مضامین

بچوں کی اسمگلنگ پرسخت نگرانی کے لیے ریلوے کاٹیکنالوجی پلان

مامونی داس (دہلی)

بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسیوں جیسے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے وبائی امراض کے دوران اور اس کے بعد بچوں کی اسمگلنگ کے واقعات میں تیزی سے اضافے کی وارننگ کے پس منظر میں انتباہ دیا ہے، اس لئے ریلوے پولیس فورس کا مقصد بچوں کی اسمگلنگ کرنے والے بے ایمان عناصر سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہے۔ دسمبر 2021 میں ایک نیا ایس او پیز (معیاری آپریٹنگ طریقہ کار) جاری کیا گیا ہے جس میں اسٹیشن کے اہلکاروں سے لے کر ریلوے پولیس کے اہلکاروں تک کی مختلف ذمہ داریوں کو زیادہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ سول سوسائٹی پر مبنی تنظیموں کے اسٹیک ہولڈرز کہتے ہیں کہ کافی حد تک چیزیں صاف ہیں، لیکن اب بھی اس میں بہتری کی گنجائش ہے کیونکہ اس میں کچھ ایسے عمل بھی شامل ہیں جو انسانی تحفظات کو دبانے پر رازداری کے حقوق کو ترجیح دیتے ہیں۔
گھر سے بھاگے ہوئے، لاپتہ ہونے والے یا اسمگلنگ کے شکار ہو نے والے لاوارث بچوں کو ریلوے اسٹیشنوں پر چائلڈ لیبر کے جال میں پھنسنے سے روکنا حکومت اور سول سوسائٹی پر مبنی تنظیموں کے ریڈار پر کئی سالوں سے ہے۔ وبائی مرض نے ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے،جنہوں نے اپنے والدین کو کھو دیا یا جن کے والدین کو اس وباءنے غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس لیے اس کی طرف مزید چوکس رہنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔جولائی 2021 میں ریلوے پولیس فورس (آرپی ایف) نے ‘رسمی طور پر’ ہر اس بچے تک پہنچنے کی اپنی کوششوں کو تیز کیا جس کا راستہ ہندوستانی ریلوے کے ماحولیاتی نظام سے گزرتا ہے تاکہ بچوں کو اسمگلنگ سے بچایا جا سکے۔ مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ذریعہ پیش کی گئی رپورٹ آراءکے بعدآر پی ایف نے دسمبر 2021 کے آخر میں ریلوے کے ساتھ رابطے میں رہنے والے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک جدید شدہ ایس،او،پی جاری کیا، جس میں ملک بھر میں ریلوے ایکو سسٹم کی قریبی نگرانی، تمام ریلوے اسٹیک ہولڈرز کے کرداروں اور ان کی ذمہ داریوں کی واضح حد بندی پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال پربھی زور دیا گیا ہے۔
ریلوے پولیس فورس مجرموں کو پکڑنے اور اسمگلنگ کا شکار ہونے والے بچوں کی مدد کے لیے چہرے کی شناخت، بائیو میٹرک ریکارڈ، اور آن لائن قابل تلاش ڈیٹا بیس کے ساتھ حفاظتی کیمرے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس میدان میں کام کرنے والے متعدد سول سوسائٹی، اسٹیک ہولڈرز کے مطابق ”حالیہ دنوں میں گرفت سے بچنے کے لیے بچوں کے اسمگلر اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں۔“ اسمگلر کم نگرانی والے اسٹیشنوں کا استعمال کر رہے ہیں، بچوں کو مہذب لباس پہنا رہے ہیں تاکہ ظاہری طور پر شک کے دائرے سے بچ جائیں۔ اسی طرح سے یہ اسمگلر بچوں کے جعلی آدھار کارڈ کا استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ بچوں کی ‘زیادہ عمر’ ظاہر کرسکیں۔ان کا مقابلہ کرنے کے لیے، ریلوے ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے رہا ہے جیسے کہ چہرے کی شناخت کرنے والی مشینری کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی اور سرخ جھنڈے والے ریلوے اسٹیشنوں پر کیمرے (اسمگلنگ کو روکنے اور بچوں کو ان کے اہل خانہ سے دوبارہ ملانے کے لیے بازیافت بچوں کے ماضی کے ڈیٹا کی بنیاد پر)۔ ریلوے کے ایک اہلکار کے مطابق مارچ 2022 تک، ریلوے نے پہلے ہی 840 اوڈ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی نصب کر دیے ہیں۔
ریلوے بچوں کی دیگر تفصیلات کے ساتھ ساتھ بائیو میٹرکس اور ان کی تصاویر کو بھی ریکارڈ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس کے لیے آر پی ایف، ریلوے اسٹیشنوں پر بچائے گئے بچوں کا ایک آن لائن ڈیٹا بیس بھی تیار کر رہا ہے۔ نئے ایس او پی کے مطابق، یہ معلومات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جاننے کی ضرورت کی بنیاد پر شیئر کی جا سکتی ہیں۔ ایک اہلکار کے مطابق اگر کوئی این جی او یا قانون نافذ کرنے والی ایجنسی آدھار وغیرہ کے ذریعے کسی دوسرے مقام سے کسی بچے کی تفصیلات تلاش کرتی ہے، تو وہ ریلوے کے ڈیٹا بیس کے ذریعے مل سکتی ہے‘۔ بہت سے چائلڈ لیبر متاثرین کی بھی ایک ہسٹری ہوتی ہے جسے کہ اہل خانہ کو چھوڑ کر بھاگنے کا ایک خاص ڈیزائن ہوتا ہے ،جو اس طرح کے ڈیٹا بیس کو ایک کارآمد ٹول بناتے ہیں۔