سیاستمضامین

اک سحر پُر فریب کہ ٹوٹنا مقدر جس کاختم ہواکرناٹک ناٹک‘ باقی دیس باقی ہے

ظفر عاقل

لوک کتھاؤںمیں ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح نوع انسانی کے ادب و تہذیب میں اس طرز کی قلم نگاری اور زبان دَر زبان بچوں جوانوں اور بڑوں کو قصہ کہانیاں سنائی جاتی رہی ہیں کہ کسی شیطان صفت بڑے جادوگر نے جادونگری کی اک دنیا بنائی بسائی تھی؛اور ہر کسے اس ظالم جابر کے شکنجہ میں اس طرح کسا ہوا تھا کہ ہلنا جھلنا حتی کہ آزادی کے بارے میں سوچنا محال و ناممکن تھا؛ اور اک عرصہ بے بسی و بیکسی کا یوں ہی گزرتاگیا تھا کہ امید خود اپنے ہی ہاتھوں دم توڑ چکی تھی۔۔۔لیکن اچانک کسی ہیرو کی آمد ؛یا سعی جہد کے ریلے ۔۔۔سے سارا طلسم ٹوٹ کر بکھر گیا اور راج محل اور زنداں کی زنجیروں میں جکڑے سارے کے سارے کسی میدان ریگستان بیابان میں آزادی کی فضااور کھلی ہوا میں سانس لے رہے تھے؛انگشت بدندان ہیں ‘ خوشی کے مارے جھوم رہے تھے۔
کیا یہی منظر وَماحول(ہمارے اس عظیم دیس میں ) نیزمستقبل شرمندہ تعبیر ہوتاہم دیکھ اور محسوس نہیں کررہے ہیں۔لیکن جان رکھیے کہ جادونگری اور جادوگر کا طلسم ہاتھ پر ہاتھ دھرے ٹوٹتا نہیں ہے؛ یعنی کوشش پیہم کی ضرورت ‘احساس و ادراک صد ہزار گنا مطلوب و مقصود ہے؛بنا طلب‘قصد وَواویلا ماں بھی منہ میں دودھ کی دھاراُنڈیلتی نہیں ہے۔یہ تو انسانی سماجی اخلاقیات کے تقاضوںکی کوشش وَمحور ہے کہ جی جان جُٹا کر ہی آہوئے (ہرن) تاتاری ہاتھ آتا ہے؛
مشامِ (سونگھنے کی قوت)تیز سے ملتا ہے نشاں اس کا ۔۔۔ ظن و تخمین سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری۔
اب یہ انہونی نہیں رہی کہ فسطائیت کے خلاف ایک ماحول و طلب نے انگڑائی ضرور لی ہے ؛اور اگر ذاتی مفادات حاصلہ حائل نہ ہوں تب زمین کی تاریک دبیز تہوں کوچیر پھاڑ کر سر اُٹھانے والا کونپل مقصد بارآوری میں کامیاب ضرور ہوگا۔ہاں ہندستانی سیاسی اقدار و روایات کا ایک تاریک منظر و پس منظر ضرور راہ کا روڑا بنتا رہا ہے؛ملک میںسیاست اور چاہِ اقتدار عموماً پارٹی اور خاندان سے زیادہ ذات کی آسودگی و نفع بخشی اور ذاتی مفادات حاصلہ کے تابع ہوتی ہے؛پارٹیاں چاہے قومی و ملکی ہوں کہ علاقائی وَلسانی وَتہذیبی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہوں۔۔۔ اور چاہے جو بھی رنگ ڈھنگ ‘چولا و پیرہن اختیار کریں دراصل ہاتھی کے دانت کی طرح ظاہر اور باطن میں ایک ہوتی نہیں ہیں؛ کیونکہ اصلاً ایک فرد فرید کے اطراف گھومتی اور گھومائی جاتی ہیں؛مخصوص فرد کی اَنا کی تسکین اور اقتدار کے حصول کی رغبت ہی محوری گردش کا سبب بنتی ہیں یا بنادی جاتی ہیں؛اور یہ سب جمہور کی حکمرانی کے نام پر رَچایا گیاکھیل ہوتا ہے؛ اور عوام (کالاَنعام )۔۔۔چاہے اَن چاہے۔۔۔ اس جامِ جَم(جمشید بادشاہ کا پیالہ)کو رضا و رغبت سے اپنے لبوں کی زینت اور حلق کو تربلکہ تربتر کیے جارہے ہیں۔
