مضامین

نوجوانوں میں احساس ذمہ داری کا فقدان کیوں؟

جوانی میں وقت بہت قیمتی ہے اس کی اہمیت وقدر کرتے ہوئے شریعت مطہرہ کو اپنی زندگی اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے گذاریں۔

باکردار اور بہتر تعلیم وترتیب سے آراستہ نوجوان ہی قوم وملت کی ترقی نرینہ بنتے ہیں ترقی یافتہ خوش حال او رکامیاب اقوام کی تاریخ میں یہی راز پنہاں ہے کہ انہوں نے تعلیم اور کردار پر محنت صرف کی حصول تعلیم میں آنے والی رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوکر تاریخ انسانی کے معزم افراد کہلائے۔

متعلقہ خبریں
گولف سٹی سے 10ہزار افراد کو روزگار ملنے کی توقع
حیدرآباد، تعمیراتی صنعت میں قائد بن کر ابھرے گا
قرض کی فراہمی کو بینکرس سماجی ذمہ داری تسلیم کریں۔ ڈپٹی چیف منسٹر کا مشورہ
موسیٰ ریورفرنٹ ترقیاتی پروجیکٹ کو جلد شروع کرنے چیف منسٹر کی ہدایت
ایرانی قائد اپوزیشن نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرکے تاریخ بنائی

شریعت اسلامیہ میں نوجوان مسلمان کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ابتدائے اسلام میں تعلیمات اسلامی نے نوجوانوں پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے کائنات کی تاریخ میں صحابہ کرام کی نوجوان مقدس جماعت اپنے کردار واخلاق سے قیامت تک آنے والی نسلوں کو متاثر کیا جس کی مثال ملنا دشوار وناممکن ہے۔

 موجودہ حالات میں نوجوانوں میں اعتماد بحالی کی اشد ضرورت ہے۔ مولانا ابولحسن ندوی علی میاں ؒ نے کہا تھاکہ امت سے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کی اساسیات اور جوانی زمانہ نشاط اور عبادات سے لذت حاصل کرنے کا وقت تاریخ نے چند نوجوانوں کے زندہ جاوید رہنے والے واقعات بھی محفوظ کئے ہیں-

 جنہوں نے معرفت الہٰی حاصل کی اور اپنے دین پر ڈٹ گئے تو قرآن کریم نے ان کا تذکرہ محفوظ کرلیا۔  وہ کہنے لگے ”ہم نے ایک نوجوان کو ان بتوں کا ذکر کرتے سنا تھا جس کا نام ابراہیم ہے (سورہ انبیاء)

اور اسی طرح اصحاب کہف کے بارے میں فرمایا:

وہ چند نوجوان تھے اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے اور ہم نے انہیں مزید رہنمائی بخشی اور ہم نے ان کے دلوں کو اس وقت مضبوط کردیا جب انہوں نے کھڑے ہوکر اعلان کیاکہ ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی او رالہہ کو نہیں پکاریں گے اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ ایک بعیداز عقل بات ہوتی۔

 گذرتے ایام سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اپنی جوانی میں بڑھاپے کیلئے اور صحت کے دنوں میں بیماری کیلئے کچھ تیاری کرلینی چاہئے۔ اپنی موجودہ حالت سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ جوانی کے بعد بڑھاپا قوت کے بعد کمزوری صحت کے بعد بیماری کا خدشہ لاحق رہتاہے۔

جوانی میں وقت بہت قیمتی ہے اس کی اہمیت وقدر کرتے ہوئے شریعت مطہرہ کو اپنی زندگی اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے گذاریں۔

نوجوانوں کو دشمنان اسلام سے مکرو فریب کا سامنا ہے اس کیلئے شہوت سے بھری حرام چیزوں کو پیش کیاجا رہاہے۔ ان کے جنسی جذبات سے کھلواڑ کیاجا رہاہے‘ مسلم نوجوان کی شخصیت کو نابود مستقبل ضائع اور جوانی تباہ کی جارہی ہے۔

