حیدرآباد

شادی بیاہ میں فضول خرچی اور بیجا رسومات نے غریب بچیوں کی شادیوں کو مشکل بنادیا ہے: مولانا پیر شبیر احمد

مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شادی، قانون فطرت ہے، انبیاء کرام کی سنت ہے، تسکین نفس کا حلال طریقہ ہے، افزائش نسل کا ذریعہ ہے، انسانی معاشرہ کی بنیاد ہے۔

حیدرآباد: مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شادی، قانون فطرت ہے، انبیاء کرام کی سنت ہے، تسکین نفس کا حلال طریقہ ہے، افزائش نسل کا ذریعہ ہے، انسانی معاشرہ کی بنیاد ہے۔

متعلقہ خبریں
اتحاد و تقویٰ امت مسلمہ کی نجات کا ضامن ہے: مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد کا بیان

پیار ومحبت، الفت دانست کی عمدہ مثال ہے، خود کے پاؤں پر کھڑے ہونے، ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے اور نیا گھر آباد کرنے اور خاندان بڑھانے کی علامت ہے۔ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے، اس لئے شادی بیاہ کے موقعہ پر عاقد عاقدہ، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز واقارب دوست و احباب کا خوش و خرم ہونا فطری بات ہے۔

شادی بیاہ کے موقعہ پر فرط مسرت کا اظہار کرنا انسانی طبیعت میں داخل ہے۔ نکاح کے اعلان کا حکم ہے۔ دعوت ولیمہ کا اہتمام کرنا ازروئے شرع مسنون قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے کی خوشی میں شریک ہونا، دعاء خیر کرنا، مبارکبادی کے تبادلے کی ترغیب دی گئی۔

تاہم انسانی فطرت میں غلو و زیادتی ہے، حدود کو تجاوز کرنا ہے، سرکشی و عناد ہے، غرور و تکبر اور فخر و مباھات ہے، اظہار برتری اور دوسرے کی تحقیر و اہانت کرنا ہے۔ خدائے ذوالجلال کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں دین اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا اور تا قیام قیامت ساری انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔

آپؐ نے انسانیت کو سیدھی راہ بتائی، اچھائی اور برائی کی تمیز کرائی، عدل و اعتدال، میانہ روی کا سبق پڑھایا، نہ بخالت کو پسند کیا اور نہ فضول خرچی کو روا رکھا۔ دین اور دنیا کے ہر معاملہ میں اقتضاء فطرت کو محوظ رکھا اور درمیانہ روش کی تعلیم دی۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہیکہ میانہ روی، میانہ روی کو اختیار کرو تم منزل مقصود کو پہنچ جاوں گے۔

حضرت حسن بصری کا قول ہے: دین اسلام کی بنیاد اعتدال اور میانہ روی پر ہے، پس شیطان دین میں غلو یا کو تا ہی دو طریقوں سے داخل ہوتا ہے پس افراط و تفریط اور غلو و کوتاہی دونوں دوزخ کی آگ کے راستے ہیں۔ لہذا شریعت اسلامی میں نہ غلو و مبالغہ کی اجازت ہے اور نہ ہی تنقیص و کوتاہی کی۔۔

بطور خاص شریعت مطہرہ میں اسراف اور فضول خرچی کی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ارشاد الہی ہے: تم رشتہ دار، غریب اور مسافر کا حق ادا کرو، اور ذرا بھی اسراف مت کرو، بلاشبہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔

شادی بیاہ کے موقعہ پر شرعی حدود میں اظہار خوشی کی اجازت ہیتا ہم اظہار خوشی میں اسراف و فضول خرچی کرنا زیب وزینت پر ہزاروں لاکھوں روپے ضائع کرنا، بڑے بڑے شادی خانے لیکر ہزار ہا افراد کو دعوت دینا اور متنوع و ہمہ اقسام کے کھانے بنانا اور اس پر فخر و مباہات کرنا، اس کو اپنی حیثیت اور وقار کا مسئلہ بنانا لڑکی والوں کو زیر بار کرنا، دوسروں  کی شادی بیاہ سے تقابل کرنا، بے جا رسوم و رواج پر اوقات کو ضائع کرنا، شادی بیاہ کے موقعہ پر گانا بجانا، پیشہ ورخواتین کے ذریعہ رقص و سرور کی محفلیں سجانا، عورتوں مردوں کا باہم ملنا، نو جوان لڑکے لڑکیوں کا مذاق و دل لگی کرنا، آتش بازی اور پٹاخوں میں پیسوں کو برباد کرنا، غیر ضروری لائٹنگ کرانا، خوشنمائی اور دکھاوے کے لئے مہنگے سے مہنگے اسٹیج بنانا، جھوٹی شان میں قرض کے بوجھ کواٹھانا، قرض حسنہ نہ ملے تو سود پر قرض کو لینا، دودن کی خوشی کیلئے سالہا سال قرض کی ادائیگی میں پریشان ہونا اور دوسروں کو پریشان کرنا۔ کیا یہ سب ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے؟

کیا یہ امور ایک نئی زندگی کے شروعات میں خیر و برکت کا باعث بن سکتی ہیں؟ دلہا، دلہن اور ان کے مانباپ، بھائی بہن سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا یہ اعمال اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں؟ کیا ایسی خوشی کے ذریعہ ہمارے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں گے؟

ہم میں اور غیر قوم میں فرق یہی ہے کہ دوسری قو میں اپنی خوشی کے لئے دنیا کی تمام حدود کو پھلانگ دیتی ہیں لیکن ہم مسلمان ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