مضامین

قسم ہے انجیر کی؛ اور (قسم ہے) زیتون کی۔ دینی اور سائنسی جائزہ

انجیر اور زیتون کی سائنسی تاریخ کی بنیاد پر اس  بات پر وزن لگتا ہے کہ عرب سماج  میں ان پیڑوں کی بڑی اہمیت ہوگی۔ دنیاوی اعتبار سے۔ اور شاید دینی اعتبار سے بھی۔ چنانچہ یہ خیال درست لگتا ہے کہ اللہ تعالی  نے ٰنجیر اور زیتون کی قسم ان کی اہمیت کی وجہ سے کھائی۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

سورۃ التین XCV آیت نمبر1تا4

ترجمہ:  قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر کی، کہ ہم نے انسان کوبہترین انداز کے ساتھ پیداکیا۔

انسان کواس سرزمین پر ایک بہترین ماحول، دلکش انداز اور خوبصورت ساخت میں پیداکیا گیا ہے۔ ظاہری وباطنی صفات سے اسے مالا مال کردیا گیا ہے۔ جب وہ ان احسانات الٰہی کا فائدہ اٹھاکر اپنی صحیح فطرت پر ترقی کرتا ہے توفرشتوں سے بھی سبقت لے جاتا ہے اور مسجود ملائکہ بن جاتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنی فطرت اورساخت کو بھول جاتاہے اور بد عملی کی طرف مائل ہوکر کینہ وبغض، عداوت، مکروریا ظلم واستبداد کاپیکر بن کر دھرتی پر بوجھ بن جاتا ہے تو جانوروں سے بد تر کہلاتا ہے اور قعرِ مذلت کاحقدار ہوجاتا ہے۔

سو رۃ التین کی مندرجہ بالا آیت میں اس دنیا میں اگنے والے نباتات اور مقدس مقامات کی قسم کھاکر انسان کی اسی ساخت اور فطرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر قرآن  میں تحریر فرماتے ہیں کہ چونکہ انجیر اورزیتون کے جامع فوائد ہیں اور انسان کی حقیقت جامعہ سے مشابہت رکھتے ہیں لہٰذا آیت کے مضمون کوان دونوں کی قسم سے شروع کیا گیا ہے اور طور سینا کی قسم اس لئے کھائی گئی ہے کیوںکہ وہاںاللہ تعالیٰ نے حضرت موسیؑ  کو  شرف ہم  کلامی بخشا تھا  اور امن والا  شہر یعنی مکہ معظمہ کی قسم اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ وہاں حضرت  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔

مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں اس خیال کا اظہار فرمایا ہے کہ انجیر اور زیتون سے مراد شام وفلسطین کے وہ مقدس مقامات ہیں جہاں ان درختوں کے باغات ملتے تھے اور جہاں بہت سے انبیاء پیدا ہوئے۔ تفسیر حقانی میںتحریر فرمایا گیا ہے کہ تین  بہ معنی  انجیراس شہر کانام تھا جو آج دمشق ہے اورزیتون بیت المقدس کو کہتے تھے۔

بعض علماء کے نزدیک تین اور زیتون دو پہاڑیوں کے نام تھے۔ جناب عبداللہ یوسف علی نے دونوں پھل اوردونوں مقدس مقامات کی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے (نوٹ نمبر 6194تا6197) اور پھل یا درخت کی قسم کھانے کو عین ممکن بتایا ہے۔ اس درخت کا نباتاتی نام مولانا یوسف نے Ficus Indica دیا ہے۔

بعض عرفاء کی نظر میں تین (انجیر) سے مراد شجرہ روح قدسیہ ہے، زیتون کا اشارہ عقل قدسی کی جانب ہے۔ طور سینین کے معنی عارف کے قلب کے ہیں جب کہ بلدالامین کامفہوم محب کے سینہ سے ہے(تفسیر حقانی) ۔سورۃ التین کی اس آیت میں انجیر اورزیتون سے مراد خواہ اشجار وثمر ہوں یامقدس مقامات ہوں،  یاپہاڑہوں یا شریعات ہوں، اصل حقیقت یہ ہے کہ رب جلیل نے اپنے ان احسانوں کا ذکر فرمایا ہے جس کے تحت انسانوں کو بہترین اندازاور ماحول میں پیداکیا گیا۔ اس ماحول کے بیان کرنے میں انجیر اور زیتون کے حوالے یقینا بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

