سیاستمضامین

ایک جانب طلاق و خلع کا طوفان تو دوسری جانب خلع یا باعزت علاحدگی کیلئے عورتوں کی تڑپ مسلم معاشرہ ایک بحران کا شکار ہورہا ہےشادی کے ابتدائی دنوں میں اگر حالات ناسازگار ہوں تو ’’ طلاقِ تفویض ‘‘ کے اصول کا فائدہ اٹھانا چاہیے

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ طلاقِ تفویض طلاق یا خلع کی طرح کارگر ثابت ہوگی۔
٭ طلاقِ تفویض کا اصول عورتوں میں احساسِ تحفظ پیدا کرے گا۔
٭ یہ ایک مسلمہ اصول ہے جس کی شریعت اور قانون نے اجازت دی ہے۔
٭ شادی سے قبل یا بعد کسی بھی وقت یہ معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
حالیہ ایک واقعہ جو ہمارے علم میں لایا گیا ‘ اس مضمون کی تحریر و اشاعت کا محرک بنا۔ گو کہ اس مضمون میں سابق میں کئی مرتبہ مضامین شائع ہوئے اور گزشتہ مضمون شائد دو سال قبل شائع ہوا تھا۔ لیکن لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے اور ایسی باتوں کو وہ بھول جاتے ہیں لہٰذا اس مضمون پر ایک اور اظہارِ خیال اور اشاعتِ رائے شائد وقت کی ضرورت ہے اور شائد کچھ متاثرہ حضرات کو بھی کچھ فائدہ حاصل ہوسکے۔
واقعہ : ایک ایم۔فارمیسی لڑکی کی شادی بہت ہی شاندار طریقہ پر انجام دی پائی۔ جہیز میں بیس تولے سونے کے زیورات دیئے گئے۔ شادی ایک شاندار فنکشن ہال میں انجام پائی جس میں دیڑھ ہزار مہمانوں کو مدعو کیا گیا۔ شادی کے جملہ اخراجات چالیس پچاس لاکھ روپیہ سے کچھ زیادہ ہی آئے۔ یہ شادی بہت ہی عجلت میں انجام پائی ۔ لڑکے کا سارا خاندان امریکہ میں رہتا ہے۔ والدین ایک ریاست میں تو لڑکے کے کام کی جگہ ایک دور دراز ریاست میں ۔ شادی کے بعد لڑکی والوں سے وعدہ کیاگیا کہ بہت جلد لڑکی کو امریکہ بلالیا جائے گا کیوں کہ لڑکا اور اس کے والدین امریکہ کے شہری ہیں۔ شادی کے بعد کچھ دن گزرے ۔ دن مہینوں میں اور مہینے تین سال میں تبدیل ہوگئے۔ لیکن لڑکی کو واپس نہیں بلایا جاسکا۔ امریکہ کی مقامی جاسوسی ایجنسی سے پتہ چلایا گیا تو معلوم ہوا کہ لڑکا پہلے ہی سے شادی شدہ ہے اور اس کی بیوی ایک امریکن عورت ہے جو اس سے (Alimony) یعنی نفقہ کی رقم عدالت کے حکم کے تحت حاصل کرتی ہے۔ بظاہر لڑکا ایک انجینئر ہے اور اس کی بہت اچھی تنخواہ ہے لیکن اس کی بیوی نے اس کے خلاف کئی مقدمات مقامی عدالت میں دائر کررکھے ہیں۔ ان لوگوں نے لڑکی اور اس کے ماں باپ کو زبردست دھوکہ دیا۔ آخرِ کار لڑکی والوں نے خلع کا مطالبہ کیا لیکن لڑکا اس پر راضی نہیں۔ امریکہ میں قانونی رائے لی گئی جہاں یہ معلوم ہوا کہ چونکہ شادی ہندوستان میں ہوئی ہے‘ امریکہ میں قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ آخرِ کار لڑکے پر بہت ہی زور ڈالا گیا اور مقامی لوگوں سے مدد حاصل کی گئی اور آخرِ کار علاحدگی کی کارروائی ہوئی۔ لڑکی نے ایک کام اچھا کیا کہ تمام زیورات اپنے ہی پاس رکھے ورنہ زیورات سے محروم ہوجاتی۔ اس کی عصمت۔ خاندان کی آبرو ایک دھوکہ باز اور اس کے والدین کے ہاتھوں برباد ہوگئی۔
