طنز و مزاحمضامین

کون اپنا اور کون پرایا؟

ابو متین

”پرائی تھالی کا بھات میٹھا“ کی بات تو قابل فہم ہے کیوں کہ اپنے گھر کی مرغی دال برابر بھی تو ہوا کرتی ہے۔غرض یہ کہ پرائے کی اپنائیت لوگوں کو لبھاتی ہے۔ پرایا بھات (خشکہ) ہو کہ دال دونوں بھی دُور کے ڈھول سُہانے کی طرح بڑے اچھے لگتے ہیں۔ اپنی ہر چیز جو ساتھ لگی ہوتی ہے وہ قربت کی وجہ سے اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔ آسانی سے دستیاب ہونے والی چیزوں کی قدر و قیمت گھٹ جانا ایک ضروری امر ہے، لیکن یہ حضرت انسان کی غلط فہمی ہوا کرتی ہے۔ یہ کوئی اچھے اور بُرے کی پہچان ہی ہے اور نہ کسوٹی یہ دراصل اُجلے کو دیکھ کر اُچھل جانا اور پہلے کو پاکر پھسلنے کا رومانی تصور ہے ورنہ کھرا سونا اور ہیرے موتی ہر وقت یکساں اہمیت نہ رکھتے۔ ان کی قدر اپنے اور پرائے کی محتاج نہیں ہوتی اور نہ قریب و دُور کا مسئلہ ہی آڑے آتا ہے۔ سونا اور ہیرے موتی انسان کے رومانی تصور کی بھینٹ چڑھ کر بے وقعت نہیں ہوتے۔ اپنا اور پرایا کی تفریق اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔یہ انسان کی کوتاہ نظری اور فریب نظر کا معاملہ ہے۔ سونے کا ڈَلّا بھکاری کی لنگوٹ میں رہے یا ریزروبینک کے لاک میں‘ وہ ہر حال میں یکساں قدر و قیمت رکھتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کوئی منچلا فراڈی آسمان پر بھینس اُڑنے کا تماشا بتاکر اُوپر اِشارہ کرے اور اُس کا سونے کا ڈلّا اڑے اور بھکاری اس تنگ جگہ کی تکلیف سے ڈلّا نکل جانے پر سکھ کی سانس لے۔
اپنے اور پرائے میں پرائی چیزیں دوری رکھنے کے باوجود اچھی لگتی ہیں۔ حالاں کہ پرایا تعلق اپنے کی ضد ہوا کرتا ہے۔ وہ غیر ہی ہوتا ہے، اپنے کی بات اور ہوتی ہے۔ دونوں میں زمین اور آسمان کی دوری ہوتی ہے۔ اپنے میں اپنی ذات اور اس کی قربت میں رہنے والے سبھی شامل ہوتے ہیں۔ جب تک یاروں کے دِل و دماغ میں حق و انصاف اور راستی کا بول بالا تھا یہ اقدار سب پر حاوی تھے، اس کسوٹی پر اپنا وجود اور پرایوں سے روابط کو پرکھا جاتا تھا۔کھرے اور کھوٹے کی پہچان اسی پیمانے سے ہوا کرتی تھی۔ عام حالات میں حق و انصاف اور راستی کی قدر و قیمت سونا اور ہیرے موتی جیسی ہوتی ہے۔ اب بھی ان کو سرچڑھایا جاتا ہے، ان کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ پہلے یہ اقدار عام انسانی زندگی کا لازمی حصہ تھے پھر مشرقی تہذیب کی شناخت سمجھے جاتے تھے۔ موجودہ حالات میں ان کومشرق نے بھی نکال پھینک کر مغربی تہذیب کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے۔ اس کی جگہ اپنے اور پرائے کے دو خانوں میں لوگ تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں۔ اپنا ہر حال میںسچا اور کھرا ہوتا ہے اور پرایا حرف غلط کی طرح مٹادینے کے لائق سمجھا جانے لگا ہے۔ پرایا کبھی حق اور راستی پر گامزن ہوتا ہی نہیں۔ یہ تصور جڑپکڑ لیا ہے اور اس کے کڑوے نتائج لوگوں کو بھگتنے پڑرہے ہیں۔