انجیر اور زیتون: تاریخی و سائنسی جائزہ

حالیہ  سائنسی تحقیقات سے یہ بات علم میں آئی ہے کہ انجیر کی کاشت  (Domestication) باقی سارے پیڑ اور پودوں  سے قبل کی گئی تھی  یعنی چھ ہزار سال قبل۔ شاید حضرت انسان  کے لئے کاشت کیا ہو یہ پہلا پھل تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ انسان  نے  لکھنا تک نہ سیکھا تھا۔ اس کے بعد جس پیڑ کی کاشت ہوئی وہ زیتون کا درخت تھا۔

اس کا (Domestication) تقریبا  چار ہزار سال قبل عمل میں آیا جو انسان کے لئے  نباتی تیل  (VegetableOil) کا پہلا ذریعہ تھا ورنہ اس سے  قبل غذائی تیل جانوروں کی چربی سے ہی حاصل کی جاتی تھی۔ آگ پر پکا کر۔ زیتون کا  تیل اس کے پکے ہوئے پھل کونچوڑ کر حاصل کیا جاتا۔ شروع میں یہ تیل صرف روشنی کا ذریعہ ہوا کرتا تھا جس  بات کا ذکر قرآن کی  سور النور  کی آیت نمبر 35 میں ہوا ہے۔ کافی عرصہ بعد اس کا استعمال غذا کے طور پر ہونے لگا جس کا ذکر قرآن کی سورۃ المومنون آیت نمبر 20 میں کیا گیا ہے۔

انجیر اور زیتون کی سائنسی تاریخ کی بنیاد پر اس  بات پر وزن لگتا ہے کہ عرب سماج  میں ان پیڑوں کی بڑی اہمیت ہوگی۔ دنیاوی اعتبار سے۔ اور شاید دینی اعتبار سے بھی۔ چنانچہ یہ خیال درست لگتا ہے کہ اللہ تعالی  نے ٰنجیر اور زیتون کی قسم ان کی اہمیت کی وجہ سے کھائی نہ کہ ان علاقوں کی بنا پر جہاں یہ پودے بڑی مقدار میں پائے جاتے تھے۔

 انجیر

انجیر کانباتاتی نامFicuscarica ہے، پرانے زمانے میں یہ درخت ہندوستان میں نہیں پایا جاتا تھا، اسی لئے اس کا کوئی یقینی نام سنسکرت زبان میں نہیں ملتا ہے۔ ویسے بعض کتابی حوالوں میں اس کو سنسکرت میں ’’کاکودُمبکاریکا‘‘ کہا گیا ہے لیکن یہ نام صحیح نہیں معلوم ہوتا۔

انجیر کااصل خطّہ شام، فلسطین اور مصر رہا ہے جہاں یہ جنگلی بھی ملتا ہے اور کاشت کیا ہوا بھی، اس کی اوسط اونچائی تیس فٹ ہوتی ہے۔ سال میں دو مرتبہ اس میں پھل آتے ہیں۔ ایک خاص قسم کے کیڑے جو Fig-wasp کہلاتے ہیں وہی ان درختوں میں Fertilization کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اگر کسی علاقہ میں انجیر کا پودہ لگانا ہو تو ان کیڑوں کو نئے درختوں تک پہونچانا ضروری ہوتا ہے ورنہ ان میں پھل نہیں آتے۔

انجیر ایک عمدہ میوہ ہے جس میں فضلہ نہیں ہوتا ہے۔ اسی لئے طویل بیماری کے بعد صحت یابی کے دوران انجیر کو کھانا بہت مفید سمجھاجاتا ہے۔ یہ طبیعت کونرم کرتا ہے اور بدن کو فربہ کرتا ہے۔ اس کے خشک پھلوں میں پچاس فیصد سے زائد شکر ہوتی ہ۔ اس کے علاوہ تھوڑی مقدار میں Acetic acid- Malic acid- Citric acidبھی ان میں ملتے ہیں ۔ ایک بہت اہم Enzyme جس کا نام Ficinہے،اس میں پایا جاتا ہے، اسی لئے یہ ملیَّن ہے اور معدہ کے امراض میں فائدہ بخش، گردوں کو صاف کرتا ہے اور ریگِ مثانہ کونکالتا ہے۔ جسم پر پھوڑے پھنسی نکل آئیں توانجیر یا اس کا شربت فائدہ کرتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ انجیر بواسیر کا قاطع اور نقرس کو نافع ہے۔