اس تکلیف دہ واقعہ یا سانحہ کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے ۔ یہ صرف لڑکی کے والدین کی جلد بازی کا نتیجہ ہے۔ اگر لڑکی کے والدین نے یہ شادی جلد بازی میں نہ کی ہوتی اور اجنبیوں پر بھروسہ نہ کیا ہوتا تو شائد ایسی دردناک صورت پیدا نہ ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی اگر نکاح کے فوری بعد اگر طلاقِ تفویض کا معاہدہ کیا ہوتا تو حصولِ خلع کے لئے تین سال سے زیادہ کا وقت برباد نہ ہوا ہوتا۔ لڑکا اگر باہر رہتا ہو تو اس کی مکمل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ لیکن جلد بازی اور ناعاقبت اندیشی نے یہ دن دکھایا۔
طلاقِ تفویض کیا ہے اور اس کی شرائط کیا ہیں
طلاقِ تفویض ایک شرعی اور قانونی حقیقت ہے ۔ اس معاہدہ کے تحت ہوئی علاحدگی کو عدالت اور قانون دونوں کی حمایت حاصل ہے۔ شادی سے پہلے یا بعد معاہدہ کیا جاسکتا ہے جو ایک بانڈ پیپر یا سادے کاغذ پر تحریر کیا جاسکتا ہے جس پر زورجین کے دستخظ اور گواہوں کے دستخط ضروری ہیں۔ شادی کے بعد اگر لڑکی یہ محسوس کرلے کہ اس کے ساتھ انسانی سلوک نہیں ہورہا ہے اور اسے اس کا حق نہیں مل رہا ہے۔ اس پر ظلم و ستم روا رکھا گیا ہے اور طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہوں‘ اسے ماں باپ سے تک ملنے نہیں دیا جارہا ہے۔ اس کا شوہر گالی گلوج کرتا ہے ۔ شراب بھی پیتا ہے ‘ اس کو نفقہ سے تک محروم رکھا جارہا ہے۔ اس کے تعلقات باہر کی عورتوں سے ہیں ۔ اس کا مہر نہیں دیا گیا۔ اس کو ماں باپ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور اس میں کئی ایسی بری عادتیں ہیں جو اصولِ شرعِ اسلام کے خلاف ہوں ایسی صورت میں اس طرز کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
اس معاہدہ میں اگر شوہر سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو جو اصولِ شرع اسلام کے خلاف ہو تو بیوی کو حق حاصل ہوگا اور یہ حق ازروائے معاہدۂ تفویض طلاق ہوگا کہ وہ خود کو طلاق دے لے اور اس طرح عدت کی مدت کے اختتام پر وہ دوسری شادی کرسکتی ہے۔ گویا وہ اختیار جو شوہر کو حاصل ہے کہ جب بھی وہ چاہے بیوی کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے خارج کردے‘ وہی اختیارات شوہر کی جانب سے ازروئے معاہدہ بیوی کو حاصل ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی ایسی صورت میں جس میں شوہر نے اصولِ شرعِ اسلام کوئی کیا ہو۔
شرائط ایسی ہوں کہ انہیں ناجائز قرارنہ دیا جائے۔ مثلاً بیوی یہ مطالبہ نہیں کرسکتی کہ شوہر اپنی داڑھی منڈھوالے یا ماں باپ سے علاحدہ ہوجائے۔ یہ معاہدہ ترک صوم و صلواۃ کی صورت میں جائز ہوگا کیوں کہ نماز اور روزہ فرائض ہیں۔ اگر شوہر شراب نوشی کرے تو بھی عورت کو حق حاصل ہوگا کہ وہ خود کو طلاق دے کر نکاح کے بندھن سے آزاد ہوجائے۔ اگر مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی ہے ‘ مارا پیٹا جارہا ہے ۔ ماں باپ کو گالیاں دی جارہی ہیں‘ کھانے کپڑے سے تک محروم رکھا جارہا ہے ‘ مہر کی رقم ادا نہیں کی جارہی ہے ۔ ماں باپ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے تو ایسی صورتوں میں طلاقِ تفویض کے اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے عورت خود کو طلاق دے سکتی ہے۔ اس ضمن میں کوئی شک ہو تو شہر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ سے فتویٰ حاصل کیا جاسکتا ہے اور ایسے استفسار کا جواب ہاں میں ہوگا۔