اپنے کی طرفداری اور حمایت میںلوگ ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں اور یہ تفریق اُس وقت تک سامنے نہیں آتی جب تک کہ کوئی ٹکراﺅ کا واقعہ رونما نہ ہوجائے۔ جوں ہی باہر کے کسی شخص سے کوئی معاملہ ٹھن جاتا ہے تو مقابل کے حریف اندھا دُھن آستین چڑھا کر میدان کارزار میں کود پڑتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ آدمی کچھ نیا کرکے اپنے پن کا ثبوت دیتا ہے۔ کسی تکرار اور تُو تُو مَیں مَیں کے بیچ اپنی ٹانگ اَڑایا کرتا ہے۔ دراصل مدّعی سُست اور گواہ چُست کے مرحلے کو پورا کیا جانا ہوتا ہے۔ہر حال میں اپنے کی تائید کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے اور پُر جوش انداز اختیار کرکے ہی تو اپنائیت کی لاج رکھی جاتی ہے۔ معاملے کی نوعیت اصل شخص تک محدود ہوتی ہے۔ باقی کے لڑاکو دونوں محاذوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔ ہرگروہ اپنے حق وراستی پر قائم ہونے کا دعویدار ہوتا ہے، یہ حق اور انصاف واقعاتی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی تائید و طرفداری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اِس اُٹھا پٹک میںنیچے بھی گرے تو ایک ٹانگ اُٹھا کر جیت ہماری ہوئی کہنے والا راستی پر سمجھا جاتا ہے۔ہوشیار فریق چاہے وہ پٹکی کھائے یا پٹکی دے جیت چیخنے چلانے والے کی سمجھی جاتی ہے اِسی لیے کہا جاتا ہے ”جس کا گلّا ہے اُس کا اللہ ہے“ حق اور ناحق کے پیمانے بدل گئے ہیں۔ جدید زمانے نے جھگڑﺅں کی نوعیت بدل دی ہے لیکن مقولہ قدیم ہی رکھا ہے۔ ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ کو جوں کا توں قبول کرلیا گیا ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف لاٹھی والے کو بھینس ملتی ہے‘ بلکہ لاٹھی والا خود بھی حق اور انصاف کا مدعی کہلاتا ہے۔ کیوں کہ وہ لاٹھی کے زور سے حق کو قابو میں کرلیتا ہے۔ تبھی توحق کا علمبردار خیال کیا جاتا ہے۔ یہ نظریہ ہماری قومی شان ہے اور ہزاروں سال قدیم روایات کی دین ہے۔ جیتنے والا دیوتا اور ہارنے والا راکھشس اسی کی کرم فرمائی ہے۔ جیتنے والے اپنے اور ہارنے والے پرائے ہوتے ہیں چاہے وہ جیت لاٹھی کے بل بوتے پر ہی کیوںنہ حاصل کی گئی ہو۔ کچھ لوگ اس کو جنگل کا قانون مانتے ہیں۔ انسان بھی ابتداً جنگل کا نواسی تھا، اس لیے جنگل کی بو دوباش نہ سہی قانون کو تو درآمد کرسکتے ہیں البتہ یہی حالات برقرار رہیں تو لوگ دوبارہ وہیں کی رہائش اختیار کرنے لگیں گے۔ اس میں برائی کیا ہے؟
اُوپر اپنے اور پرائے کی شان میں جو کھری کھری سنائی گئی وہ حالاتِ حاضرہ کا آنکھوں دیکھا حال ہے ورنہ لوگ کبھی بھی بے سوچے سمجھے کسی تکرار میں حصہ لینا پسند نہیں کرتے تھے۔سچائی اور زیادتی کی پرکھ ہر نفس انسانی کو لازماً ہوا کرتی تھی اور جب کوئی اس کے برخلاف اپنے کی ہر حال میں طرفداری کرتا نظر آتا تو لوگ اُس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، اُس کو خبطی (Crazy) یا کریک (Cracked) کے القاب سے نوازکر منہ موڑ لیتے تھے اور جب معاملہ گمبھیر ہوجاتا تو بُرائی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے۔ اور عموماً ماحول اس طرح کا ہوا کرتا تھا کہ لوگ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ اس عام رجحان کی ساری باتیں الٹ گئی ہیں۔
