مضامین

اے شاہِ عثماں تیری عظمت کو سلام….!

ڈاکٹرجہانگیراحساس

مملکت آصفیہ برصغیرہندوپاک کی ایک ایسی منظم ریاست تھی جو زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنی عمدہ کارکردگی کے باعث دیگرریاستوں سے منفرد تھی۔ اس کی شاید یہی انفرادیت فرقہ پرست طاقتوں کونہیں بھائی ۔انہو ںنے مختلف حیلے حوالوں کے ذریعہ اس کا قلع قمع کردیا ۔انسانیت کا درس دینے والی انڈین یونین حکومت نے یہاں حیوانیت کا ایسا ننگا ناچ کھیلا کہ اس پرآج بھی تاریخ انسانیت شرمسارنظرآتی ہے۔ ہرسال جب بھی17ستمبرکی تاریخ آتی ہے تویہاں کے باشندگان اس قیامت صغریٰ کو یاد کرتے ہوئے سہم جاتے ہیں اوران کی آنکھوں سے اشک رواں ہوجاتے ہیں۔
مملکت آصفیہ جس کا قیام میر قمرالدین علی خاں صدیقی بہادر آصف جاہ اوّل نے1724ءمیں عمل میں لایاتھا۔ یہ17ستمبر1948ءکو اپنی تاریخی شناخت کھوبیٹھی۔ مذکورہ ریاست کا اپنا تعلیمی نظام تھا۔ یہاں کے ہندواورمسلمان ودیگرمذاہب کے ماننے والے شیروشکر کی طرح رہا کرتے مگرہائے افسوس کہ ان کایہ آپسی اتحاد‘ خلوص ومحبت ظالموں کوایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ مملکت آصفیہ ان کے لیے ایک دائمی خطرہ ہے ۔ان تخریبی نظریات کوعملی جامہ پہناتے ہوئے انڈین یونین کی فوج نے ریاست حیدرآباد کے مختلف علاقوں شاہ پور‘ نلدرگ‘ نانڈیڑ ‘جالنہ‘ بیڑ‘ پربھنی کے علاوہ رائچور ‘یادگیر‘ بیدر‘ گلبرگہ کے اطراف واکناف میں ایسی بربریت کامظاہرہ کیاکہ انسانیت لرز کررہ گئی۔ یہاں کے مسلمانوں کی نہ صرف املاک اور جائیدادوں کونقصان پہنچایاگیا بلکہ انہیں قطار میں ٹھہرا کرقتل کیاگیا۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ماﺅں‘ بہنوں کی عفتوں وعصمتوں کوتارتارہوتے دیکھا۔ جوکوئی ان کا بیچ بچاﺅکرتا ان کے سینوں کوگولیوں سے چھلنی کردیاجاتا۔ ان قیامت خیز حالات میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی عزتوں کونیلام ہونے سے بچانے کے لیے باﺅلیوں میں کود کرموت کوگلے لگالیا۔ سانحہ پولیس ایکشن کے بعد پنڈت سندر لال کی سرکردگی میں ایک کمیشن تشکیل دیاگیا تھا جسے ”پنڈت سندر لال کمیشن“ کے نام سے یا دکیاجاتا ہے جس میں صرف پچاس ہزارمسلمانوں کوقتل کرنے کی تفصیلات پیش کی گئیں جوسراسرغلط ہیں۔ دکن کے مختلف علاقوں میں ایک اندازہ کے مطابق دوتاڈھائی لاکھ مسلمانوں کوشہید کیاگیا ۔ شہداکے خون سے یہاں کی ندیاں کئی دنوں تک خون سے لبریز تھیں تودوسری طرف باﺅلیاں ”دخترانِ دکن“ کی نعشوں سے پرتھیں ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں ان فرقہ پرست طاقتوں سے جودکن کی آزادی کا جشن منانے پر مصر ہیں کیا انہیں مسلمانوں کی تباہی وہلاکت یاد نہیں؟ انہیں توبس اپنے ووٹ بینک کی فکر لاحق رہتی ہے کیوں کہ ان کے نظریات کی اساس مسلم دشمنی پرمبنی ہے۔ یہاں ایک اورنکتہ بھی قابل غور ہے کہ کیا سقوط حیدرآباد کے بعد حضورنظام کو گرفتار کیاگیا یا وہ ملک چھوڑکر راہِ فرار اختیار کیے۔ اگرنہیں تو پھرجشن کس بات کا ۔ان ناعاقبت اندیشوں کویہ تک نہیں معلوم کہ انڈین یونین حکومت نے زوالِ حیدرآباد کے بعد1950ء سے1956ءتک ”نظام دکن“ کو ریاست حیدرآباد کا مختار کل یعنی ”راج پرمکھ“ بنایاتھا۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ دکن پرحکومت مسلمانوں کی تھی۔ ان کی تباہی وہلاکتوں پرکف افسوس ملنے کے بجائے فرقہ پرست عناصر جشن منانے پرآمادہ ہیں جس سے ان کی سنگھی ذہنیت آشکارہوتی ہے ۔