اس صورتحال میں طریقہ نجات یہ ہے کہ نفسیاتی تربیت قرآن کریم کے ذریعہ ہو دل کو ایمانی غذا دی جائے‘ نیک لوگوں کی صحبت کو غنیمت جان کر اختیار کیا جائے۔ وعظ ونصیحت کی مجلسوں میں پابندی سے شرکت کی جائے۔

 وعظ ونصیحت نوجوانوں کی زندگی کیلئے روح کی قیمت رکھتی ہے۔ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو بہت سی نصیحت فرمائی ایک جگہ فرمایا پیارے بیٹے نماز قائم کرو۔ نیکی کا حکم کرو اور برے کام سے منع کرو اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو اسیر صبر کرو بلاشبہ یہ سب باتیں بڑی ہمت کے کام ہیں۔

ہر قوم کی اصل قوت اس کا اخلاق اور کردار ہے اس لئے پیغمبر اسلامؐ نے فرمایاکہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجاگیا ہوں‘ قرآن وحدیث کی روشنی میں آپ مجموعی اور انفرادی دونوں سطح پر اس بات کاجائزہ لیں کہ ہم کیسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں نوجوان نسلوں کی تربیت کسی انداز میں ہورہی ہیں‘ مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے-

 اسلام نے جو ہمیں طرز زندگی سکھایا تھا وہ مہذب اقوام اختیار کررہی ہیں ہم اور ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں اسلامی طرز حیات سے دور نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ میں فتنہ وفساد برپا ہے‘ ان کے سد باب کیلئے۔ آئیے ہم عہد کریں ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں گے اصل تربیت وہی ہے جو اپنے عمل سے چھوٹوں کو سکھائی جائے اور وہ تبھی ممکن ہے جب ہمارا کردار وعمل اسلامی طریقہ پر ہوگا-

 اور اس کے حقائق پر وہ اعتماد واپس لایاجائے جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ جوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقل وذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کردیا جائے۔ چند بنیادی وجوہات واسباب۔.

(۱) اسلام کی بنیادی تعلیمات سے لا علمی۔

(۲) گھر میں اسلامی ماحول او راسلامی شعور کانہ ہونا۔

(۳) اسلامی اخلاقیات اور شرم وحیا سے عاری ہونا۔

(۴) بے روزگاری کی وجہ سے مختلف الجھنوں کا شکار ہونا۔

(۵) مغربی تہذیب او رجنسی انارکی کے اثرات کی وجہ سے لذت پرستی اور جنسی خواہشات کی لت لگنا۔

(۶) حیا سوز سیریلز، فلمیں اور ویب سائٹس کی وجہ سے بے شمار اخلاقی برائیوں کا عام ہونا

(۷) کاسمیٹک او رکارپوریٹ کلچر کے پھیلاؤ کی وجہ سے نوجوانوں کے درمیان دہنی تناؤ اور ان کا مختلف اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہونا۔

(۸) نفس امارہ، ضمیر فروشی اور مادہ پرستی جیسی روحانی بیماریوں کا عام ہونا۔

(۹) نوجوانوں کا والدین کی شفقت، محبت اور رہنمائی سے محروم ہونا۔

(۱۰) ازدواجی زندگی میں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر احساس کمتری کا شکار او راس کا مناسب حل حلاش نہ کرنا اسباب ووجوہات تو بہت ہیں مگر اکثر وبیشتر انہیں سائل سے آج کا نوجوان برسر پیکار ہے شریعت مطہرہ میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا خوشگوار حل موجود نہ ہو بس ضرورت اس کے حل کو تلاش کرنے کی ہے۔

نوجوانوں کو اپنی زندگی مں ی عقل وجذبات کے درمیان توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جوانی میں جوش وجذبات کی کثرت ہوتی ہے اگر جذبات اور جوش کو شریعت مطہرہ کے تابع نہ کیا جائے تو باعث نقصان ہوتاہے بہت سے جذبات انسان کو مجرم بنادیتے ہیں۔

