طنز و مزاحمضامین

جمہوریت

مظہرقادری

جمہوریت بڑی عجیب طرز ِ حکومت کا نام ہے۔اس میں ہرکوئی بولنے والاہوتاہے، کوئی سننے والا نہیں ہوتاہے۔ ہم نمائندے چنتے ہیں، انہیں ایوان میں ہماری بھلائی کرنے کی آس میں بھیجتے ہیں لیکن نتیجہ اس کا الٹا ہوتاہے یعنی وہ اپنے اوراپنے خاندان والوں کی فلاح وبہبود میں مصروف ہوجاتے ہیں۔الیکشن سے پہلے وہ ہماری سنتے ہیں اورالیکشن کے بعد ہم کو صرف اورصرف ان کی سننا پڑتا ہے۔ایک سڑک کے بازوپڑاہوا ناکارہ پتھر اٹھاکر اسے تراش کر ہم ہیرابنادیتے ہیں اوروہی ہیراہمارے گلے میں زہر بن جاتاہے۔جمہوریت میں جیتنے والے نمائند ے پر سے ہمارا بھروسہ اٹھ جاتاہے۔اوراس نمائندے کو بھی ہم پر بھروسہ نہیں رہتا کہ ہم اسے دوربارہ جتاکر ایوان میں واپس بھیجیں گے۔اس لئے وہ بس یہی سوچتا رہتاکہ جوبھی ہے یہی ایک پل ہے کرلے پوری آرزو اس لیے وہ دودوہاتھوں سے عوام کی دولت لوٹتے رہتے ہیں۔ہربرسراقتدارنمائندہ بس یہ چاہتاہے کہ اُس کرسی پر اس کی سات پشتیں براجمان ہوجائیں۔پہلے زمانے میں بادشاہ کے بیٹوں کی بادشاہ بننے کی گارنٹی نہیں رہتی تھی کیونکہ اقتدارکی ہوس میں اس کے دوسرے رشتے داراس کا کبھی بھی قتل کرادے سکتے تھے اوربادشاہت پر قبضہ کرلیتے تھے، لیکن اب جمہوری دورمیں ایسا کچھ برا کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ آپ جیسے ہی ایک بارمنتخب ہوکر لیڈ ربن گئے آپ خودہی فوری اپنے کسی کاناکارہ،نااہل، جاہل،غنڈہ قسم کے بیٹے کو مستقبل کا لیڈربنانے کی ٹریننگ دینا شروع کردیتے ہیں اورکچھ عرصہ بعد بغیرکسی خون خرابے کے بہت آسانی سے اقتدارخاندان کے اگلی نسل کو حاصل ہوجارہاہے۔بیوقوف اور جذباتی توصرف عوام ہیں جو اندھی تقلید کرکے اپنا مستقبل بربادکرکے لیڈروں کا مستقبل آباد کرتے رہتے ہیں۔بادشاہی نظام میں خودبھینس پال کر خوداس کا دودھ استعمال کرتے تھے۔سوشلزم میں بھینس چاہے کوئی بھی پالے اس کا جتنابھی دودھ نکلا برابر بانٹ لیتے۔فاشزم میں بھینس پالنے والے کو گولی مارکر اس کی بھینس کھینچ لیتے ہیں۔لیکن جمہوریت میں بھینس کو گولی مارکر دوسرے ملک سے عوام کا پیسہ خرچ کرکے دودھ امپورٹ کرکے پیتے ہیں۔جمہوریت میں آپ کی قسمت اورضرورت کا فیصلہ آپ نہیں کرسکتے بلکہ آپ کی تمام ضرورتوں اورخواہشوں کو ختم کرنے کے فیصلے ایوانوں میں طے ہوتے ہیں جسے نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو ماننا پڑتاہے۔بادشاہت میں ڈرکر جی حضوری کرنا پڑتاہے،لیکن جمہوریت ایک ایسا جادوہے جس میں لیڈ ربن بلائے بھی لوگ جوق درجوق اس کے جلسوں میں بیوقوف بننے کے لیے جاتے رہتے ہیں۔جمہوریت میں ہرکوئی اپنے آپ کو لیڈ راوربہت اہم سمجھتا ہے اورسوچتاہے کہ اس کے بغیر جمہوری نظام چل ہی نہیں سکتا۔حالانکہ اس کی حیثیت ایک ٹیشوپیپرسے بڑھ کر نہیں رہتی۔بادشاہت میں سب میرا ہے سمجھ کر بادشاہ کچھ نہیں لیتا۔لیکن جمہوریت میں لیڈر میراکچھ بھی نہیں ہے سوچ کر ہرچیز لے لیتا۔جمہوریت میں برسراقتدارلوگ چہرے پر مکوٹھے چڑھاکر رہتے ہیں اوران کا اصلی چہرہ کبھی نظرنہیں آتا۔جمہوریت عوام کوبیوقوف بنانے کافن ہے۔تعلیم یافتہ اورقابل لوگ بزدل اورہمدردہوتے ہیں، انہیں اچھے برے کی تمیز ہوتی ہے۔لیکن جاہل انسان کبھی نتائج کی پرواہ کرے بغیر ہرکام کردیتاہے، اسے اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی،وہ ہمیشہ جوکچھ بھی وہ خودکررہاہے صحیح کررہاہے سوچتا ہے۔ہرقسم کے بے سروپیر کے فیصلے لے کر عوام پر لاگوکرتے رہتا۔شاید اسی لیے جمہوریت میں لیڈ ربننے کے کے لئے تعلیم کی ضرورت اور قید نہیں ہے۔ایک چپراسی بننے کے لئے بھی میٹرک پاس ہونا ضروری ہوتاہے لیکن لیڈ رکے لیے انگوٹھا رہاتوبس ہے۔جس سے وہ انگوٹھا چھاپ حکومت چلاکر ہمیشہ عوام کوٹھینگا دکھاتے رہتا۔جمہوریت میں انسان منٹوں میں فرش سے عرش پر پہنچ جاتااورملک کے سارے قابل ترین ذہنوں کو اس کی جی حضوری میں ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنا پڑتا۔ساری بیوروکریسی،فوج اورپولیس اس کے غلام ہوجاتے۔وہ چاہاتوچمڑے کاسکہ رائج کرسکتا۔جمہوریت میں ترقی کرنے کے لیے لیڈ رکو صرف اورصر ف توڑجوڑکی سیاست کا ماہر ہوناکافی رہتا ہے۔
ہمارا جمہوریت پر سے ایمان اُ س وقت ہی اُٹھ گیا تھاجب بچپن میں گرما کی چھٹیاں گزارنے ابونے پوچھا کہ گرمیاں کی چھٹیاں گزارنے نانا کے گھرجائیں گے یاداداکے گھر توہم سب بچوں نے ایک زبان ہوکے کہاکہ داداکے گھرجائیں گے سوائے ممی کے وہ چپ رہیں۔دوسری صبح ممی نے مسکراتے ہوئے اعلان کردیا کہ ہم سب چھٹیاں گزارنے نانا کے گھرجارہے ہیں، جلدازجلد تیارہوجاؤ، ہم حیرت سے جب ابوکی طرف دیکھے تووہ اخبارپڑھنے کے بہانے ہم سے منہ چرانے لگے۔ ہم اسی وقت سمجھ گئے کہ جمہوریت میں فیصلے عوام کی امنگوں کے حساب سے نہیں ہوتے بلکہ بند کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب سارے عوام سوتے رہتے ہیں۔
٭٭٭