طنز و مزاحمضامین

ایکٹ آف گاڈ یا ایکٹ آف فراڈ؟

زکریا سلطان۔ ریاض

کہتے ہیں کہ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والا خود ااس میں گر جاتا ہے، ایسا اکثر ہوتا ہے۔ اس لیے بڑے بزرگوں اور دانشمندوں نے یہ کہا ہے کہ بات سوچ سمجھ کر کیا کرو اور بولنے سے پہلے اس کے اثرات و نتائج پر بھی غور کرلیا کرو، کیا کہہ رہے ہو ، کس کی ایماءپر کہہ رہے ہو اور کس کے بارے میں کہہ رہے ہو، کیوں کہہ رہے ہو ؟ ان سب باتوں کی اچھی معقول وجہ اور خاصی مضبوط بنیاد ہونی چاہیے ورنہ وہ بات خود کے گلے پڑ سکتی ہے اور پھر پچھتانا پڑتا ہے، کبھی رونا اور کبھی واویلا کرنا پڑتا ہے کہ ہائے رے ہم نے یہ کیا کہہ دیا تھا کہ اب وہی بات ہمارے ہی گلے کی ہڈی بن گئی ہے یا یہ کہہ لیں کہ مچھلی کا کانٹابن گیا ہے کہ نہ اگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں ۔ان باتوں کو اگر خلاصہ کے طور پر بیان کیا جائے یا اس کا نچوڑ اگر پیش کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پہلے تولو پھر بولو۔ اول فول بکنا اور اوٹ پٹانگ کرنا اپنے ہی گلے کا پھندا بن سکتا ہے ۔جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگانے والا، غیر ضروری لعن طعن کرنے اور تنقید برائے تنقید کرنے والا اگر اپنے گریبان میں جھانکے بغیر دوسروں پر تنقیدوں کے تیر چلانے لگے تو ان تیروں کی زد میں بیشتر اوقات وہ بھی آکر مجروح ہوجاتا ہے ، مجروح ہی نہیں ہوتا کبھی کبھار مجنون بھی ہوجاتا ہے۔ ایک صاحب الیکشن لڑرہے تھے، ان کے مخالف کو امتیازی نشان کے طورپر سیڑھی کا نشان الاٹ ہوا، یہ خوش ہوگئے اور گلی گلی کوچہ کوچہ اپنی سیاسی تقریروں میں کہنے لگے دوستو! آپ کو تو معلوم ہے کہ سیڑھی چوروں کی نشانی ہے، رات کے وقت جب کسی کے گھر میں نقب زنی کی جاتی ہے تو اسی سیڑھی کا استعمال کیا جاتا ہے اور آپ اپنے مال و اسباب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، آپ کی شریک حیات اپنے زیور سے محروم ہوکر آپ کو دن رات نئے زیورات دلانے کے لیے تنگ کرتی ہے، اس طرح آپ کا جینا حرام ہوجاتا ہے اور مال و متاع بھی لٹ جاتا ہے۔ لہٰذا سیڑھی کو آپ ہرگز ووٹ نہ دیں، آپ مجھے ووٹ دیجئے۔ان کے مخالف نے عوام کو سمجھایا کہ یہ بات غلط ہے، میرا مخالف چرب زبان ہے، جھوٹ کہتا ہے اس کی زبان لمبی ہے اور عقل سے یہ پیدل ہے اس لیے اس کے بیمار ذہن میں سیڑھی چوروں کی نشانی ہے، جو جیسا ہوتا ہے ویسا ہی سوچتا ہے ، سیڑھی ترقی کی نشانی ہے۔ آپ سیڑھی کے نشان کو ووٹ دے کر میرے ہاتھ مضبوط کیجئے، اپنے بچوں کا مستقبل روشن کیجئے، میں تعلیم کے میدان میں، روزگار کے میدان میں، طبی میدان میں خصوصاً بڑی لگن سے کام کروں گا ، امن و امان اور بھائی چارگی کی فضاءکو بحال کروں گا۔ سب کو ساتھ لے کر چلوں گا اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے اور قومی یکجہتی کے لیے کام کروں گا ۔