھنے پر مارا جا سکتا ہے، تو پھر کون محفوظ ہے؟ ہم خوف میں جی رہے ہیں۔

یہ وہ ہندوستان نہیں جس میں ہم پلے بڑھے ہیں“۔اگلے دن مسلم اور دلت برادری کے رہنماؤں نے واقعہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ کئی لوگوں نے حکومتِ اترپردیش سے نفرت انگیز عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔معروف مصنف اور سماجی کارکن فہیم انصاری نے کہایہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ بار بار مسلمانوں کو شناخت اور نعروں کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اگر ہم خاموش رہے، تو یہ زہر پھیل جائے گا۔اگرچہ پولیس نے منصفانہ تفتیش کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن مقامی رہنما محتاط ہیں۔دیوبند کے رہائشی شبیر خان نے کہااسے محض جھگڑا کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کھلا نفرت انگیز جرم ہے اور سخت سزا کا مستحق ہے۔اس کے ساتھ ہی کمیونٹی سے صبر و اتحاد کی اپیلیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