جہالت کے خاتمہ اور علم کے عام ہونے کے باوجود جہالت پوشیدہ کا یہ نظارہ بھارت کے علاوہ خال ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہے۔یہی حال ان اَربن پڑھے لکھے لوگوں کا ہے جن کو ملک اور وطن سے زیادہ ہزاروں برس پرانی تہذیب کے نمو کی فکر لاحق ہے اور اس کے بالمقابل دیس اور دیس واسیوں کے مفادات کو تہہ تیغ کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے ہیں۔مسلم اور اسلام دشمنی کی یہی بنیادیں ہیں اور اس فکر ی ہلاکت کو ختم کرنا دَورِ رَواں کا ایک بڑا اور سنجیدہ موضوع اور چیلنج ہے۔ملک کی حقیقی ترقی اور اقبال کی بلندی اس زاعفرانی قلعہ کے انہدام کے بغیر ممکن نہیں ہے؛اور اس کا تدارک جذبات کی سُونامی میں ڈوبنے اور قوم و ملت کو بہادینے سے ہرگز ممکن نہیں بلکہ انسانی و اسلامی اخلاقیات و تعلقات کی استواری اور غلط فہمیوں کے تدارک سے ہی ممکن ہے؛کیونکہ انسانی فطرت ۔۔۔چاہے جتنا بھی کوڑا کرکٹ اس پر ڈھیر کردیا جائے ۔۔۔لوٹتی اپنی اصل کی طرف ہی ہے؛نیز غیر فطری فلسفہ و فکر کی وقتی کامیابی آنکھ و نظر کا حصہ تو ایک عرصہ کے لیے بن سکتی ہے(بلکہ صد سالہ مَنو وادی ‘ناگپوری کوششوں سے بنادی گئی ہے)لیکن سچائی اور حق کے سورج کے طلوع ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔دوسرے معنوں میں مسلم ملت کا خود اپنے بنیادی و کتابی اقدار سے عملی و نظری انحراف وہ اصل جرم ہے جو ملت کے افراد وَ اداروں سے سرزد ہوا ہے۔
ملک میں زاعفرانی سحر کی بنیادوں کی تعمیر میں جہاں فکر و فلسفہ کی پرورش کی صد سالہ کوششوں کا عمل دخل ہے تب وہیں پراس مکڑی کے جالے کے بُننے میں ملک کا مین اسٹریم میڈیا اور پریس کا بڑا عمل دخل رہا ہے اور ابلاغ و تشہیر کے میڈیم کو غلام بنانے کے پیچھے کارپوریٹ کے مال و منال کا پوشیدہ ہاتھ بھی ہے جو پس پردہ رہ کر ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں لگا ہوا ہے۔تبھی تو مسند اقتدار کی کٹھ پتلیوں کا اولین فریضہ ملک کے سارے وسائل کو کارپوریٹ کے ہاتھوں مرکوز کردینا بن گیا ہے ؛یعنی فرعون سے زیادہ قارون کی حکمرانی سے دیس اور دیس واسی بھگت رہے ہیں۔چاہے وہ ایک فرد مودی ہو کہ ایک پارٹی بھاجپا ۔۔۔اسکو عوام کی ترجیح اول بنانے میں ملک کے میڈیا کا بہت بڑا رول ہے؛اور یہ وہی میڈیا تھا جس نے تخت اقتدار پر قابض من موہن کو سیاسی شاہ راہوں سے بند گلیوں میں بسیرا کرنے پر مجبور کردیا ہے؛ اور ہنوز وہ وہیں پر ہاتھ پاؤں مارنے کے علاوہ کچھ کرنہیں پارہے ہیں۔