ڈاکٹر سیّد احمد قادری
گزشتہ چند دہائیوں میں فطرت اور قدرت سے انسانی چھیڑ چھاڑ اور ان کے تحفظ سے لاپرواہی برتے جانے کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک کی ماحولیات تشویشناک حد تک اثر انداز ہوئی اور ہورہی ہے ،جس کے مضر اثرات انسان اور حیوانات کی زندگی پر بڑی شدت سے مرتب ہو رہے ہیں۔ بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کے ان منفی بلکہ زہریلے اثرات سے متنبہ کرنے اور تدارک کے لیے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام UNEPکے زیر قیادت 1973 ءمیں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ہر سال کے5 جون کو عالمی سطح پر یوم ما حولیات کا انعقاد کیا جائے گا ۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ اب تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی،یعنی بڑھتے گلوبل وارمنگ اور فضائی و آبی آلودگی میں تشویشناک حد تک بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی کے معاملے میں بھی ہمارا ملک یکم دسمبر 2022 ءتک کی Environment programme Index میں سب سے نیچے یعنی 180 ممالک میں 180 ویں مقام پر ہے ۔ جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک نیپال 162 ، پاکستان 176 اور بنگلہ دیش 177 ویںپائدان پر رہتے ہوئے ہندوستان سے بہتر پوزیشن پر ہیں۔ جو بلا شبہ ہندوستان جیسے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے لیے تشویشناک ہونے کے ساتھ ساتھ شرمناک بھی ہے ۔2018 ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی یوم ماحولیات کے انعقا کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا،لیکن افسوس کہ ان گزرے پانچ برسوں میں اس ملک ‘ دوسرے ممالک کو تو چھوڑیے خود اپنے ملک کی ماحولیاتی آلودگی کو بہتر نہیں بنا سکا۔
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی زندگی کا انحصارہوا، پانی اور غذاپر ہے۔اس کے بعد ہی روٹی ،کپڑا اور مکان کا نمبر آتا ہے۔اس لیے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی میںغذا، پانی اور ہوا کی کس قدر اہمیت ہے ۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی زندگی کے خاتمہ کا باعث ہوگا۔ ہماری ہی طرح چرند و پرند کی زندگی بھی ان ہی تینوں قدرت کے انمول خزانے پر منحصر ہے ۔ اس لیے ان کا تحفظ ہر شخص کے لیے فرض اوّلین ہے ۔اس فرض کا یوں تو ہر شخص کو احساس ہونا ہی چاہیے ، لیکن جو لوگ اپنی زندگی کے ان بنیادی انحصار و ضروریات کی اہمیت اور افادیت پر توجہ نہیں دیتے ہیں، انھیں اس فرض کا احساس کرانے کے لیے ہی حکومت اور سماجی اداروں کا رول بھی بہت اہم اور ضروری تصور کیا گیاہے ۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ماحولیات کے توازن برقرار رکھنے میں یقینی طور پر کسی بھی ملک کی حکومت کا بہت ہی اہم رول ہوتا ہے ۔
ہم اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ قدرت نے غذا،پانی اور ہوا کا اتنا بڑا خزانہ عطا کیا ہے کہ لاکھوں برس سے انسان ان کا بھرپور استعمال کر رہا ہے ،لیکن ختم ہونے کا نام نہیں ،لیکن ادھر گزشتہ چند دہائیوں میں صارفیت ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے ،جس کے باعث اپنی تمام تر زندگی کی قدروں کو روندتے ہوئے لوگ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔اس بھاگ دوڑ میں انسانیت،انسانی روایت، نسانی اقدار کتنی پامال ہو رہی ہیں ، اس کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے ۔ کھیت ،کھلیہان،جنگل،ندیاں، تالاب سب کے سب بہت شدت سے مفاد پرستی اورصارفیت کے شکار ہیں۔ان کی بڑی بڑی بولی لگا کر بلڈرس کسانوں سے ان کی زمین لے کر اونچی انچی عمارتیں تعمیر کرا رہے ہیں ۔ جن کھیتوں میں انسانی غذا اگائی جاتی ہیں۔