ایسے حالات میں ضروری ہے کہ نفسیاتی تربیت قرآن کے ذریعہ ہو دل کو ایمانی غدا دی جائے نیک لوگوں کے ہم رکاب بنیں اور نفسانی خواہشات کو شرعی طریقوں سے پورا کریں اس سے خوشحالی اور سعادت نصیب ہوگی۔ نوجوان معاشرہ میں بھرپور اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 عزم وارادے کے مضبوط ہوتے ہیں منزلوں تک پہنچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اپنی موجودہ حالت سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ جوانی کے بعد بڑھاپا قوت کے بعد کمزوری صحت کے بعد بیماری کا خدشہ لاحق رہتاہے، جوانی میں وقت بہت قیمتی ہے اس کی اہمیت وقدر کرتے ہوئے شریعت مطہرہ کو اپنی زندگی اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے گذاریں۔

نوجوانوں کو شمنان اسلام سے مکر وفریب کا سامنا ہے اس کیلئے شہوت سے بھری حرام چیزوں کو پیش کیاجا رہاہے ان کے جنسی جذبات سے کھلواڑ کیاجا رہاہے مسلم نوجوان کی شخصیت کو نابود مستقبل ضائع اور جوانی تباہ کی جارہی ہے ۔

اس صورت حال میں طریقہ نجات یہ ہے کہ نفسیاتی تربیت قرآن کریم کے ذریعہ ہو دل کو ایمانی غذا دی جائے نیک لوگوں کی صحبت کو غنیمت جان کر اختیار کیا جائے نفسیاتی خواہشات کو شریعت مطہرہ کے تابع کیا جائے وعظ ونصیحت کی مجلسوں میں پابندی سے شرکت کی جائے۔

ہر قوم کی اصل قوت اس کا اخلاق او رکردار ہے اس لئے پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں قرآن وحدیث کی روشنی میں آپ مجموعی اور انفرادی دونوں سطح پر اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم کیسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں نوجوان نسلوں کی تربیت کسی انداز میں ہورہی ہیں مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

 اسلام نے جو ہمیں طرز زندگی سکھایاتھا وہ مہذب اقدام اختیار کررہی ہیں ہم اور ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں اسلامی طرز حیات سے دور نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ میں فتنہ وفساد برپا ہے ان کے سدباب کے لئے۔ آئیے ہم عہد کریں ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں گے اصل تربیت وہی ہے جو اپنے عمل سے چھوٹوں کو سکھائی جائے اور وہ تبھی ممکن ہے جب ہمارا کردار وعمل اسلامی طریقہ پر ہوگا۔

 (۱) علم: علم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ جن کے حصول کیلئے تک ودوکرنا ہر مسلم نوجوان پر فرض ہے۔ علم ہی وہ چیز ہے جس کی بدولت ایک انسان اپنے خالق کو پہچان سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر وہ اپنی ذات اور خودی کو پروان چڑھاسکتا ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر رب کے رنگ میں رنگ سکتاہے۔ اسی علم کی بنیاد پر ایک انسان صالح اور پرامن معاشرہ کی تعمیر کیلئے جدوجہد کرسکتا ہے۔

انسان اپنے خالق کی قربت ومعیت اسی علم کی بنیاد پر حاصل کرسکتاہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی علم کے ذریعہ سے طلبہ اور نوجوانوں کا استحصال کیا جاتاہے۔ اس وقت طلبہ اور نوجوان جو علم حاصل کررہے ہیں وہ سیکولرزم اور مادیت کے زہریلے اثرات سے مزین ہے۔ رائج نظام تعلیم میں ایمانی، اخلاقی اور روحانی اقدار کا وجود ہی نہیں۔ یہ نظام تعلیم مادیت (Metrialism)، عقلیت (Rationalism)، لذت فروشی۔