انجیر یوں تو ملک شام اور فلسطین کا پودہ ہے لیکن تقریباً ڈھائی سے تین ہزار سال قبل اس کو اٹلی کے مختلف علاقوں میں پہونچادیا گیا جہاں بہت جلد ہی یہ ایک عام پودہ ہوگیا۔ اٹلی کے سوا یونان اورجنوبی یورپ کے ممالک میں انجیر کے درخت اور باغات اتنے عام ہوگئے کہ اس کا تذکرہ وہاں کی تہذیب اورادب میں کیا جانے لگا۔

مشہور مفکر افلاطون کو انجیر اتنے پسند تھے کہ اس کانام Philosokos پڑ گیا جس کے معنی انجیر کے عاشق کے ہیں کیونکہ Philo کے معنی پسندیدگی کے ہیں اور  Sukos یونانی زبان میں انجیر کوکہتے ہیں۔ اس طرح یہی بنیاد بن گیا فلاسفر لفظ کا۔

کسی زمانہ میں ایتھنز (Athens)کے شہری پکے ہوئے انجیر کی تلاش میں رہتے تھے اور ایک دوسرے کو اس کی خبر دیا کرتے تھے لہٰذا ایسے لوگوں کو مقامی زبان میں Sukophantai یعنی انجیر کی خبر دینے والا کہا جاتا تھا۔ یہ لفظ بعد میں انگریزی زبان میں Sycophant بن گیا جس کے معنی خوشامدی یا چاپلوس کے لئے جاتے ہیں۔

انجیر کے درخت اور باغات بحیرۂ روم کے چہار جانب مختلف ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایران اورافغانستان میں بھی ان کی کاشت ہوتی ہے۔ ہندوستان میں خشک انجیر افغانستان سے برآمدکیا جاتا ہے۔ یہاں اچھے قسم کا انجیر پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن اس کی جنس یعنی Ficus کے دوسرے پودے (Species) سارے ملک میں بہت عام ہیں جیسے برگد Ficus bengalensis ، گولر (Ficusracemosa)  پیپل (Ficus religiosa)اور پاکر (Ficus rumphii) وغیرہ۔ ایک اور پودہ جو ربر پلانٹ کہلاتا ہے وہ بھی اسی جنس کا پودہ ہے اور آج کل گھروں کی زینت کے لئے بہت استعمال ہوتا ہے، اس کا نام Ficus elastica ہے۔ اس سے کسی زمانہ میں آسام میں ربر نکالا جاتا تھا لیکن جب سے برازیل کاپودہ Hevea brasiliensis ربر کا صنعتی ذریعہ بن گیا ہے آسام کے پودوں کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔

یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہوگا کہ یوں تو Ficus کی جنس کے بہت سے پودے انگریزی میں Figکہلاتے ہیں لیکن اصلی Fig انجیر ہی ہے۔ مہاتما بدھ نے جس درخت کے نیچے بیٹھ کر نروان حاصل کیا تھا وہ پیپل کا درخت تھا، یعنی Ficus religiosa  اس کو جناب عبداللہ یوسف علی نے Ficus indica لکھا ہے جو نباتاتی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ پیپل کے درخت کااصل وطن یوں تو ہندوستان ہے لیکن اس کا دور قدیم عرب ملکوں میں پایا جانا عین ممکن ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انجیر کے جنس  سے ملنے کی بنا پر پیپل اور اسی قسم کے دوسرے اشجار کو بھی عرب میں سامی یا عربی زبانوں میں تین کہا جاتا ہو۔ بہر حال نباتاتی اعتبار سے اصل تین Ficus carica ہی ہے۔

زیتون

زیتون کا ذکر قرآن پاک میں اس کے نام سے چھ بار ہوا ہے اور ایک مرتبہ (سورہ المومنون آیت ۲۰) میں اس کی جانب صرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے طور سینا کے اطراف ایک ایسا درخت پیدا کیا ہے جس میں ایسا تیل ہوتا ہے جوسالن کے کام آتا ہے۔

قرآن کریم کی جن آیات میں زیتون کا ذکر ہوا ہے ان کی تفصیل اس طرح ہے :

