مضامین

مسلم لڑکیوں کا ارتداد۔ اسباب و علاج

زکریا سلطان

مسلم لڑکیوں کا ارتداد ایک اہم اور سنگین مسئلہ ہے۔جتنے منہ اتنی باتیں، ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق اس پر تبصرہ کر رہا ہے، کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں میں قابل باصلاحیت اوراعلیٰ تعلیمیافتہ نوجوان نہیں ہیں جس کی وجہ سے مسلم لڑکیاں مایوس ہوکرغیر مسلم لڑکوں میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ ایک مخصوص کیس میں کسی کا کہنا ہے کہ مسلمان پڑوسیوں نے اور مسلم معاشرہ نے ایک غریب اور یتیم مسلم لڑکی والوں کی مدد نہیں کی اور نہ ان کا خیال رکھا پھر جب لڑکی پڑھ لکھ کر بڑی ہوئی تو ایک ہندو لڑکے نے مسلم لڑکی کی بہت مدد کی جس کی وجہ سے لڑکی کو مسلمانوں سے نفرت ہوگئی اور وہ اپنے غیر مسلم ہمدرد و غمخوار کے ساتھ ”شادی کرلی“ (جو دراصل زنا اور بدکاری ہے کیونکہ کسی کافر و مشرک کے ساتھ مسلم لڑکی کی شادی ہو ہی نہیں سکتی، اپنی خفت مٹانے او زنا کاری پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے شادی کا نام دیا جاتا ہے جو سراسرناجائز اور حرام ہے) مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے لیے کوئی مسلم معاشرہ کو تو کوئی مسلم تنظیموں کو اور علمائے کرام کو تنقید کا نشانہ بنا کرانہیں ذمہ دار سمجھتاہے، غرض یہ کہ مختلف لوگ مختلف الٹی سیدھی وجوہات بیان کرکے اپنی اپنی دانشوری جتاتے ہیں ، کئی لوگوں کوویڈیو بناکر سوشیل میڈیا پر آنے اور نام و نمود حاصل کرنے کی لت لگ گئی ہے ۔مرتد ہونے والی لڑکیاں اور ان کے والدین یہ بات ماننے کو شاید تیار نہیں ہیں کہ اصل وجہ ان کی دین سے دوری اور بے راہ روی ہے۔ ان کے دلوں میں نہ اسلام کی حقانیت ہے اور نہ ان میں ایمان کی پختگی ہے، وہ ضعیف الایمان اور متذبذب قسم کی دنیا پرست لڑکیاں ہوتی ہیں جودنیاوی لذت اورعیاشی کی خاطر اپنی غیرت اور شرم و حیا کو ٹھکانے لگاکر بے غیرتی سے ہندو لڑکوں کے ساتھ اپنا جنسی تعلق قائم کرکے اپنی دنیا و آخرت برباد کر لیتی ہیں، ان میں سے اکثر کا انجام دنیا میں ہی برا ہوتا ہے اور نوبت تشدد، مار پیٹ ،علحدگی اور قتل تک آجاتی ہے پھر گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ آجکل بچوں کو تعلیم دلانا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا کہ ان کی صحیح اور اسلامی خطوط پرتربیت کرنا ہے، انہیں اچھے اخلاق و آداب سیکھا نا ان کی تربیت کرنا اور انہیں بری صحبتوں اور بری حرکتوں سے بچاکرنیک صالح اور باکردار بنا نا ایک سخت مشکل کام ہے۔ جدید ٹیکنالوجی انٹرنیٹ واٹس ایپ اور موبائیل فون جیسے مہلک ہتھیار بچوں کے ہاتھ میں آگئے ہیں جنہیں بڑی غیر ذمہ داری اور بے دردی کے ساتھ آزادانہ طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بلکہ بہت سے کمسن بچے بھی استعمال کرکے غلط راستے پر چل رہے ہیں اور شرمناک حرکتیں کرنے لگے ہیں،جلتی پر تیل کا کام دفتروں میں اختلاط اور بیہودہ لباس، ضرورت سے زیادہ بے تکلفی وہ عوامل ہیں جن سے شرم و حیا اور غیرت مردہ ہورہی ہے اس کے بدلے ذلت و مسکنت اوررسوائی چھارہی ہے۔ اکثر ماں باپ اپنی اولاد کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں اور کچھ لاڈ پیارمیں ضرورت سے زیادہ چھوٹ دیکر بگاڑ دیتے اور پھر بعد میں پچھتاتے ہیں، بندوق سے گولی نکلنے کے بعد پچھتانے اور رونے رلانے سے کیا فائدہ! اپنی اولاد کو قابو میں رکھنا ان پر نظر رکھنا انکی نقل و حرکت سے آگاہ رہنا ، انکی صحبت کس قسم کے لوگوں کے ساتھ ہے یہ دیکھنا اور صحیح دینی اسلامی خطوط پر تربیت کرناوالدین کی ذمہ داری ہے۔ ایسی اعلیٰ تعلیم جس کے حاصل کرنے میں دین و ایمان کو خطرہ ہو ترک کردینا ہی بہتر ہے۔ اپنے بچوں کی چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں بلوغت کے بعد جلد از جلد شادی کردینا ماں باپ کا فرض ہے۔ بلوغت کے بعد ماں باپ نے شادی میں ٹال مٹول اور عمداً دیر کی اور اسی دوران اگر بچے کسی غلط راستے پر چل پڑے تو اس کے ذمہ دار اور گناہوں میں شریک والدین بھی ہوں گے اس لیے جلد از جلد شادی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔مسلم لڑکوں کی معاشرہ میں کمی ہے نا مسلم لڑکیوں کی، بس ذرا اپنی شرائط اور انتخاب کے معاملہ میں تھوڑی سی نرمی اور لچک پیدا کرلی جائے تو رشتے آسانی سے طئے ہوسکتے ہیں۔ لڑکی اور لڑکے کے انتخاب میں ہمارے ناز نخرے اور نا معقول مطالبات، غیر واجبی شرائط وغیرہ بھی رشتوں کے طے ہونے میں مانع ہیں ۔ عموماً ہماری نظر لڑکے اور لڑکی والوں کے مضبوط مالی موقف پر ہوتی ہے لیکن ہم آمدنی کے ذرائع کو اہمیت نہیں دیتے کہ آیا وہ جائز ذرائع سے آرہی ہے یا لوٹ مار اور حرام کی دولت ہے۔ ہمیں تو صرف ”اعلیٰ سوشل اسٹیٹس“ سے غرض ہوتی ہے ! مسلمان لڑکیاں ہندو لڑکوںکے ساتھ فرار ہوکرکیوں مرتد ہوتے ہوئے جہنم کے گڑھے میں گر رہی ہیں؟ ان کی دینی خطوط پر صحیح تعلیم و تربیت اور ذہن و کردارسازی کانہ ہونا ہی اس کی اصل وجہ ہے ۔ لڑکی کا ایمان اگر مضبوط ہو تو وہ فاقہ کرنا پسند کرے گی اور کسی بھی قسم کے چیلنج کو قبول کرے گی مگر کبھی کسی ہندو کے ساتھ فرار نہیں ہوگی ، اس کی ایمانی قوت اور غیرتِ اسلامی اسے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتی۔ اس کا دل، اس کا ضمیر کبھی اس بات پر راضی اور مطمئن ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک کافر و مشرک کے ساتھ زندگی گزارے۔مسلم معاشرہ میں طلاق کی شرح جو کبھی نہیں کے برابر تھی اب تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے؟ نوجوان نسل کی قوت برداشت کم ہوگئی ہے اور صبر و تحمل نام کی کوئی چیز ان میں ہے نہیں ، کافی حد تک اچھے برے کی تمیز بھی اکثر نوجوانوں میں نہیں رہی اور نہ لڑکیوں میں سلیقہ شرم و حیا اور بڑے بزرگوں کا احترام رہا، ان سب باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ بقول مولانا سجاد نعمانی صاحب قبلہ لاکھوں لڑکیاں مرتد ہو رہی ہیں، کچھ ہندو تنظیمیں مختلف قسم کے مراعات اورمال و دولت کا لالچ دیگر ہندو لڑکوں کو ایک منظم سازش کے ذریعہ اس کام پر لگائے ہوئے ہیں کہ مسلم لڑکیوں کو جھوٹے عشق میں پھنساﺅ ، انہیں دین اسلام سے پھیر کر مرتد کرو اورپھر ان سے مندر میں شادی کرو۔ افسوس کہ آجکل بہت سی بدنصیب اور بد قماش لڑکیوں کو بے پردہ گھومنے پھرنے ، ہوٹلوں میں کھانے اور نوجوانوں کیساتھ موج مستی ، عیاشی اور بد کاری کرنے کی لت لگ گئی ہے جسکے سبب وہ ارتداد کا شکار ہوکر جہنم کے راستے پر چل رہی ہیں جبکہ دین اسلام کی عظیم نعمت سے وہ مالا مال ہیں مگر اسکی قدر نہ کرتے ہوئے ذلیل و گمراہ ہورہی ہیں حالانکہ ہمارا پیارا دین اسلام انہیں جنت کی راہ دکھاتا ہے۔ہماری جان سے زیادہ ایمان کی اہمیت ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو” اور ہمارے پیارے آقا حضرت محمدنے ہم سے جنت کے عوض دو باتوں کی ضمانت مانگی ہے، نمبر ایک زبان کی حفاظت اور نمبر دو شرمگاہ کی حفاظت۔ بس اے مومنو! مضبوطی سے ایما ن پر قائم رہو، اپنی زبانوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور پھر جنت میں داخل ہوکروہاں مزے کرو۔