تلنگانہ

تلنگانہ: ائمہ و موذنین کے لیے سبسڈی لون کی درخواست، مولانا خیر الدین صوفی کا مطالبہ

ریاست تلنگانہ کے سینکڑوں آئمہ و موزنین ایسے ہیں جنہیں مساجد سے ماہانہ 5 سے 6 ہزار روپے کی تنخواہ ملتی ہے، جس سے ان کا گزر بسر مشکل ہو رہا ہے۔

حیدرآباد: ریاست تلنگانہ کے سینکڑوں آئمہ و موزنین ایسے ہیں جنہیں مساجد سے ماہانہ 5 سے 6 ہزار روپے کی تنخواہ ملتی ہے، جس سے ان کا گزر بسر مشکل ہو رہا ہے۔ ان افراد کی اکثریت کرائے کے گھروں میں رہتی ہے اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تدریسی خدمات یا ٹیوشن پڑھاتی ہے۔

متعلقہ خبریں
جمعیتہ علماء حلقہ عنبرپیٹ کا مشاورتی اجلاس، اہم تجاویز طئے پائے گئے
کیا ریونت ریڈی سرکار نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے؟ مولانا خیر الدین صوفی کا استفسار
نرمل میں 2 روزہ ضلعی سطح کے انسپائر و سائنس ایگزیبیشن کا اختتام
اہل باطل ہمیشہ سے پیغام حق کو پہچانے سے روکتے رہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد
نرمل میں ضلعی سطح کے انسپائر و سائنس ایگزیبیشن کا افتتاح

ان کی تنخواہیں بھی اکثر حکومت کی جانب سے وقت پر نہیں مل پاتیں، جس کی وجہ سے ان کو 3 سے 4 ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ائمہ و موزنین ابھی تک اپنی درخواستیں لے کر وقف بورڈ کے چکر لگا رہے ہیں تاکہ انہیں حکومت کی جانب سے دی جانے والی اعزازیہ مل سکے۔

یہ حالات اس بات کا غماز ہیں کہ کس طرح ان افراد کی روزمرہ کی زندگی اور ان کے خاندان کی ضروریات پورا کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ آج کے دور میں جب ایک متوسط طبقے کا خاندان بھی 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے، وہ بھی معاشی تنگدستی کا شکار ہے، تو ائمہ و موزنین کے لیے ماہانہ 10 ہزار روپے بھی بڑی مشکل سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان کی آمدنی اتنی کم ہے کہ مکان کا کرایہ، بچوں کی تعلیم، اور علاج معالجہ جیسے اخراجات پورے کرنا ایک ناممکن کام بن چکا ہے۔

ان حالات میں، مولانا حکیم صوفی سید شاہ محمد خیر الدین قادری، صدر آل انڈیا صوفی علماء کونسل نے حکومت تلنگانہ اور مینارٹی فینانس کارپوریشن سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ائمہ و موزنین کے لیے سبسڈی لون جاری کیا جائے تاکہ وہ چھوٹے کاروبار شروع کر کے خود مختار ہو سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مینارٹی فینانس کارپوریشن کے ذریعے چھوٹے کاروبار کے لیے سبسڈی لون فراہم کیا جائے تو یہ ائمہ و موزنین کے لیے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کا ایک بہترین طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔

مولانا خیر الدین صوفی نے مزید کہا کہ فینانس کارپوریشن کی جانب سے حالیہ دنوں میں سلائی مشین کی تقسیم کی اسکیم بھی عمل میں لائی جا رہی ہے، اور ان کے خیال میں اس اسکیم میں ائمہ و موزنین کی خواتین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ان کے لیے بھی خود کفالت کا راستہ ہموار ہو سکے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آج ائمہ و موزنین معاشی طور پر سب سے زیادہ پستی کا شکار ہیں، حالانکہ انہیں قوم کی رہنمائی اور عبادات کے انتظام میں اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک مقتدی خوشحال ہو اور امام، جو اللہ کے گھر میں عبادت کروانے کے ساتھ ساتھ مسجد کی صفائی کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے، وہ مالی بدحالی کا شکار ہو۔

مولانا خیر الدین صوفی نے حکومت تلنگانہ اور مینارٹی فینانس کارپوریشن سے درخواست کی کہ ائمہ و موزنین کی درخواستوں کو ترجیح دی جائے اور انہیں سبسڈی لون فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنے روزگار کا ذریعہ خود بنا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ان افراد کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے جو قوم کی رہنمائی اور خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

چیئرمین مینارٹی فینانس کارپوریشن عبید اللہ کتوال نے اس اہم مسئلے کو سامنے رکھنے پر مولانا خیر الدین صوفی کا شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ اس پر غور کیا جائے گا تاکہ کوئی نہ کوئی حل نکالا جا سکے۔ آل انڈیا صوفی علماء کونسل جلد ہی ائمہ و موزنین کی درخواستیں فینانس کارپوریشن کے حوالے کرے گی تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