1۔  سورۃ الانعام (V1) آیت نمبر 100۔

2۔ سورۃ الانعام (V1) آیت نمبر 142۔

3۔ سورۃ النحل   (X1V) آیت نمبر 11۔

4۔ سورۃ المومنون (XX111) نمبر 20۔

5۔ سور النور (XX1V) آیت نمبر 35۔

6۔ سورہ عبس (LXXX) آیت نمبر29۔

7۔ سورۃ التین(XCV) آیت نمبر 4-1۔

زیتون کا نباتاتی نام Olea europaea ہے۔ یہ ایک چھوٹا درخت ہے جس کی اونچائی اوسطاً25 فٹ ہوتی ہے۔ اس کی پیداوار قلم لگا کر ہوتی ہے کیونکہ بغیر قلم لگائے ہوئے پودے اچھے پھل نہیں دیتے ہیں۔ اس کے کچے پھل چٹنی اور اچار کے کام میں لائے جاتے ہیں جبکہ پکے ہوئی پھل انتہائی شیریں اور لذیذ ہوتے ہیں۔ یہ بیضوی شکل کے ۲دو سے تین سینٹی میٹر لمبے ہوتے ہیں، ان کے گودے میں پندرہ سے چالیس فیصد تک تیل ہوتا ہے جواپنی خصوصیات اور صاف و شفاف ہونے میں بے مثال مانا جاتا ہے۔

یہ تیل گودے کو کھلی میں نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ اس تیل کا اصل جز Oleic  acid ہے جواس میں تقریباً اسی فیصد ہوتاہے۔ اس کے علاوہ اس میں Stearic acid, Arachic acid اور Myristic acid, Palmatic acid, Linoleic acid بھی تھوڑی مقدار میں ملتے ہیں۔ یہ نہ جمنے والا یعنی Non drying oil کہلاتا ہے۔ اس کی زبردست غذائی خصوصیت کے ساتھ ساتھ بے پناہ طبی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ بغیر پکائے اس کو سالن کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔

عربوں میں پرانا دستور تھا کہ طویل سفر یا جنگی معرکوں کے دوران لوگ روٹی کوشہد اورزیتون کے تیل میں بھگو کر کھایا کرتے تھے۔ اس طرح کھانا پکانے کی زحمت اور وقت سے بچا جاسکتا تھا۔

زیتون کا تیل طویل عرصہ غذائی طور پر استعمال معدہ کی تیزابیت کو دورکرتا ہے اورالسر (Ulcer) کو مٹاتا ہے۔ جلدی بیماریوں میں عام طور سے اور دوا میں خصوصاً نہایت مفید ہے۔ کئی اقسام کے مرہموں، پلاسٹروں اورنفیس قسم کے صابن بنانے کی صنعت روغن زیتون کی کافی کھپت ہے۔ دل کے ان امراض میں جن میں زیادہ چربی کا استعمال نقصان دہ سمجھا جاتا ہے زیتون کا تیل سود مند ثابت ہوتا ہے۔

زیتون کا اصل وطن فلسطین ہے اور شام کا وہ علاقہ ہے جو فینی شیا (Phoenicia) کہلاتا ہے۔ یہیں اس کی کاشت تقریباً چار ہزار سال قبل شروع کی گئی اور اسی خطہ سے یہ پودا مغرب اورمشرق کے ممالک میں لے جایا گیا۔ یعنی یہیں سے یہ ایران اور افغانستان گیا اور یہیں سے جنوبی یورپ کے ملکوں میں گیا۔ یورپ میں تو یہ اتنا کامیاب اور عام ہوگیا کہ لوگ سمجھنے لگے کہ یہ وہیں کا پودہ ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے دور کے قبل یونانی مفکروں اور حکما نے اسے یورپی پودا ہی سمجھ لیا تھا اور یہ خیال اس حد تک تقویت پاتا رہا کہ انیسویں صدی میں اس کا نباتاتی نام Olea europaea رکھ دیا گیا لیکن پچھلی نصف صدی کی تحقیقات کی بنا پر یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ اس کا وطن شام وفلسطین ہے نہ کہ یورپ۔

زیتون کی وطنیت (Nativity) کاحوالہ قرآن کریم کی سورہ النور کی آیت 35 میں دیا گیا ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ:

’’ایک مفید درخت زیتون ہے جونہ پورب کا ہے نہ پچھم کا‘‘۔ گویا کہ قرآن کے مخاطبین اول یعنی عربوں کواس بات کا علم رہا ہوگا کہ ہر پودہ کا ایک وطن ہوتا ہے جہاں سے وہ دوسرے علاقوں میں لے جایا جاتا ہے اور انہیں بتایا گیا کہ زیتون دوسرے پھل اورپودوں کی طرح مغرب یا مشرق سے نہیں لایا گیا بلکہ یہ وہیں کا اصل پودا ہے۔