نکاح ایک معاہدہ ہے ۔ اسے عموماً عقدِ نکاح کہتے ہیں یعنی نکاح کرنے کا معاہدہ ۔ نکاح کے بعد شوہر بیوی ایک مقدس بندھن میں بندھ دیئے جاتے ہیں۔ ساری دنیا کسی نہ کسی معاہدہ کے تحت چل رہی ہے ۔ اس اصول کے کچھ لوگ مخالف بھی ہیں اور ان کی رائے کچھ اس طرح ہے ۔
بھائی یہ کیا بات ہوئی؟ نکاح کے وقت ہی طلاق کی باتیں۔ نادانو! جس چیز کی اجازت شریعت نے دی ہے اس پر تنقید کیوں ہورہی ہے۔ کیا آپ شریعت اسلامی پر تنقید کریں گے جبکہ طلاقِ تفویض شرعی قوانین کا ایک حصہ ہے۔ اسلام کے ہر حکم میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔ ہماری شریعت لکیر کی فقیر نہیں۔ اس قانون کی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہوں تو اس مظلومہ سے پوچھیئے جو خلع کیلئے تڑپ رہی ہے اور اس کے بدنصیب والدین اپنی قسمت پر رو رہے ہیں اور ظالم شوہر اپنی منکوحہ کے جائز مطالبہ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ مجبور ہوکر مظلوم خاتون دفعہ498-A تعزیرات ہند DVCاور دفعہ125 ضابطۂ فوجداری کا سہارا لے گی۔ شوہر کو مجبور کرے گی کہ لاکھوں روپیہ بطورِ ہرجانہ ادا کرے اور ساتھ ہی نفقہ کی ایک بڑی رقم ماہانہ اساس پر ادا کرے۔ شوہر مجبور ہوکر رہ جائے گا لیکن اس عمل میں بہت وقت لگے گا۔
یہ اصول صرف ایک حفاظتی اقدام ہے۔ ہر معاہدہ میں ایک شق ایسی ہوتی ہے جس میں معاہدہ پر عدم عمل آوری پر نقصانات کا ازالہ کرنے کا عنصر شامل رہتا ہے۔ چونکہ نکاح بھی ایک عقد یعنی معاہدہ ہے تو اس میں اگر طلاقِ تفویض کی شق رکھی جائے تو کونسا پہاڑ ٹوٹ کر گرے گا یا آسمانی آفت آئے گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عورت یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے ماتھے پر مطلقہ کا ٹیکہ لگے۔ وہ چاہے گی کہ اس کی زندگی امن و چین سے گزرے اور وہ اپنے شوہر کے ظلم سے محفوظ رہے۔ غیر اقوام کے جاہل لوگ اصولِ طلاق پر تنقیدیں کرتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے کہ جب تک شوہر نہ چھوڑے عورت دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ ہمارے قانون میں ایسی بھی بات ہے جو عورت کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے لیکن یہ ہمارے معاشرہ کی خرابی ہے کہ ہم اسلام کے زریں اصولوں کی قدر نہیں کرتے۔ دوسرے معنوں میں اس جائز معاہدہ کو ایک انشورنس اسکیم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو اس بات کی گیارنٹی دیتا ہے کہ اگر معاہدہ ہو تو طلاق کی گیارنٹی ہے۔ اس انشورنس پالیسی میں کوئی Premium نہیں۔
معاہدہ طلاقِ تفویض۔ کب اور کیسے؟