ہمیں پولیس ایکشن کے حوالے سے اس بات کوبھی ملحوظ رکھنا ہوگاکہ یہ پولیس ایکشن نہیں تھا بلکہ ملٹری ایکشن تھاایک خود مختار مملکت کے خلاف جسے خفیہ طورپر ”آپریشن پولو “کانام دیاگیاتھا دراصل انڈین یونین حکومت اور ریاست حیدرآباد کے مابین 26 نومبر1947ءکو ایک سال پرمبنی ایک معاہدہ بنام ”اسٹانڈ اسٹل ایگریمنٹ“ طے پایاتھا جس کے تحت ہردوممالک کویہ آزادی حاصل تھی کہ وہ کسی کے اندرونی معاملات خواہ مملکت محروسہ کوآنے والی مختلف درآمدات پٹرول‘ ادویات‘کیروسین‘ مشنری آلات کے علاوہ ریلوے وفضائی راستوں وغیرہ کومسدودنہیں کریںگے، لیکن اس وقت کے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے مذکورہ معاہدہ کوبالائے طاق رکھتے ہوئے مملکت آصفیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت شروع کردی اور ضروریات زندگی کو ایک طرح سے موقوف کرکے رکھ دیاتھا۔ اس کے علاوہ سلطنت آصفیہ کوکھوکھلاکرنے کے لیے اس وقت کے آریہ سماجی ‘کمیونسٹ اور کانگریسی قائدین نے بیرونی بلوائیوں کویہاں لاکرپرامن ماحول کودرہم برہم کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔ افسوس کی بات تویہ ہے کہ نظام دکن کے بنائے گئے ”ایوان مقننہ“ میں بیٹھ کر آج مختلف فرقہ پرست جماعتوں کے ارکان اسمبلی ”یوم جشن آزادی حیدرآباد“ منانے کاپرزورمطالبہ کررہے ہیں۔ ان کا یہ مطالبہ کہاں تک درست ہے ۔آج تک جتنی بھی حکومتیں بنی ہیں، حضور نظام کے بنائے گئے مختلف تاریخی عمارتوں‘ پروجکٹوں“نظامیہ صدر شفاءخانہ‘ عثمانیہ عدالت العالیہ‘دواخانہ عثمانیہ‘ سٹی کالج‘ جامعہ عثمانیہ‘ نظام ساگر‘ حمایت ساگر ودیگر سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ یہ سب آصف سابع کے مرہون منت ہیں اورتو اوریہاں1950ءتک آصفی قانون ہی نافذ رہا۔ کیا یہ تمام باتیں ان فرقہ پرست تنظیموں کویاد نہیں جو حضورنظام کوایک ظالم وجابربادشاہ کے طورپرپیش کرتی ہیں۔ ایک ایسا بادشاہ جس نے ہندواورمسلمانوں کواپنی دونوں آنکھیں قراردیا ہو وہ فرقہ پرست کیوں کرہوسکتا ہے۔ ان فرقہ پرست جماعتوں کے علاوہ ہندوستان کی وہ سیکولر سیاسی جماعتیں بھی اس معاملہ میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ ”جشن سقوط حیدرآباد“ کی سب سے پہلے ابتداءکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے ”مسلح جدوجہد“ کے نام سے کی۔ بعدازاں خود کو اقلیت نواز گرداننے والی کانگریس پارٹی نے بھی اس سانحہ کو”یوم انضمام“ کے بہ طورمنانا شروع کیا پھر اس کے بعدہندوستان میں جب زعفرانی سیاسی جماعت بی جے پی برسراقتدارآئی تواس وقت کے وزیرداخلہ لال کرشن اڈوانی نے 1998میں نظام کالج گراﺅنڈ پرایک جلسہ عام کومخاطب کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے ”یوم آزادی حیدرآباد“ منانے کاپرزورمطالبہ کیا۔ ان کا یہ مطالبہ کہا ں تک تاریخی حقائق پرمبنی ہے جس نظامِ دکن نے بنارس ہندویونی ورسٹی ہو یا پھرمختلف منادر کی تعمیر ومرمت ہو یا1962ءمیں ہند۔چین جنگ کے دوران فراخ دلانہ مالی تعاون کیا ہو ۔ان احسانات عظیم کویکسر نظرانداز کرتے ہوئے منافرت کا ایسا مظاہرہ کیاجارہا ہے کہ گویا نظامِ دکن بیرونی حملہ آورہیں۔
نظام دکن بنیادی طورپررعایاپرور بادشاہ تھے۔ جن کے تعلیمی کارنامے روزروشن کی طرح عیاں ہیں۔ اسی باعث آپ کو”سلطان العلوم“ کے خطاب سے نوازاگیا۔ مزاج میں سادگی کے ساتھ نہایت متقی انسان تھے۔ ریا کاری‘ تکلف وتصنع سے کوسوں دور رہے۔ ہمیشہ اپنی ذات پر رعایا کوفوقیت دی۔ آپ کی دوراندیشی ‘فہم وفراست کی ازلی داستانیں آج بھی دکن کے چپہ چپہ ‘قریہ قریہ ‘درودیوار ‘پہاڑ ودرخت ایسے بیان کرتے نظرآتے ہیں کہ گویا ہم ”نظام دورحکومت “میں ہی سانس لے رہے ہیں۔ ریاست حیدرآباد میں کیا کچھ نہیں تھا منظم ریلوے نظام سے لے کرہوائی اڈّہ‘ ٹپہ خانہ‘ دارالضرب کے علاوہ بہترین علاج کی سہولیات ‘اعلیٰ ومعیاری تعلیم کا جال‘ ذحائر آب ‘ کوئلے کی کانیں ‘شکر فیکٹریز غرض سب یہاں اپنے عروج پرتھا۔