جناب عبداللہ یوسف علی نے اس آیت کا انگریزی ترجمہ تو یہی لکھا ہے کہ ’’زیتون نہ مشرق کا اورنہ مغرب کا‘‘۔ مگر تفسیر (نوٹ نمبر 2001) میں تحریر فرمایا ہے کہ زیتون سارے عالم کا ہے نہ کہ مغرب یا مشرق کا۔ محمد مارما ڈیوک پکتھال۔ آرتھر آربیری اور جناب عبداللطیف نے اپنے قرآنی تراجم (انگریزی) میں بھی یہی لکھا ہے کہ ’’زیتون نہ مشرق کا نہ مغرب کا‘‘۔

بہر حال راقم السطور کی رائے میں سورہ النور میں زیتون کا حوالہ اس کی نباتاتی اصلیت کی جانب ہے جس کوپودہ کی Nativity کہتے ہیں۔

زیتون کی بابت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’زیتون کا تیل کھانے میں بھی استعمال کرو اورمالش میں بھی۔ اس لئے کہ یہ بابرکت درخت کا تیل ہے‘‘۔

زیتون کے باغات جنوبی یورپ، شمالی افریقہ اورعرب کے کئی ممالک میں ملتے ہیں، لیکن اسپین اوراٹلی زیتون کے پھل اور تیل کے پیدا کرنے میں سر فہرست ہیں۔ روغن زیتون کی عالمی پیداوار تین ملین میٹرک ٹن سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔

روغن زیتون چراغ کی روشنی کے لئے زمانہ قدیم سے بڑا مشہور اور بڑا اہم رہا ہے۔ عمدہ قسم کا تیل نہایت شفاف ہوتا ہے۔ اسے اگر کسی صاف برتن یا گلاس کی قندیل میں رکھ دیا جائے توایسا محسوس ہوگا کہ کوئی شئے ہے جوخودہی روشن ہے اور اگر اس سے چراغ جلایا جائے توایسا لگے گا کہ گویا نور سے نور نکل رہا ہے۔ اسی حقیقت کی منظر کشی سورہ النور(آیت 35) میں کی گئی ہے اور روغن زیتون سے روشن قندیل کی روشنی کو ’’نور علی نور‘‘ کہا گیا ہے۔

مغربی ممالک میں امن وشانتی کے نشان کے طور پر فاختہ کو اس طرح پرواز کرتے دکھلایا جاتا ہے کہ اس کے منہ میں زیتون کی پتی ہوتی ہے۔ اس منظر کشی کی بنیاد وہ روایت ہے جس کی رو سے خیال کیا جاتا کہ حضرت نوح کے زمانہ میں قہر خداوندی ایک طوفانی سیلاب کی شکل میں ظاہر ہوا اور زبردست بربادی کے بعد جب طوفان تھمنے لگا تو خوشی اور امن کا پیغام ایک فاختہ پرواز کرتے ہوئے لائی جس کے منہ میں زیتون کی پتی تھی۔

ارشاد رسول بسلسلہ انجیر (عربی نام: تین)

1۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے انجیر سے بھرا ہوا تھال آیا۔ انہوں نے ہم سے فرمایا کہ ’’کھاؤ‘‘۔ ہم نے اس میں سے کھایا اور پھر انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’اگر کوئی کہے کہ کوئی پھل جنت سے زمین پر آسکتا ہے تومیں کہوں گا کہ یہی وہ ہے کیونکہ بلاشبہ جنت کامیوہ ہے۔ یہ بواسیر کو ختم کرتا ہے اور جوڑوں کے درد (گٹھیا) میں۔ (راوی حضرت ابوالدرداء ابوبکرالجوزیہ)

ارشادات رسول ﷺ بسلسلہ زیتون

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’زیتون کا تیل کھاؤ، اسے لگاؤ، یہ پاک اورمبارک ہے۔ (راوی حضرت ابو ہریرہ، ابن ماجہ)۔

2۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات الجنب کے علاج میں درس اور زیتون کے تیل کی تعریف فرماتے تھے۔ (حضرت زید بن ارقم، ترمذی)۔

3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہارے لئے زیتون کا تیل موجود ہے۔ اسے کھاؤ اوربدن پر مالش کرو۔ یہ بواسیر میں فائدہ دیتا ہے۔ (راوی حضرت علقمہ بن عامر۔ الجوزی)

4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے لگاؤ کیونکہ اس میں ستر (متعدد) بیماریوں سے شفا ہے۔ جن میں ایک کوڑھ بھی ہے۔ ۰راوی حضرت ابوہریرہ۔ ابو نعیم)