اے مسلم نوجوان! تمہارے لئے سب سے زیادہ مخلص، خیر خواہ، اور رہنما تمہارے والدین ہیں، وہ دونوں تمہارے فائدے کو اپنے مفاد پر ترجیح دیتے ہیں، وہ تم پر اپنی جان تک نچھاور کر دیتے ہیں، اس لئے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، ان کی اطاعت گزاری کیلئے پوری جدوجہد کرو، ان کے ساتھ اچھا برتاو رکھو، ان کے اشاروں پر عمل کرو، ان کی دانائی سے بھر پور باتوں سے استفادہ کرو، وہی تمہارے لئے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں اور جب کبھی وہ اپنا مشورہ تمہارے سامنے رکھیں تو اس سے پہلو تہی مت کرو، اور نہ ہی ان سے اپنے کسی چھوٹے بڑے معاملے کو پوشیدہ رکھو، ان کی تعلیمات پر توجہ دو، کیونکہ اپنے والدین کی نافرمانی کی وجہ سے کتنے ہی مسلم نوجوانوں کو نقصانات اٹھانے پڑے، ان کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یہی تعلیمات تمہیں جنت میں لے جائیں گی، اور تم سے رحمن بھی راضی ہوجائے گا، ان تمام باتوں کے بارے میں شرعی نصوص متواتر اور کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔

اللہ کے بعد تم ہی امت کا سہارا ہو، کسی بھی جگہ یا وقت اس امت اور دین کا چہرہ بگاڑنے کیلئے دشمنوں کی طرف سے نوجوانوں کے ذریعے اٹھنے والی ہر کوشش کو ناکام بنا دو، اپنے ارد گرد تقوی الہی کا حصار قائم کرو، اور منطقِ عقل و حکمت کو تھام لو، شفقت و رحمت اور نرمی پر عمل پیرا رہو، ساری دنیا کو دین کی خوبیوں سے بہرہ ور کردو، اسلام کی عظیم اخلاقی اقدار، رحمدلی، اور لا متناہی امتیازی صفات کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ کی جانب دعوت دو۔

علمائے کرام، مبلغین، دانشور اور مفکرین حضرات! اللہ تعالی سے فرزندان اسلام کے بارے میں ڈرو! آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کی دنیا و آخرت میں مفید اشیا کی جانب توجہ کروائیں، انہیں مسلّمہ اسلامی شعائر یا فتوی نویسی کے بارے میں ہر ایسی چیز سے بچائیں جن کے نتائج نا معلوم یا مذموم ہوسکتے ہیں۔

 نوجوانوں کو ان چیزوں سے بھی دور رکھیں جو دینی و شرعی قواعد و ضوابط کے مطابق امت کیلئے وسیع تر مفاد کا باعث نہ ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک آدمی لا پرواہی میں رضائے الہی پر مشتمل بات کہہ دیتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے درجات بلند کردیتا ہے، اور ایک آدمی لاپرواہی میں اللہ کی ناراضگی پر مشتمل کوئی بات کہہ دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ جہنم میں ستر سال دور جا گرتاہے) بخاری

٭ جوانی کے قیمتی لمحات انمول ہوتے ہیں، یہ قوت و توانائی میں اس کا کوئی ثانی نہیں، اس لیے کامیابی کے کسی بھی امیدوار کی یہ ذمہ داری ہے کہ جوانی اللہ تعالی کی اطاعت میں گزارے اور جوانی کے شب و روز عبادتِ الہی سے بھر پور رکھے، قربِ الہی کی جستجو میں رہے، ہمہ وقت نفسانی اور شیطانی خواہشات کے مقابلے کیلیے جد و جہد کرے، آپ ؐ کا فرمان ہے

(پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو، آپؐ نے ان پانچ چیزوں میں بڑھاپے سے پہلے جوانی کا بھی ذکر فرمایا)۔ اس لیے مسلم نوجوانو! جوانی کے وقت کو اطاعتِ الہی کیلئے غنیمت سمجھو، ممنوعہ امور سے بچتے ہوئے احکاماتِ الہی اور تعلیماتِ نبوی کے سائے تلے آگے بڑھو، تو دنیا میں اچھے نتائج پاوگے، اور رب کریم کے ہاں بڑی کامیابی حاصل کر لوگے۔

 آپ ؐ کی یہ عظیم حدیث غور سے سنیں: (سات افراد کو اللہ تعالی سایہ نصیب فرمائے گا، جس دن اس کے سائے کے سوا کسی کا سایہ نہیں ہوگا، آپ ؐ ان 7 افراد میں اس نوجوان کا تذکرہ بھی کیا جو اللہ کی عبادت میں پروانے چڑھے) بخاری۔