شادی کے چند ماہ بعد جب شوہر بیوی میں اختلافات حد سے بڑھ جائیں اور شوہر کے والدین کا ظلم بھی بڑھ جائے تو لڑکی عام حالات میں گھر آکر بیٹھتی ہے ۔ پھر اس کے بعد دونوں فریقین کے والدین کچھ بزرگوں اورمحلہ کے اکابرین کے ساتھ مل کر مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔ عام طور پر لڑکا اس بات کا وعدہ کرتا ہے وہ ظلم و ستم نہیں کرے گا اور جو کچھ بھی ہوا اس پر شرمندہ ہے۔ وہ وعدہ کرتا ہے کہ زائد جہیز کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ یہ باتیں صرف زبانی ہی ہوتی ہیں اوراس زبانی عہد کی پابندی نہیں کی جاتی اور پھر دوبارہ شکایت کا موقع لڑکی کو ملتاہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو اس طرز کا معاہدہ کیا جائے تو یہ احسن اقدام ہوگا۔ اس معاہدہ میں شوہر بیوی کو اختیار دے گا کہ کسی بھی ایسی حرکت کے سرزد ہونے کی صورت میں جو کہ اصولِ شرع اسلام کے خلاف ہو تو بیوی کو حق حاصل رہے گا کہ وہ خود کو اس معاہدہ کی اساس پر طلاق دے لے ۔
یا پھر دوسری صورت ایسی ہوسکتی ہے کہ شوہر کی جانب سے کسی بھی خلافِ اصولِ شرع کوئی حرکت سرزد ہو اور حالات بے قابو ہوجائیں تو شوہر کو ایک جامع قانونی نوٹس جاری کرتے ہوئے معاہدۂ طلاقِ تفویض کا مطالبہ کیاجائے بصورت دیگر سخت قانونی کارروائی مثلاً دفعہ498-A تعزیرات ہند ۔ دفعہ420 تعزیرات ہند ‘ قانونِ انسدادِ جہیز ‘ قانون گھریلو تشدد اور دفعہ125 ضابطۂ فوجداری یعنی حصول نفقہ کی کارروائی کرنے کی وارننگ دی جائے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کوشش کا مثبت نتیجہ نکل آئے گا اور برسوں انتظار نہیں کرناپڑے گا۔ یہ اصول ایک بھولا ہوا قانون معلوم ہوتا ہے جو طاقِ نسیاں میں پڑا ہوا ہے۔ ہیرے پر اگر دھول پڑجائے تواس کی چمک دمک ختم نہیں ہوتی صرف دھول جھٹکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بے نامی جائیداد قانون اور آنے والے وراثت ٹیکس قانون کی روشنی میں جائیدادوں کی ورثاء کے نام بذریعہ ہبہ تقسیم
وقت کی ضرورت ہے۔ اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے
وہ سرکار جو عین انتخابات سے قبل ریاستی چیف منسٹروں۔ منسٹروں اور ممبران پارلیمنٹ کو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرواسکتی ہے اور صدرِ جمہوریہ سے کوئی بھی حکمنامہ جاری کرواسکتی ہو تو وہ وراثتی ٹیکس کا قانون یا صدارتی حکمنامہ کیوں نہیں پاس کرواسکتی۔ کرواسکتی ہے کیوں کہ وراثت ٹیکس کا مسودہ وزیرفینانس کے بیاگ میں رکھا ہواہے۔ پتہ نہیں کب یہ قانونی موقف حاصل نہ کرے اور عوامی جائیدادیں ضبط نہ کرلی جائیں کیوں کہ30تا70 فیصد ٹیکس لاگو ہوسکتا ہے اس صورت میں جب مالکِ جائیداد انتقال کرجائے ‘ ورثہ ٹیکس ادا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ علاوہ ازیں اپنے مالی وسائل پھیلانے کے لئے بے نامی قانون پر زورشور سے عمل ہورہا ہے جس کی شکایتیں موکلین کررہے ہیں۔
ایسی صورت میں اس سے پہلے کہ ان قوانین کی تلوار سر پر گرے کچھ حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کی سفارش کئی بار کی گئی۔
براہِ کرم اور اپنے بچوں کے مالی تحفظ کی خاطر اپنی تمام جائیدادیں ورثاء میں بذریعۂ ہبہ تقسیم کردیں اور یہ عمل اولین فرصت میں کریں۔ ورنہ اگر کچھ ایسا ویسا ہوجائے تو بچوں کو بہت مشکل ہوگی۔ اس بارے میں کئی بار لکھا جاچکا ہے پتہ نہیں کس حد تک عمل ہوا۔ ویسے بھی زندگی کے بعد جائیداد اولاد ہی کی ہوگی لیکن اس وقت ان کو کتنی تکلیف ہوگی جب ان پر ٹیکس کا بوجھ پڑے گا۔ اس ضمن میںNews-24 پر یوٹیوب Ineritance Tax ضرور دیکھیں۔

a3w
a3w