مضامین

اجتماعی نظام زکوٰة، کون جیتا ہے تیرے زلف کے سر ہونے تک

محمد ضیاءالدین

گزشتہ دنوں مسلمانوں کے پیسوں کے بے مصرف ضیا ع پر لکھے گئے راقم کے مضمون کو اہل نظر و اہل فکر کی جانب سے ملنے والی پذیرائی سے اندازہ ہوا کہ یہ بات سب ہی کے دل میں ہے اور سب ہی اس بات کو محسوس کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک خطیر رقم بے مصرف خرچ ہورہی ہے۔ اس بات کا احساس رمضان میں تو اور بھی زیادہ ہوتا ہے، ہر کوئی محسوس کرتا ہے اور حسب توفیق اظہار غم بھی کرتا ہے، لیکن اس کا کوئی حل نکالنے کے لیے کوئی منظم قدم نہیں اٹھایا جاتا نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، تب محض اظہار تشویش و اظہار فکر سے کیا حاصل؟ عام طور پر مسلمان اپنی زکوۃ کی ادائیگی ماہ رمضان میں کرتے ہیں جو کہ اسلام کا چوتھا فرض ہے گو کہ اس کی ادائیگی کے لیے رمضان کی شرط نہیں ہے کہ جب بھی زکوٰۃ کی شرط کی تکمیل ہوجاے یہ فرض ہوجاتی ہے لیکن رمضان چونکہ ایک مقدس مہینہ ہے جس میں اللہ کی جانب سے عبادتوں کا زاید اجر ملتا ہے، اس لیے عام طور پر لوگ اسی مہینے میں اپنی زکوۃ کی ادائیگی کو مناسب سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی صاحب خیر لوگ سال بھر اپنا پیسہ کار خیر میں لگاتے رہتے ہیں۔ روایتوں کے مطابق جب زکوۃ فرض ہوئی اور مسلمانوں نے اس کی روح کے ساتھ ویسا ہی انصاف کیا جیسا کہ اس کا حق تھا تب یہ ہوا کہ ایک قلیل عرصے ہی میں اس زکوۃ نے وہ زبردست معاشی انقلاب برپا کیا کہ زکوۃ دینے والوں کی صدائیں بے نیل مرام واپس آجاتیں کہ اب زکوۃ لینے والا ہی کوئی نہ رہا تھا۔ بر صغیر میں جہاں باوجود ایک بہترین نظام کی موجودگی کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ معاشی پسماندگی اور اس کے سبب زبوں حالی و ذلت کا شکار ہے۔ بار بار مدینہ منورہ و قرون وسطی کے نظام زکوۃ کی مثالیں دے دے کر مسلمانوں کو ترغیب دی جاتی ہے جو احترام سے سن سن کر پس پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں مختلف حلقے اپنے وعظ بیان، تقریروں و تحریروں کے ذریعہ اجتماعی زکوۃ کی اہمیت و ضرورت پر زوردیتے رہتے ہیں۔ آج کل کا زمانہ تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور اس سوشل میڈیا نے لوگوں کو اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے، وہ بھی بلا رکاوٹ اور بلامعاوضہ کے مواقع فراہم کیے ہیں، اس کا بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ اجتماعی زکوۃ یا زکوۃ کو بے مصرف ضایع نہ کرنے کو لے کر صدائیں بلند کرتے رہتے ہیں جو لمحوں میں صداے صحرا ثابت ہوجاتی ہیں۔ یہ جاننے سے قبل کہ مسلمانوں کی زکوۃ کی خطیر رقم کیسے بے فیض ثابت ہوتی ہے، ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ اجتماعی زکوۃ کی تلقین کیوں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ گو کہ یہ ایک بے وقت کی راگنی ہے کہ اب ان باتوں سے کچھ حاصل نہیں کہ جو کہا جارہا ہے، اس پر عمل کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور یہ بھی کہ یہ سانپ کے نکل جانے کے بعد رسی کے پیٹے جانے سے زیادہ کچھ بھی نہیں، لیکن یہ بھی ہے خیالات کا وقت کبھی نہیں گزرتا اور ان کے اثرات تادیر باقی رہتے ہیں۔ اجتماعی زکوۃ کی تلقین کی ناکامی یا موثر ثابت نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں ایک اہم وجہ اعتماد کے فقدان کی بھی ہے۔ سماج جس طرح کسی کو لیڈر ماننے تیار نہیں اسی طرح کسی پر اعتماد کرنے کے لیے تیار بھی نہیں جب کہ کسی بھی اہم کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اعتماد اولین شرط ہے ورنہ یہ مقصد اپنی پہلی منزل پر ہی دم توڑ دیتا ہے۔ یہ عدم اعتمادی یوں ہی نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ قوم نے اعتماد ہی نہ کیا ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ اس قوم کے آبگینہ اعتماد کو بار بار چور چور کیا گیا اور ایسا کرنے والے وہ تھے جن کے چہروں پر داڑھیوں کا نور تھا، جن کے حلیے فرشتوں کے لیے قابل رشک تھے اور جن کے لب قال للہ و قال رسول اللہ کہتے ہوے نہ تھکتے تھے۔ ایسی بے شمار اسکیمات دین و مذہب کے حوالے سے لائی گئیں اور انھیں یوں پیش کیا گیا جیسے کہ ہتھیلی میں جنت۔ کئی بلاسودی بینک راحت کی اسکیمات حتیٰ کہ کئی جگہ ریلیف کی رقم بھی لوگ ہڑپ گئے، جس کے سبب ملت اپنے ہی لوگوں سے بد ظن ہوگئی کہ چلتا ہوں کچھ دور ہر رہزن کے ساتھ کہ رہبر کو پہچانتا نہیں ہوں میں۔ ابھی کم و بیش یہی صورت حال قیادت کرنے والوں کی رہی کہ انھوں ملت کے جذبات کوابھار کر بھیڑ کی اس روٹی پر اپنے مفادات کی روٹیاں سینک لیں، علاوہ ازیں دیگر وجوہات بھی رہی ہیں۔ زکوۃ کی ادائیگی کے تعلق سے لوگوں کے رجحانات اور اس کا ناپسندیدہ طریقہ کار ہمارا بچپن کا وہ دور تھا جب یہ علاقہ پولس ایکشن کی آگ سے جھلس کر آہستہ آہستہ سرد ہورہا تھا، لیکن اس کی تپش ہنوز برقرار تھی اور لوگ اس کی تباہیوں سے ہنوز باہر نہیں نکلے تھے۔ مسلمانوں میں بہت زیادہ خوشحال لوگ قال قال ہی تھے۔ متوسط طبقہ تھا نسبتاً کم ہی تھا۔ ملت کی بڑی تعداد معاشی طور پر کمزور طبقے کے زمرے میں تھی۔ اس دور میں ہم ان امیروں کے اور ان سے قدرے کم خوش حال لوگوں کے نام سنتے تھے کہ وہ زکوۃ تقسیم کرتے ہیں۔ طریقہ یہ ہوتا تھا کہ جن کے ہاں زکوۃ تقسیم ہونے والی ہوتی، ان کے گھر کے سامنے زکوۃ لینے والوں کا ایک جم غفیر ہوتا اور یہ اس وقت تک تقسیم نہیں ہوتی تھی جب تک کہ ضرورت مندوں کی بڑی بھیڑ نہ جمع ہوجاتی۔ایسا کیوں تھا یہ سمجھنے کا اس دور میں کوئی شعور نہ تھا تاہم یہ ضرور تھا کہ اس تقسیم کے بعد یہ سننے کو ملتا کہ فلاں صاحب کے یہاں زکوۃ لینے اتنی بھیڑ جمع تھی کہ اس میں کئی لوگ کچل گئے یا یہ کہ زکوۃ کی تقسیم کے وقت بھگدڑ مچ گئی اور یہ زکوۃ کیا ہوتی تھی خواتین کے لیے ایک عدد ساڑی یا مردوں کے لیے ایک لنگی یا کہیں ایک دد کپڑے کا جوڑا جس کے معیار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کپڑے کی دکان پر زکوۃ کا کپڑا کی اصطلاح رایج تھی اور اسی کے لیے لوگ بھیڑ میں جمع ہو جاتے تھے۔ معلوم نہیں ان میں کتنے ضرورت مند تھے اور کتنے لالچی۔ زکوۃ کی ادائیگی اپنے گھر پر ہو اور اپنی امارت کا مظاہرہ ہو، یہ ایک رجحان بھی زکوۃ کے اجتماعی نظام کی راہ رکاوٹ رہا ہوگا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ زکوۃ دینے والے سب ہی ریاکار ہوا کرتے تھے، ان میں ایک بڑی تعداد ضرور ان لوگوں کی ہوتی ہوگی جو اللہ واسطے یہ کار خیر انجام دیتے تھے،لیکن پھر بھی زکوۃ کو ملت کی معاشی پسماندگی کو دور کرنے کا ذریعہ بنانے کا کوئی شعور نہیں تھا زکوۃ کے تعلق سے زکوۃ کی ادائیگی کرنے والوں کی سنجیدگی کا یہ عالم کہ ان کی دی گئی زکوۃ سے لینے والے کو کتنا فائدہ ہو رہا ہے اس سے کوئی مطلب نہیں۔ بس زکوۃ دینی تھی، دے دی اور نام ہوگیا یہ ہی کافی تھا اور کم و بیش آج بھی یہ رویہ و رجحان باقی بلکہ برقرار ہے۔ پھر زمانہ بدلا، حالات بدلے، اللہ نے فراغت دی آج ایک بڑی تعداد زکوۃ کی ادائیگی کرتی ہے، لیکن یہاں بھی تنظیم و ترتیب کا فقدان ہے اور اس کی وجہ ہے سماجی تعلقات کا تانا بانا، جان پہچان والے غریب غرباء گھروں میں کام کرنے والی خواتین زکوۃ و فطرے کی دعویدار بن کر سامنے آجاتے ہیں جن کو بہ سبب شناسائی و تعلقات انکار نہیں کیا جاسکتا اوریہ تعداد اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ عام آدمی جھنجلا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مانگنے کے لیے آنے والے اجنبی چہرے جن کی طلب کو ہٹ دھرمی کہنا بھی بے جا نہ ہوگا علاوہ ازیں نزدیک دور کے مدارس والے، مساجد کے حفاظ کو نذرانے کے لیے آنے والے، مشکل یہ کہ کس کو انکار کیا جائے۔ اس پر مستزاد عید اور اس کے اخراجات جن سے مفر نہیں، اسی سبب دینے والے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دے کر بڑھا دیتے ہیں، قطع نظر اس کے وہ مستحق ہیں بھی یا نہیں۔ اس ساری بھگدڑ میں بڑی تعداد ان مفت خورووں کی ہوتی ہے جنھوں نے زکوۃ خیرات اور مدد کے نام پر مانگنااپنا دھندہ بنا لیا ہے۔اس سارے منظر نامے کے پیش نظر اپنی زکوۃ کو کار آمد بنانے اور اس کو اس کی روح کے عین مطابق ادا کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ خوشحال خاندان جو صاحب نصاب ہیں، رمضان سے قبل سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی واجب زکوۃ کو ایک جگہ جمع کریں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے زکوۃ کے مستحق لوگوں کی فہرست بنا کر ان کے لیے منصوبہ بندی کریں، پھر دیگر مد میں حسب توفیق و حسب ضرورت زکوۃ دیں، دوسری صورت یہ ہے کہ صاحب فکر لوگ شہر بستی کی ہر مسجد کی سطح پر یا محلہ کی سطح پر اسی محلے کے تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیوں و ملی تڑپ رکھنے والے لوگوں کی مدد سے ایک مکمل سروے کریں اور اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کی ان کی ضروریات کے مطابق زمرہ بندی کریں۔ ہر شہر کی ایک مرکزی کمیٹی ہو جس کے پاس سارے شہر، بستی کا مکمل ڈاٹا ہو تاکہ حقیقی مستحق لوگوں کی تفصیلات سے واقفیت رہے اور ضرورت مندوں کو ان کی ضرورت کے مطابق مدد دی جاسکے۔ چونکہ شہر میں کئی ایک رفاہی تنظیمیں ادارے ہوتے ہیں جو مستحق لوگوں کی مدد کرتے ہیں، ان تمام کا اور ان صاحبان خیر کا آپس میں تال میل ہو جو وقتا فوقتا راہ للہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اگر ان تمام کا آپس میں تال میل ہو تو حقیقی مستحق لوگوں کی قرار واقعی مدد کی جا سکتی ہے۔ وہیں لوگوں کے جذبہ خیر کا استحصال کرنے والوں اور کئی جگہ سے مدد حاصل کرکے مستحق لوگوں کی حق تلفی کرنے والوں پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اس کام کے لیے ماہ رمضان کا ہونا ہی ضروری نہیں، شرط ہے جذبہ کی اور اخلاص کی۔ زکوۃ کی ادائیگی ہو یا کسی اور مدد کی یہ خیرات سمجھ کر دینے کا رجحان ختم ہونا چاہیے اور اس بات کو فروغ دینا چاہیے کہ یہ مدد پریشانی کی دلدل میں پھنسے ہوئے شخص کی مدد کرنے اور اسے اس دلدل سے باہر نکالنے کے لیے ہے نہ کہ اسے اسی دلدل میں رکھ کر پالنے کے لیے او ر لینے والے کو بھی اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ اسے مدد لے کر اپنی حالت کوسدھارنا ہے نہ کہ طفیلی بن کر اسی پر بسر اوقات کرنی ہے، کیوں کہ زکوۃ لوگوں کو مفت خورہ بنانے کے لیے نہیں ہے۔ جو لوگ صحت مند ہونے کے باوجود مانگتے ہیں انھیں اس سے عار دلانی چاہیے۔ جن لوگوں نے اپنی ضروریات کی کہانیاں گھڑ کر لوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے کا وتیرہ اختیار کیا ہوا ہے، ان کو بلا تحقیق مدد کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح مساجد کے سامنے بزرگ خواتین اور برقعہ پوش خواتین ہر نماز کے موقع پر دست سوال دراز کرتی ہیں، ان میں بڑی تعداد ان کی ہوتی ہے جو ان کے گھر والوں کے لیے اے ٹی ایم کا درجہ رکھتی ہیں۔ گھر کے لوگ انھیں بھیک مانگنے بٹھاکر شام کو ان کی کمائی ہڑپ لیتے ہیں، بالخصوص برقعہ پوش خواتین اور چھوٹے بچوں کو قطعی بھیک نہ دی جائے کہ یہ ہمارے سماج کے لیے کلنک سے کم نہیں اور بچوں کو بھی بھکاری بناکر ایک نسل کو ناکرہ بنانے کا سبب بن سکتی ہیں، ان کو بھیک دینے کے بجائے مسجد کمیٹی سے رجوع ہونے کا مشورہ دینا چاہیے تاکہ بعد از تحقیق ان کی جائز مدد کی جاسکے، اسی طرح بزرگ خواتین کو بجائے نقد رقم دینے کے کھانے پینے کی چیزیں یا کپڑا وغیرہ دینا چاہیے۔ اس طرح ہم گداگری کی ہمت شکنی کر سکتے ہیں۔ اگر ان کو بھیک ہی نہ ملے تو ان کے گھر والے کیوں ان کو بھیک مانگنے کے لیے لاکر بٹھائیں گے۔ ممکن ہے کہ یہ ساری باتیں خیالی لگیں لیکن اگر انسان آمادہ عمل ہوجاے تو اس کے لیے پہاڑوں کی گزرگاہیں بھی مشکل نہیں رہتیں، آسمان کی وسعتیں بھی سمٹ جاتی ہیں شرط ہے آمادہ عمل ہونے کی۔
٭٭٭