حیدرآباد
ٹرینڈنگ

کیا کانگریس اِس مرتبہ کسی مسلم کو ایوان اسمبلی بھیج پائے گی؟

گزشتہ انتخابات میں کانگریس پارٹی کے صرف دو ہی امیدوار محمد علی شبیر اور فیروز خان نے سخت مقابلہ کیا تھا اور اپنے حریف امیدواروں سے بہت کم اکثریت سے شکست کھائے تھے۔

حیدرآباد: آئندہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی‘ تلنگانہ میں مسلم رائے دہندوں پر بہت زیادہ انحصار کئے ہوئے ہے چونکہ یہاں برسراقتدار بی آر ایس‘ کانگریس اور بی جے پی میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔

متعلقہ خبریں
دھان کی خریداری میں دھاندلیوں کی سی بی آئی جانچ کروائے گی:بی جے پی
کانگریس کو انڈین یونین مسلم لیگ کی غیر مشروط تائید
مسلمانوں کا اتحاد بکھیرنے فسطائی طاقتیں سرگرم، چوکنا رہنے کی اپیل : اکبرالدین اویسی
41 برسوں کے بعد کسی وزیراعظم کا دورہ عادل آباد
تلنگانہ:ایم ایل سی کی نشست کے ضمنی انتخاب کی مہم کااختتام

ایسے میں اگر ریاست کے مسلمان‘ کرناٹک کے مسلم رائے دہندوں کی طرح بی آرایس یا کانگریس میں کسی ایک پارٹی کو ترجیح دیتے ہیں تو اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں مگر دونوں ہی سیاسی پارٹیاں‘ مسلم مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس پارٹی اس مرتبہ بھی کسی بھی مسلم امیدوار کو ایوان اسمبلی بھیج پائے گی؟ گزشتہ انتخابات میں کانگریس پارٹی کے صرف دو ہی امیدوار محمد علی شبیر اور فیروز خان نے سخت مقابلہ کیا تھا اور اپنے حریف امیدواروں سے بہت کم اکثریت سے شکست کھائے تھے۔

کیا اس مرتبہ بھی یہی صورت حال دہرائی جائے گی؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ایوان اسمبلی میں ماسوائے مجلس صرف ایک ہی مسلم کے ایوان اسمبلی پہنچنے کے امکانات دکھائی دیتے ہیں۔

جہاں تک پارٹی کی جانب سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جانے کا تعلق ہے بھارت راشٹرا سمیتی نے صرف 3 مسلم امیدواروں کا اعلان کیا ہے جن میں دو اسمبلی حلقے پرانے شہر کے ہیں جب کہ صرف بودھن سے موجودہ رکن اسمبلی عامر شکیل کو ہی ٹکٹ دیا گیا ہے جو متواتر دو معیاد سے کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔

 کانگریس پارٹی نے تاحال اپنے امیدواروں کی فہرست جاری نہیں کی ہے۔ ریاست کے 119 اسمبلی حلقوں سے زائد از 70 مسلم قائدین نے کانگریس پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواستیں دی ہیں مگر حیدرآباد کے باہر ایک یا دو ہی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دئیے جانے کا امکان ہے۔

 2018 اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی نے تلنگانہ سے 7 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا جن میں حیدرآباد کے پانچ اسمبلی حلقوں کے علاوہ کاماریڈی سے سینئر قائد محمد علی شبیر اور نظام آباد سے طاہر بن حمدان شامل تھے مگر بدقسمتی سے کانگریس پارٹی سے ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔

 محمد علی شبیر جنہیں 63,610 ووٹ حاصل ہوئے تھے صرف 4,557 ووٹوں کے فرق سے بی آر ایس امیدوارگمپا گوردھن سے شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ نامپلی نشست سے محمد فیروز خان کو 9,675 ووٹوں سے مجلس کے امیدوار جعفر حسین معراج سے شکست ہوئی تھی۔

 نظام آباد اربن سے طاہر بن حمدان نے اگرچہ 46,055 ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی مگر ووٹوں کا فرق 25,841 کا تھا۔چارمینار سے کانگریس کے امیدوار محمد غوث نے صرف 16,899 ووٹ حاصل کرتے ہوئے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی جب کہ یہاں سے مجلس کے امیدوار ممتاز احمد خان کو 53,808 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

اسی طرح حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ سے کانگریس کے امیدوارعیسیٰ بن عبید مصری نے 11,309 ووٹ حاصل کرتے ہوئے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی جب کہ یہاں سے مجلس اتحاد المسلمین کے اکبر الدین اویسی نے 95,339 ووٹ حاصل کرتے ہوئے زبردست کامیابی حاصلی کی تھی۔

کاروان سے کانگریس کے امیدوار عثمان بن محمد الہاجری نے 11,231 ووٹ حاصل کرتے ہوئے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس حلقہ سے کامیاب مجلسی امیدوارکوثر محی الدین کو 87,586 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔حلقہ اسمبلی بہادرپورہ سے شیخ محمد کلیم الدین کو صرف 7,174 ووٹ حاصل ہوئے تھے جہاں سے مجلس کے امیدوار محمد معظم خان نے 96,993 ووٹ حاصل کرتے ہوئے شاندار کامیابی درج کی تھی۔

 سابقہ انتخابات میں مسلم امیدواروں کے مظاہرہ اور دیگر طبقات سے زبردست مسابقت کا بہانہ بناکر حیدرآباد کے باہر بمشکل صرف دو امیدواروں کو ہی ٹکٹ دے سکتی ہے جن میں محمد علی شبیر کو ٹکٹ ملنا یقینی دکھائی دیتا ہے مگر اس مرتبہ حلقہ اسمبلی کاماریڈی سے بھی مقابلہ کرنے کا بی آر ایس سربراہ و چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اعلان کیا ہے جس کے باعث ان کی کامیابی کے امکانات بھی موہوم نظر آتے ہیں۔

صرف فیروز خان ہی سخت مقابلہ کرسکتے ہیں مگر یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مجلس کے اس گڑھ سے کامیاب ہوپائیں گے۔ کانگریس پارٹی میں محمد علی شبیر اور فیروز خان دو ہی ایسے امیدوار نظر آتے ہیں جن کی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔

مگر اس مرتبہ کے سی آر کے کاماریڈی سے مقابلہ کے باعث محمد علی شبیر کے لئے بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے جو اس حلقہ سے مسلسل مقابلہ کرتے آرہے ہیں مگر انہیں گزشتہ دو انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان دو قائدین کے علاوہ دیگر اقلیتی قائدین میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنے دم خم پر رائے دہندوں کی تائید و حمایت حاصل کرسکے۔

 کانگریس کے بہت سے اقلیتی قائدین صرف پارٹی کے ہیڈکوارٹرس اور پارٹی کے اہم اجلاسوں میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان قائدین کا عوام سے رابطہ بہت ہی کم ہے جس کی وجہ سے رائے دہندے ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔

جہاں تک گزشتہ انتخابات میں پرانے شہر کے اسمبلی حلقوں میں بی آر ایس دوسرے یا تیسرے پوزیشن پر رہی ہے جب کہ کانگریس کا مؤقف چوتھا رہا ہے۔ پرانے شہر کے چارمینار‘ چندرائن گٹہ اور کاروان میں بی جے پی کو دوسرا مؤقف حاصل رہا ہے۔ ایسے میں پرانے شہر سے کانگریس پارٹی کی کامیابی کا تصور بھی کیا جانا محال ہے۔

a3w
a3w