ان انسانی خوراک میں ڈھیر سارے کیمیکلز(کھاد) ملائے جاتے ہیں ،تاکہ ان کی پیداوار جلدی اور بہت زیادہ ہو ،جن سے زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جاسکے۔ غور کیجئے کہ دولت کی ہوس میں ایسے کیمیکلس سے پیدا ہونے والے اجناس اور دیگر پھل و سبزیاں کس قدر انسانی زندگی کے لیے مہلک ہو تی ہیں ، ان پر کوئی سنجیدگی سے سوچنے کو تیا ر نہیں۔گاو¿ں اور شہروںکے قصبوں ومحلّوں کے پرانے زمانے سے موجود تالاب ، پوکھر پر ناجائز قبضہ کر ان پر عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں ۔ ندیوں کے کناروںکو کوڑا کرکٹ ،طرح طرح کی غلاظتوں ، خاص طور پر بہت بھاری تعداد میں پلاسٹک (پولتھین)سے بھر کر اور ان کے غلط استعمال سے ندیاں روز بروز سکڑتی جا رہی ہیں ، یا ان کا وجود ختم ہوتا جا رہا ہے۔ sewerage تالابوں اور ندیوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ کیمیائی و صنعتی اخراج اور بعض جگہوں پر کارخانے کا کچّا تیل بھی ان ہی ندیوں میں بلا خوف و خطر ڈال دیا جاتاہے ۔ کوڑا کرکٹ، فضلہ ، و صنعتی اخراج سے برسات میں پانی کے تیز بہاو¿ میں یہ سب مل کر ندی کا صاف پانی آلودہ اور زہریلا ہوجاتا ہے ، جس کے سبب ان ندیوں کے پانی میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور Reoxygenation نہیں ہو نے سے Deoxygenation ہونا لازمی ہو جا تا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان فضلہ اور صنعتی اخراج سے امونیم سائنائڈ،کرومیٹ اور نیپتھین جیسے زہریلے مادّے کے مضر اثرات و منفی اثرات انسان، حیوان اور بہت سارے آبی نباتات مثلاََ Fungi وغیرہ پر پڑتے ہیں ۔ ایسے آلودہ پانی میں پیدا ہونے والے نباتات کلورین کی کمی کے باعث ختم ہونے لگتے ہیں ، جس سے انسان کے ساتھ ساتھ مچھلیوں اور کئی دوسرے پانی میں بسنے والے نفوس کی غذا ضائع ہو جاتی ہیں اور مچھلیاں ایسے آلودہ پانی کی وجہ کر زہر آلود ہو جاتی ہیں ۔ان مچھلیوں کو انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے جس میں قدرتی طور پرموجود اومیگا تھری نامی پروٹین سے جو فائدہ پہنچتا، وہ نقصان میں بدل جاتا ہے۔ پانی میں بڑھتی آلودگی کے سبب، طرح طرح کے زہریلے کیڑے مکوڑے اور جراثیم پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں بہت طرح کے زہریلے مادّے اور orsenic گھل کر پانی کو خطرناک حد تک زہریلا بنا دینے کی وجہ سے انسان اور حیوان کے، ایسے آلودہ پانی کے داخلی اور خارجی استعمال سے جذام،کینسرنیز یرقان اور حیضہ وغیرہ جیسے متعدد مہلک امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایسے زہریلے اور آلودہ پانی کے استعمال سے اوسطََ ہر سال 22 لاکھ انسانوں کی موت ہوتی ہے ۔ایسے زہریلے پانی کھیتوںکی آبپاشی میں استعمال کئے جاتے ہیں، جس کے باعث کھیت سے پیدا ہونے والے غلّہ اور دیگر پھل و سبزیوں میں بھی خطرناک جراثیم شامل ہوجاتے ہیں ، جو انسان اور حیوان دونوںکے لیے مضر ہوتے ہیں ۔ جنگل بہت تیزی سے کٹ رہے ہیں ۔اس کے متعلق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباََ تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ 2050 ءتک جو، اب بہت دور نہیں ہے ،تقریباََ 1.8 ارب انسانوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کا کریہہ منظر ہمارے ملک میں آئے دن خاص طور پر موسم گرما کے شروع ہوتے ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ گاو¿ں دیہات کے لوگ بڑی تعداد میں کئی کئی میل دوری طئے کرکے اپنی ضروریات زندگی کے لیے پانی کسی طرح مہیّا کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں بعض گاو¿ں ایسے بھی ہیں جہاں کے لڑکے لڑکیوں کی شادی اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ ان کے گاو¿ں میں پانی میسر نہیں ہے ۔