پولیس ایکشن کے حوالہ سے ہمیں اس بات کوبھی پیش نظر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ نظام دکن کو اغیار سے زیادہ ان کے مصاحبین( جو زیادہ تر شمالی ہند سے تعلق رکھے تھے ) نے نقصان پہنچایا ورنہ پولیس ایکشن جیسی قیامت صغریٰ برپا نہ ہوتی۔ رضاکاروں سے متعلق بھی ایسی کئی من گھڑت باتیں اور فرضی واقعات کو سادہ لوح لوگوں کے اذہان میں بیٹھایاگیا کہ یہ ہندوﺅں کے جانی دشمن تھے جب کہ ”صدیقِ دکن“ قاسم رضوی نے کبھی بھی ریاست حیدرآباد کے ہندوﺅں کو گزند یا نقصان پہنچانے کی ترغیب یا بات نہیںکی بلکہ انہوں نے ہمیشہ غیرمسلم بھائیوں کی جان ومال کی حفاظت کومقدم جانا۔ ان ہنگامی حالات میں نظام فوج کے کمانڈر ان چیف حبیب العیدروس ایک نااہل سپہ سالارثابت ہوئے جو جنگی حکمت عملی توکجا ہتھیار کی کارکردگی اور اس کی قوت دفاع سے بھی واقف نہ تھے۔ جب ایسے لوگ کسی کلیدی عہدہ پرفائز ہوں تو اس مملکت کا اللہ ہی محافظ ہوتا ہے۔ وہیں اس وقت کے فرقہ پرست کانگریسیوں نے مسلمانوں کی تباہی کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ ان کے گھرایک چھوٹے جیل خانہ میں تبدیل ہوچکے تھے، جہاں نہتے مسلمانوں کوقیدی بناکر کئی کئی مہینوں تک رکھاگیا، انہیں ہرطرح کی جسمانی وذہنی اذیتیں پہنچائی گئیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سقوط حیدرآباد سے متعلق حقائق کو تلگو اور انگریزی زبان میں منظرعام پر لایاجائے، کیو ںکہ17ستمبر کی مناسبت سے تلگو اور انگریزی صحافت میں نظام دکن اور سقوطِ حیدرآباد سے متعلق تاریخی حقائق کوتوڑ مروڑ کرپیش کیاجاتا ہے جس سے ہندواکثریتی عوام اوربھی مشتعل ہوجاتے ہیں۔
یہ بات بھی کسی المیہ سے کم نہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سقوط حیدرآباد کا موضوع دھندلاپڑتا جارہا ہے جب کہ ہمیں اسے شدومد کے ساتھ نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل پولیس ایکشن کے اسباب وعلل سے کماحقہ واقف ہوسکے۔سال میں صرف سالانہ جلسہ سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ہر تین ماہ میں سقوط حیدرآباد سے متعلق حقائق پرمبنی عوامی تقاریب منعقد کی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں حیدرآباد کی گنگاجمنی تہذیب کی حفاظت بھی کرنی ہوگی، کیوں کہ یہ تہذیب آج بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ وقت رہتے اگراس کی حفاظت نہ کی گئی توہمارے ہاتھ سوائے افسوس کے کچھ نہیں آئے گا۔ خوشی کی بات ہے کہ گزشتہ پانچ چھ سال سے دکن کے عوام میں ”پولیس ایکشن“ سے متعلق حقائق جاننے کا شعور بیدارہورہا ہے ورنہ اس سانحہ قیامت خیز کی یاد کو صرف ”کل ہند مجلس تعمیر ملت“ کے اربابِ مجاز ہی سینہ سے لگائے ہوئے تھے۔ آج اکابرین دکن کی کاوشوں کی بدولت نوجوان طبقہ سقوط حیدرآباد کے موضوع میں دلچسپی لے رہا ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اس موضوع پر ملت کے مخیر حضرات آگے بڑھیں اور ایک ریسرچ سنٹرقائم کرتے ہوئے ”شہدائے پولیس ایکشن“ اور دکن کی اس ہلاکت خیز تاریخ کوشواہد کی روشنی میں مدون کیاجائے ۔یہی انہیں بہترین خراج ثابت ہوگا۔
٭٭٭