رشوت کے خلاف مہم چلاﺅں گا، رشوت خور بے ایمان ہوتے ہیں ،ملک کے خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں ، میں جھوٹے وعدے فضول الزام تراشیاں اور ووٹوں کی خاطر نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے ایمانداری سے دیش کی جنتا کی خدمت کروں گا اور ملک پر عوام پر کسی قسم کی آنچ آنے نہ دوں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ رہا ،میں ایک سچا بھارتی ہوں ، لفاظی اور ڈرامہ بازی کرنا میری عادت نہیں ہے ۔بات لوگوں کی سمجھ میں آگئی اور بیشتر رائے دہندے اس تعلیمیافتہ مہذب شخص کی سنجیدہ اور معقول گفتگو سے متاثر ہوکر اس کے حق میں بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے اور وہ زبردست طریقہ سے کامیاب ہوکر پارلیمنٹ پہنچ گیا ،اپنے وعدے کے مطابق کام بھی بہت اچھا کیا، لوگ اس سے بہت خوش ہوئے اور وہ لوگوں کی مخلصانہ خدمت کرتا رہا، عوام کی نظر میں ہیرو بن کر ابھرا اور اس کا مخالف نکما شخص ہاتھ ملتا رہ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال گزرگئے اور نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا، قسمت کی کرنی ایسی ہوئی کہ اس بار اسے سیڑھی کا نشان ملا وہ خوشی خوشی رائے دہندوں کے درمیان گیا کہ بھائیو اور بہنو مجھے سیڑھی کا نشان ملا ہے، مجھے ضرور ووٹ دینا! لوگوں نے کہا تم ہی نے تو کہا تھا کہ سیڑھی چوروں کی نشانی ہوتی ہے پھر ہم تمہیں ووٹ کیوں دیں؟ نا بھیا نا! ہم ہرگز اپنامال اپنی دولت چوروں کے حوالے نہیں کرسکتے، چلو بھاگ جاﺅ !!!
2016 میں ممتا بنرجی کے بنگال کی وویکانند روڈ کا فلائی اوور بریج گرگیا تھا جس پر وزیراعظم مودی نے خوب شور مچاتے ہوئے کہا تھا کہ دیدی کی حکومت اسے ایکٹ آف گاڈ کہے گی مگر یہ ایکٹ آف گاڈ نہیں، ایکٹ آف فراڈ ہے!!! اکٹوبر 2022 میںیعنی ابھی چندروز پہلے گجرات میں ایک قدیم پُل گرگیا جس میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ۔قدرت کے اس فیصلہ سے گجرات میںوکاس کی سترکھل گئی،بی جے پی قائدین اب سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ عین انتخابات سے پہلے یہ کیا ہوگیا!!! مودی جی سے لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ بی جے پی کی زیر اقتدارریاست گجرات میں پُل کا انہدام ایکٹ آف گاڈ ہے یا ایکٹ آف فراڈ؟ اس افسوسناک سانحہ کے مہلوکین کے ورثاءکووزیر اعظم مودی نے دو لاکھ روپئے فی کس ایکس گریشیا منظور کیا ہے جبکہ تلنگانہ میں کچھ دن پہلے ٹی آر ایس کے چا رارکان اسمبلی کو پارٹی سے بغاوت کرکے بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے مبینہ طور پر ایک سو کروڑ روپئے فی رکن اسمبلی کا پیشکش کیاگیا تھا۔ جس کا صاف صاف مطلب ہے کہ بی جے پی کی نظر میں ایک عام انسان کی جان کی قیمت دو لاکھ اوربی جے پی میں شامل ہونے والے اپوزیشن کے ایک باغی رکن اسمبلی کی قیمت ” سو کروڑ روپئے“ ہے!