اسرائیلی شہریوں کو بغیر ویزا امریکہ داخلے کی اجازت
بائیڈن انتظامیہ اس ہفتہ اسرائیل کو ایک خصوصی کلب میں داخل کرنے کے لیے تیار ہے جس کے تحت فلسطینی امریکیوں کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے سلوک کے بارے میں خدشات کے باوجود اسرائیلیوں کو ویزا کے بغیر امریکہ جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔
واشنگٹن: بائیڈن انتظامیہ اس ہفتہ اسرائیل کو ایک خصوصی کلب میں داخل کرنے کے لیے تیار ہے جس کے تحت فلسطینی امریکیوں کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے سلوک کے بارے میں خدشات کے باوجود اسرائیلیوں کو ویزا کے بغیر امریکہ جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ویزا ویور پروگرام میں داخلے کا اعلان ہفتہ کے آخر میں کیا جا سکتا۔ ہفتے کے روز وفاقی بجٹ سال کے اختتام سے عین قبل یہ اعلان کیا جائے گا اور یہ اگلے سال سے لاگو ہوگا۔ہوم لینڈ سکیورٹی کا محکمہ اس پروگرام کا انتظام کرتا ہے۔
اس وقت اس پروگرام کے تحت 40 کے قریب زیادہ تر یورپی اور ایشیائی ملکوں کے شہریوں کو بغیر ویزے3 ماہ کے لیے امریکہ جانے کی اجازت ہے۔ سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی جانب سے اسرائیل میں داخل ہونے کی سفارش موصول ہونے کے فوراً بعد اس معاملے سے واقف 5 عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اتوار کو بات کی اور کہا کہ ہوم لینڈ سیکیوریٹی کے سکریٹری الیجینڈرو میئرکاس جمعرات کو یہ اعلان کرنے والے ہیں۔
تاہم ابھی تک اس حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔توقع ہے کہ بلنکن کی سفارش منگل کے بعد تک پہنچ جائے گی اور حتمی اعلان صدر جو بائیڈن کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر نیویارک میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے ٹھیک 8 دن بعد آئے گا۔
رہنماؤں نے اس میٹنگ میں صحافیوں کے سامنے اپنے مختصر ریمارکس میں اس مسئلے کو نہیں اٹھایا لیکن یہ مہینوں سے گفت و شنید اور بحث کا موضوع رہا ہے۔ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ویزا چھوٹ کے پروگرام کے بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وائٹ ہاؤس نے سوالات ہوم لینڈ سیکیوریٹی ڈپارٹمنٹ کو بھیجے جس نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اسرائیل کا داخلہ یکے بعد دیگرے اسرائیلی رہنماؤں کے لیے ایک ترجیح رہا ہے اور اب اس پروگرام میں اسرائیل کی شمولیت نتن یاہو کے لیے ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ نتن یاھو نے ایران، فلسطینی تنازع اور حال ہی میں اسرائیل کے عدالتی نظام سے متعلق ترمیم کے حوالے سے جو بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ اکثر جھگڑا کیا ہے۔امریکی اقدام نتن یاہو کو گھر میں خوش آئند فروغ دے گا۔
اسے اپنے عدالتی منصوبے کے خلاف مہینوں کے بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امکان ہے کہ بائیڈن فلسطینیوں کی تنقید کا نشانہ بنیں گے اور کہا جائے گا کہ امریکہ کو اسرائیلی حکومت کو ایسے وقت میں انعام نہیں دینا چاہیے جب امن کی کوششیں رکی ہوئی ہیں۔اسرائیل نے امریکی پروگرام میں شامل ہونے کے لیے گزشتہ دو سالوں کے دوران تین انتہائی اہم معیارات میں سے 2 کو پورا کیا ہے۔
ویزا درخواست مسترد ہونے کا کم فیصد اور ویزا سے زائد قیام کی کم شرح کے معیار کو پورا کیا گیا۔قومی سلامتی کی وجوہات کا دعویٰ کرتے ہوئے اسرائیل نے طویل عرصہ سے فلسطینی امریکیوں کے لئے الگ الگ داخلے کی ضروریات اور سکریننگ کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ بہت سے لوگوں نے شکایت کی کہ یہ طریقہ کار سخت اور امتیازی ہے۔
مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی رہائشی دستاویزات رکھنے والے امریکیوں کو بڑی حد تک اسرائیل کا بین الاقوامی ایئرپورٹ استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔حکام کے مطابق حالیہ مہینوں میں اسرائیل نے فلسطینی امریکیوں کے لیے اپنی داخلے کی ضروریات کو ایڈجسٹ کیا ہے۔ انہیں تل ابیب کے بن گوریون ایئرپورٹ سے پرواز کرنے اور مغربی کنارے اور اسرائیل کے لیے مناسب طریقہ سے جانے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
فلسطینی امریکی کارکن اس آنے والے فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں جس کی توقع اسرائیلی اور امریکی دونوں حکومتوں کی ترجیحات کی وجہ سے کچھ عرصے سے کی جارہی تھی۔فلسطین۔ اسرائیل پروگرام کے سربراہ اور عرب سنٹر واشنگٹن کے سینئر فیلو یوسف منیر نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں۔
باہمی تعاون کی ضرورت واضح طور پر پوری نہیں ہو رہی کیونکہ اسرائیلی پالیسی کچھ امریکیوں، خاص طور پر فلسطینی امریکیوں کے ساتھ مختلف سلوک کرتی رہتی ہے۔یوسف منیر نے مزید کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ کیوں بائیڈن انتظامیہ ایسے وقت میں نتن یاہو کے لیے سیاسی فتوحات کی پیشکش کرنے پر تیار نظر آتی ہے جب ان کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت اپنے انتہا پسند ایجنڈے کے ساتھ فلسطینیوں اور بہت سے اسرائیلیوں کو مشتعل کر رہی ہے۔