مین اسٹریم میڈیا کے جواب میں دیش پریموںنیز حقیقی صحافی اقدار کے حامل صحافیوں نے سوشل میڈیا کو سہارا بنا کر حق کی آواز بلند کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ بھی قابل قدر ہیں ؛کہا جاسکتا ہے کہ جلد یا بدیر یہ کالی مسموم گھٹائیں اور اندھیرے یقینا دم توڑ دیں گے۔لازم ہے کہ غفلت شعار مجرموں کو اپنی نیند تیاگنی ہوگی؛ اور کمر ہمت اگر کس لی جائے تب کیا ہے کہ ناممکن بنا رہے۔
کرناٹک کے انتخابی نتائج ملک کی سیاست کا رُخ متعین کرنے میں اہم کردار نبھائے جارہے ہیں۔سرکاری کرمچاریوںکا رحجان پوسٹل بیلٹ سے ظاہر ہوتا ہے اور کرناٹک کے ابتدائی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہوا کا رُخ کدھر جارہا ہے‘اور بھاجپا سے بڑھت بناتی ہوئی کانگریس کے حق میں ہونے سے زاعفران پر مایوسی کا رنگ غالب ہوسکتا ہے؛یہی حال کرناٹک میں پہلی مرتبہ کا تجربہ یعنی زیادہ عمر کے لوگوں کی رائے دہی کے لیے گھر گھر جاکر ووٹ کاحصول ہے اور یہ بھی پوسٹل بیلٹ کی طرح بیلٹ پیپرپر لیے جاتے ہیں؛بارہ لاکھ سے زائد معمر ووٹرس میں نو لاکھ استفادہ کنندگان ہیں ‘اور ان میںاربن ووٹرس زیادہ ہیں اور اگر یہ بھاجپا سے دامن جھاڑلیتے ہیں تب یہ ناگپوری سر درد کو بڑھادے گا۔JDSکا گڑھ میسور کرناٹک میں بالخصوص مسلمانوں کا کانگریس کی طرف پلٹنے سے کرناٹک کا کانگریس کا عَلم تھامناممکن ہے۔
ریاستوں اور مرکزی علاقوں ( 31)کے جملہ4123سیٹس میں بھاجپاصرف 1405پر کامیابی حاصل کرپائی ہے اور اس کے بالمقابل2718پر کنول کا پھول نہیں کھِل سکا تھا؛ہاں کہیں پر دوسروں کا ساتھ ضرور لیا گیا تھا۔لیکن 1405سے متعلق عوامی رائے کو لے کر ایسا پیش کیا جاتا تھا کہ جیسے سارا بھارت زاعفرانی بارش میں بھیک چکا ہے؛یہ ایک نفسیاتی چانکیائی ٖضرور ہے تاکہ عوام کے ذہن وفکر میں متبادل باقی ہی نہیں رہے۔اگر ان سیٹس کو تین زمروں میں تقسیم کردیا جاکر صفر سے پچیس فیصد کو بنیاد بنایا جائے تب بھاجپا 1636سیٹس پر خطرے کے نشان پر رہتی ہے؛اور نیم دروں نیم بروں بادان) 26 to 50% (کو بنیاد بنایا جائے تب بھی 1385seatsپر دھڑکا لگا ہوتا ہے اور ان دونوں کا مجمودعہ3018seatsکے سامنے صرف 1105سہٹس وہ ہیں جس پر بھاجپا(51 to 100%)خوش ہو کر بغلیں بجا سکتی ہے۔اور یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو امید بندھاتے ہیں کہ بھارت کا رنگ بھگوا نہیں بلکہ اس گلستان کے انیک رنگ و روپ ہیں۔گنگا جمنی تہذیب و روایات کیا خوش آئند نہیں ہیں۔اور ہمت جٹائی جائے اور امیدیں بحال کی جاکر سیاسی صف آرائی کی جائے تب ملک کی ما بعد آزادی اقدار و روایات کو بچایا جاسکتا ہے نیز ملک کے بنیادی حقوق کی محافظت کی جاسکتی ہے۔