یہی وہ اسباب اور مسائل ہیں ،جن کے تدارک کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل کاونسل کی میٹنگ میں 1972 ءمیں 5 جون سے لے کر 16 جون تک سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں مسلسل فکر مندی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عالمی سطح پر تدارک کے لیے بحث و مباحثہ ، غور و فکر پر مبنی میٹنگیں ہوتی رہیں اور لائحہ عمل تیار کیا جاتا رہا ۔ اسی میٹنگ کے دوران ہی UNEP ( United Nation Environment Programme)کی تشکیل عمل میں آئی ، جس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ہر سال 5جون کو عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد کیا جائے گا اور عوام کی ذہن سازی کرتے ہوئے بتایا جائے گا کہ کس طرح ماحولیات کا تحفظ کیا جائے تاکہ انسان اور حیوانات کی زندگی محفوظ رہے ۔ اقوام متحدہ نے اپنے اس اہم فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے 5جون1974 ءسے ہی ہر سال عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد ،ہر سال ایک نئے تھیم کے ساتھ اس کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ 1976 ءمیں ایک اجلاس میں وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی نے بھی شرکت کی تھی اور ماحولیات کے عدم توازن سے دنیا کے مختلف ممالک میں پڑنے والے مضر اثرات پر انھوںنے ایک شاندار تقریر کی تھی۔اندرا گاندھی کی شرکت ‘ عاملی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں انڈیا کا پہلا اور اہم قدم مانا جاتا ہے ۔
اس تناظر میں انڈیا کی میزبانی میں 2018 ءمیں منعقد ہونے والے عالمی یوم ماحولیات کی اہمیت کافی بڑھ گئی تھی۔ اس سال کا تھیم رکھا گیا تھا ’پلاسٹک آلودگی کو مات دو‘۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دی ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے سمندروں میں ہر سال 8.8 ملین پلاسٹک پر مشتمل کچڑا ڈالا جاتا ہے ،جس میں ساٹھ فی صد اس آلودگی کا ذمہ دار نڈیا کو مانا گیا ہے ۔ انڈیا کی سب سے اہم اور مقدس ندی میں ہی ہر سال 1.2 ارب ٹن پلاسٹک اور دیگر گندگی ڈالی جاتی ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق اور افسوسناک سروے سامنے آیا ہے کہ انڈیا ان چارممالک میں ہے جہاںسب سے زیادہ پلاسٹک آلودگی ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ اگر پلاسٹک کی آلودگی کا یہی حال رہا تو 2025 ءتک سمندروں میں مچھلیوں کے مقابلے پلاسٹک کی مقدار زیادہ ہوگی ۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہمارے ملک کی بیرون ممالک اور اقوام متحدہ کے سامنے کیا اور کیسی امیج بنے گی ، یہ بہت ہی سنجیدہ سوال ہو سکتا ہے ۔ سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں منعقد ہونے والی بلکہ یوں کہا جائے کہ تشکیل عمل میں آنے والی میٹنگ (1972ء)کو پچاس سال مکمل ہونے پر 2022ءمیں سویڈن کو ہی میزبانی دی گئی تھی۔ اس یادگار موقع پر بڑا خوبصورت تھیم رکھا گیا تھا ” only win earth “ اس سال یعنی 2023 ءمیں مغربی افریقہ کے Ivory Coast میںعالمی یوم ماحولیات کا انعقاد کیا گیا ، جس میں وہی تھیم رکھا گیا جو اب سے پانچ سال قبل بھارت کی میزبانی میں انعقاد ہونے والے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر رکھا گیا تھا یعنی ” Beat Plastic Pollution۔ “ اگر اس خصوصی میٹنگ میں دنیا کے نمائندے بھارت سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پانچ سال قبل اسی تھیم پر منعقد ہونے والی دلّی کی کانفرنس کی کامیابی کی تفصیل دیں ۔ افسوس کہ بھارت اس محاذ پر بھی شرمندگی کے لیے تیار رہے گا کہ اس نے اپنے ملک میں پلاسٹک کے استعمال کی پابندی پر بھی کامیابی حاصل نہیں کی ۔ یوں بھی بھارت ماحولیاتی آلودگی کے معاملے میں گلوبل انڈیکس میں سب سے آخری مقام پر کھڑا ہے۔ جب کہ اس سال کا میزبان ملک پہلے ہی اپنے ملک میں پلاسٹک کے استعمال پر پانبدی لگا چکا ہے ۔
٭٭٭