یہ خبطی پن وبا کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ حالاں کہ ان اپنوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھولے سے بھی اپنائیت کا احساس بیدار نہیں ہوتا۔ باہمی معاملات میں یہ جذبہ میٹھی نیند کے مزے لوٹتا ہے، لیکن جب کسی تیسرے کے ساتھ کوئی جھمیلہ آپڑتا ہے تو رگِ اپنائیت یُوں پھڑک اُٹھتی ہے جیسے کسی پاگل کو کچی نیند سے جگادیا گیا ہو۔ معاملہ کیا ہے زیادتی کس طرف سے ہورہی ہے؟ کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اپنا ہونا ہی حریف کے ساتھ دو دو ہاتھ ہونے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ حق و انصاف کی جستجو کرنا اپنے کی شان میںگستاخی کرنے کے مترادف سمجھا جانے لگا ہے۔ دریافت حال اس لیے بھی بے کار ہے کہ کون اس موقع پر سچائی بتاکر پانسہ پلٹنا چاہے گا؟
سرکاری دفاتر کا ائرپورٹ اسٹاف ہو کہ پولیس کے ذمہ دار، یہ سب بے درد بلماں کا کردار نبھا رہے ہیں۔ اُن کے معمولی اشاروں اور سرسری فیصلوں کو پتھر کی لکیر مان کر سارے اپنے یک زبان ہوجاتے ہیں۔ اپنوں سے سہو اور غلطی کا تصور ناممکن تصور کرلیا جاتا ہے۔ اس لیے فریادی پرایا ہوجاتا ہے۔ ان کے کاٹے کا مریض سیاہ ناگ کے ڈسنے جیسا لا علاج ہوجاتا ہے۔ مسئلہ سلجھانے اور دادرسی ہونے تک ”خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونئے تک“ کا معاملہ درپیش ہوجاتا ہے۔
اپنائیت کی یہ جدید وبا لوگوں کے سر چڑھ کر بولنے لگی ہے۔ انسانی سماج کا ہر طبقہ اس میں بھر پور حصہ ادا کررہا ہے۔ ایک تو مغربی تہذیب کی یلغار نے اس سماج کی ساری چولیں ڈھیلی کردی تھیں، لوگوں کو حیوانی رہن سہن کا خوگر بنادیا گیا ہے۔ اخلاق و کردار سے مزین تہذیب کو کھوکھلا کرکے ناقابل شناخت کردیا گیا ہے۔ جس شدت سے برائیاں پروان چڑھ رہی ہیں، اس کا عشر عشیر مقابلہ بھی اصلاح کرنے والوں سے ممکن نہیں رہا ہے۔ جن اعلیٰ وسائل سے بگاڑ کی تخم ریزی ہورہی ہے ان کا ادنیٰ حصہ بھی اہل حق کو میسّر نہیں۔ جن کو اس کام کو انجام دینا تھا وہ ابھی نیم بیدار آنکھوں سے دنیا کو دیکھنے میں محو ہیں۔ ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہی ہے اور نہ آمادگی۔ آنکھیں مل مل کر حیران و پریشانی کا مظاہرہ کرنے والوں سے کیا ممکن ہوگا تصور کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان کے کچھ لوگ ناک بھوں چڑھا کر دُوری اختیار کرتے رہتے ہیں ورنہ زیادہ تر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں عافیت جانتے ہیں۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ زمانہ قیامت کی چال چلتاہوا انسان کو پاتال کی نئی نئی گہرائیوں کی سیر کروانے لگا ہے۔ برہمنی سماج نے بھی اپنی جارحیت کے اسلحہ کو صیقل کرکے آزمانا شروع کردیا ہے۔ اس طرح اپنے اور پرائے کے بدلتے اندھکار کا ہم بھی کل پرزہ بن کررہ گئے ہیں۔ یوں سمجھئے اہل فلک کے ساتھ ساتھ ہم بھی اس زیادتی کے حمام میں برابر کے ننگے بنے ہوئے ہیں۔ دین و مذہب پسند لوگوںسے تو یہ اُمید ہرگز نہ تھی کہ وہ ایسا کرتے، کیوں کہ خدا کو پہنچاننے والے اور آخرت کی بازپرس سے خوف کھانے والے تو کم از کم انصاف و راستی پر گامزن رہ سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہر حال میں اپنے کی تائید کرتے ہوئے مظلوم و بے بس پر ”مرے پہ مارے سو درّے“ کے مطابق عمل کرنے لگے ہیں۔ حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ سب کچھ تلپٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ حق و ناحق کا مسئلہ طاق نسیاں کردیا گیا ہے۔زمانہ قدیم سے معلم کا پیٹنا اور اچھی تدریس کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا رہا ہے۔ مدارس میں اس کی دلیل میں انگریزی مقولہ دہرایا جاتا تھا کہ معلم کی چھڑی سے دست بردار ہونا دراصل بچے کو بگاڑنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس منہ توڑ دلیل کے سنتے ہی اچھے اچھوں کی بولتی بند ہوجاتی تھی۔ شہر کے مدرسے میں ایک معلم نے نو دس سالہ طالب علم کو لکڑی سے اس قدر پیٹا کہ سرزخمی ہوگیا اور خون جاری ہوگیا۔ مدرسے کے اسٹاف نے مل کر ایک دوسرے کو تعاون کرتے ہوئے اس واقعہ کو منظر عام پر آنے سے روک دیا اور اندر ہی اندر کسی کلینک سے سر کے ٹانکے لگواکے بچے کو گھر جانے نہ دیا۔ بچہ جب مقررہ وقت پر گھر نہیں پہنچا تو ماں کو تشویش ہوئی اور مدرسے کے دوسرے بچوں سے پوچھتی ہوئی مدرسہ آپہنچی وہاں جو بھی موجود تھے، انہوں نے لاعلمی ظاہر کرکے مسئلہ ٹالنا شروع کردیا، بچے کی ماں سخت حیران ہوئی، وہ مزید کھوج کرنے کے لیے ہم جماعت بچوں کی طرف رجوع ہوئی ،وہاں ساتھی بچوں نے کوئی واضح جواب نہ دیا۔ تشویش اور شکوک کی وجہ سے ماں نے پولیس اسٹیشن سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ دو کانسٹبل مدرسے کی تلاشی لینے آپہنچے تو معلم کے ساتھیوں نے مجبوراً بچے کو حوالے کرکے سکھ کا سانس لیا اور بچے نے پولیس اسٹیشن میں ساری باتیں سنادیں۔ معلمین کے ڈرانے دھمکانے کا اثر قبول نہ کیا اور پیٹنے والے معلم کے غصہ کی ساری کہانی بے کم وکاست پیش کردیا۔ مدرسے کی بد نامی کا شیطانی وسوسہ بھونڈے پن کا شکار ہوکر گلے کی ہڈی بن گیا۔ ظاہر ہے پولیس قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے غصہ کو اُس کے انجام تک ضرور پہنچائے گی۔بریلی یو پی سے یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ شہر کے مکانوں کی قطار کے آگے ایک نوجوان اپنی ٹو وہیلر روکے کھڑا تھا اور زور زور سے ہارن بجانے لگا۔ جب اس نے کچھ دیر تک یہ سلسلہ جاری رکھا اور مسلسل زور زور سے آواز گونجتی رہی تو اُس مالک مکان کی شامت اعمال ہی تھی کہ وہ اپنی کھڑکی کے سامنے سے اُس نوجوان کو ہٹانے کے لیے باہر آگئے۔ پہلے انہوں نے شرافت سے درخواست کی لیکن نوجوان سڑک کا حوالہ دے کر اپنا حق جتاتا رہا۔ دونوں میں تکرار بڑھی اور مسئلہ سلجھنے کے بجائے اور بڑھ گیا۔ نوجوان نے فون کرکے اپنے دو ساتھی نوجوانوں کو مدد کے لیے طلب کرلیا۔ بات بڑھتی گئی اور تینوں نے مل کر مالک مکان کی وہ درگت بنائی کہ ان کو پولیس اسٹیشن کے بجائے دواخانے میں شریک کرنے کی نوبت آئی اور وہ نوجوان نہ جانے کدھر سے آئے تھے اور وہ فرار ہوگئے۔ دواخانوں اور سرکاری دفاتر میں جب بھی ملازمین سے زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں تو ان کا اسٹاف اپنوں کا معاونت کا حق ادا کرتے ہوئے ظلم و زیادتی کی طرف داری کو پروان چڑھاتا ہے ۔اللہ بچائے۔