جنوبی ہند میں گیروا دال پتلی ہے اور گلنی مشکل ہے کرناٹک جس کو گیٹ وے آف ساؤتھ کہا جاتا ہے اگر وہ بھاجپا کو دھتکاردیتا ہے تب کیا منہ لے کر RSS/BJPکے لیے مستقبل کی حکومت سازی ممکن ہوپائے گی۔آندھرا پردیش کیرالامیں بھاجپا صفر پر ہے؛میگھالیہ2۔۔۔میزورم میں ایک۔۔۔پنجاب 2‘۔۔۔TN-4‘۔۔۔تلنگانہ میں تین‘۔۔۔دہلی میں آٹھ اور سکم میں بارہ نیز پوڈوچیری میں 9سیٹس پر بھاجپا اپنے نشان کو کامیابی دلائی جاسکی ہے۔ان میں مانگے کا سیندور کی ریاستیں الگ ہیں اور ایجنسیز اور اداروں کی داداگیری کے سبب ملنے والی خیرات کا ایک الگ سیاسی مقام ہے اور اگر یہ ڈنڈا سر پر سے اُٹھ جاتا ہے تب کیا بھاجپا کے سر پر ٹوپی برقرار رہ پائے گی۔
مہنگائی بیروزگاری اور کسانوں وغیرہ کے امور اب راج کریں گے؛نفرت و منافرت کی راج نیتی و نیت کے خاتمہ کے سبب سیکولر حکمرانی میں تقویت آتی جائے گی؛راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے مقاصد اور اہداف میںکامیابی سے ملک کی سیاست میں تبدیلی بھی ممکن ہے۔مزید یہ کہ کانگریس اور راہول کی مضبوطی سے اپوزیشن کی صف بندی میں دوسرا رنگ روپ سامنے آئے گا اور یہ ملک کے حق میں ہے کہ قومی سیکولر پارٹی کامیاب اور مضبوط ہوتی جائے تاکہ فسطائیت کے خطرے کو کنارے لگایا جاسکے ؛ورنہ علاقائی پارٹیاںاور قیادتیں اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر قومی نفع نقصان کو کنارے لگادیتے ہیں ؛نتیش کمار کی سیاسی یاترا مفادات حکمرانی کو قلب و نظر میں رکھ کردیکھی جاسکتی ہے جب کہ سماج وادیوں میں لالو پرساد کی RJDقابل تعریف ہے۔خود تلنگانہ قومی معاملات میں بھاجپا کی مدد کرتی رہی ہے؛یعنی دو رنگی پوشیدہ اور ظاہرہے کہ دیکھنے والی نظر چاہیے۔
ملک میں سماجی و معاشی تفاوت ایک ایسا معاملہ ہے جس کا راست تعلق عام بھارتیوں سے جڑا ہوا ہے ؛کانگریس اور راہول گاندھی کی جانب سے اس بابت اٹھائے سوالات ہنوز جواب طلب ہے اور خود راہول گاندھی کو پارلیمنٹ بدر کردیا گیا بلکہ رہنے والے بنگلہ بھی خالی کرادیا گیا جب کہ ان ہی معاملات پر اقتدار کے چاٹو کاروں کے ساتھ رویہ یکساں نہیں ہے۔اڈانی کی بڑھتی دولت اور ملک کے وسائل پر قبضہ کی داستانوں کی جڑوں کو کنھگالنا ضروری ہے کیونکہ اس کے برعکس 80کروڑ سے زائد عوام کو 5kgاجناس کی خیر خیرات پر لا پٹک دیا جائے تب کیا اس پر احتجاج اور تحقیق ضروری نہیں ہے۔
پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی آواز پر قد غن لگانا جمہوری روایات کو شمشان بھیجنے کے مماثل ہے جب کہ اقتدار کوچاہیے کہ وہ ان معاملات پر حزب اختلاف کے سوالات کے اطمینان جواب دیتی اور ساتھ میں لینے کی کم از کم سعی کرتی ؛اس کے برعکس سنی ان سنی کردینا جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے۔مسلم اشخاص اور تاریخی شخصیتوں کو بدنام کرنے سے کیا بھارت کی تاریخ مکمل ہوسکے گی۔کرناٹک میں شہید آزادی آعظم ٹیپو سلطان کو بدنام کرنا کیا مبنی بر انصاف ہے؛یہی حال ایک ہزارسال حکمرانی کرنے والے اور تعمیر ملک کو بنیاد بنا کر اس کو اپنا وطن بنانے والے مسلم حکمرانوں اور حکمرانی سے متعلق ہے۔مسلم ووٹرس مثبت انتخابی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں تب ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔
کرناٹک کے انتخابی نتائج آخری اوقات تحریر تک بھاجپا مخالف آرہے ہیں ؛امکانات ہیں کہ کانگریس حکومت تشکیل دے ؛لیکن اگر وہ JDSکی مدد لینے پر مجبور ہوجائے تب آپریشن کنول کے امکانات سابقہ کی طرح سر پر لٹکتی تلوار بنا رہے گا۔اور علاقائی پارٹیوں کی وجہ سے قومی سیاست پر یہ ایک سوالیہ نشان قائم رکھے گا۔لیکن امکانات کانگریس کے حق میں دکھائی دیتے ہیں ؛JDSکی کامیابی کا مطلب مسلم ووٹرس اورووٹنگ میں فیصلہ و دانشمندی کے تنزل پر محمول ہوگی؛اور یہ ملکی مسلم سیاست کی یقینا ناکامیابی کی طرف اشارہ ہوگا۔بھاجپا کا کانگریس مکت بھارت کا نعرہ ناکام ہوچکا ہے؛ہماچل کے بعد کرناٹک میں کامیابی سے امیدوںکی نئی فصل لہلائے گی۔اور امکانات میں وسعت ہوگی کہ بھارت سے بھاجپا کے اقتدار کو ہٹانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔
آخری اطلاعات کے بموجب کرناٹک میں بھاجپا کا ناٹک ختم ہوچکا ہے؛اور سابقہ الکشن میں حاصل شدہ 104seatsکے تین ہندسے کو چھوڑ کر اب وہ دو کے ہندسے میں اٹک چکی ہے اور ممکن ہے کہ وہ 60-70seatsسے بھی نیچے گر جائے یا اطراف میں رہ جائے؛بھاجپا کی کرناٹک میں ناکامی ظاہر ہے کہ اصلاًمودی کی ناکامی میں شمار کی جائے گی لیکن کیا جہاں کامیابی کو مودی فیکٹر کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے تب کیا اب اس کو ہمت و حقیقت بیانی کا اختیار کرتے ہوئے ناکامی کا سہرا بھی شاہ مودی پر باندھا جائے گا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمت ان میں عنقا ہی ہے۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ بھاجپا کی ناکامی یا کانگریس کی کامیابی سے زیادہ سیکولر سیاست کی کامیابی اور منو وادی فسطائی فکر کی پسپائی شمار ہوگی۔اور یہ ملک و ملت دونوں کے حق میں ہے ؛اور یہ ٹرینڈ کو برقرار رہنا چاہیے؛ مسلمانوں کی سنجیدہ سیاست کوتاریخ یقینا یاد رکھے گی۔