تجدید شدہ ایس او پی میں از سر ے نو ریلوے اسٹیشن سے منسلک افراد کے کردار اور ان کی ذمہ داریوں کو ترجیحی بنیاد پر زیادہ واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں آر پی ایف، گورنمنٹ ریلوے پولیس (جی آر پی) کے اہلکاروں، اسٹیشن کے عملے، سفری ٹکٹ کی جانچ کرنے والوں سمیت ریلوے اسٹیشنوں پر رومزہ کے کام کرنے والوں، نجی ملازمین اور سی ٹی وی کنٹرول کرنے والوں کو سختی سے حساس بنانے کی ضرورت پر زور دیاگیا ہے۔ سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈر کا کہنا ہے”کچھ اسٹیشنوں پر مختلف ریلوے ایجنسیوں کے حکام پہلے ایس، او، پی،جس میں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کی گئی تھی، کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن اب جب ہم درخواستوں کے ساتھ ان سے رجوع کرتے ہیں تو ان میں سے بہت سے لوگوں، خاص طور پر ریلوے پولیس کے اہلکاروںکو کافی حد تک جوابدہ پاتے ہیں“۔
سول سوسائٹی کے ایک اور رکن کے مطابق اس جدید ایس، او،پی میں رسائی کی سرگرمیوں کی نوعیت بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے اور چائلڈ لائن (عام ہیلپ لائن نمبر) کو مزید فعال اور مضبوط بنانے کو ترجیح دی گئی ہے۔ سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈر مطابق ”امپریسٹ منی“ کے تصور، جو بچوں کو بچائے جانے پر انہیں کھلانے کے لیے ریلوے سے فراہم کی جانی تھی، کے عملدرآمد پر بھی توجہ دی گئی ہے۔اس امر کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہ کس طرح سے کویڈ۔19 نے بچوں کو مزید کمزور بنا دیا ہے، تجدید شدہ ایس، او،پی کہتی ہے کہ وہ بچے جنہوں نے وبائی بیماری کے دوران والدین میں سے کسی ایک کو یا پھر دونوں کو کھو دیا ہے یا جن کے والدین بے روزگاری کی وجہ سے غربت کے شکار ہو گئے ہیں اور وہ چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہیں،ان کو دوسروں کے بنسبت مزدوری کے لیے اسمگل کیے جانے یا غیر قانونی طور پر اپنائے جانے کا خطرہ زیادہ ہے۔ریلوے چائلڈ ہیلپ ڈیسک کو مزید اسٹیشنوں تک بڑھانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ریلوے کے ایک اہلکار کہتے ہیں”2021کے وسط میں، ملک کے 7,400 طاق ریلوے اسٹیشنوں میں سے صرف 132 اسٹیشنوں کے پاس باقاعدہ چائلڈ ہیلپ ڈیسک تھا۔ ہمارے پاس 1000 بڑے اسٹیشن ہیں جن میں کم از کم 202 اسٹیشن ایسے ہیں جن میں بہت زیادہ لوگ آتے ہیں۔ ایسے میںہمیں موثر ہونے کے لیے ہیلپ ڈیسک نیٹ ورک کو بڑھانا ہوگا“۔
گمشدہ، مفرور، یا لاپتہ بچوں کے خاندان کا پتہ لگانے کے لیے آدھار ڈیٹا بیس ایک اہم ٹول کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس میدان میں کام کرنے والے متعدد کارکنوں کا خیال ہے کہ”ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جہاں ایسے بچوں کو ان کی تصاویر یا دیگر تفصیلات آدھار کارڈ کے ذریعے ملا کر ان کے خاندانوں سے ملایا گیا ہے“۔لیکن اس کے باوجود سول سوسائٹی تنظیموں کو ایک مختلف قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک اسٹیک ہولڈرز بتاتے ہیں کہ اگرچہ کسی بچے کے پاس اس کا آدھار کارڈ موجود ہوتا ہے لیکن کوئی ایسا سرکاری بندوبست نہیں ہے جس سے اس طرح کے بچوں کا پتہ اور دیگر معلومات آدھار سروس مراکزسے حاصل کیا جا سکے۔ دراصل، رازداری کے حقوق اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ آدھار کارڈ سینٹر کے ذریعہ کسی کے آدھار کی تفصیل فراہم کی جائے۔اس سلسلے میں ریلوے اسٹیشنوں سے بچوں کو بچانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم جیودیا کے ایک نمائندے کے کا کہنا ہے، ”ہمارے پاس ایسے کیسز ہیںجس میں بچے ہمارے چائلڈ کیئر انسٹی ٹیوشن میں تین سے چار سال تک تھے اور ہم ان کا پتہ نہیں لگا سکے۔
اگرچہ آدھار سسٹم اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ ان کا پتہ موجود ہے لیکن ہم پتے کی تفصیلات تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر تھے۔ چار سال کی مسلسل کوششوں کے بعد، ہم ایک ضلع کلکٹر کی مدد سے ان کے آدھار کی تفصیلات حاصل کرنے میں صرف اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ کہ انہوں نے ذاتی طور پر کچھ حکام سے معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی۔جیودیا کے نمائندے نے اس بات کو محسوس کیا کہ اگر شناخت کا کوئی نظام موجود ہوتا تو اس طرح کے بچوں کو ان کے اہل خانہ سے ملانے میں کافی آسانی ہوتی ۔ جیودیا کے ایک اہلکار نے زور دیکر کہا کہ”ہماری درخواست یہ ہے کہ اس سلسلے میں ایک معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کی وضاحت کی جائے تاکہ کوئی اتھارٹی یا کوئی سرکاری ایجنسی ایک خاص پروویژن کے تحت اس طرح کے بچوں کے آدھار ڈیٹا کی تفصیلات تک رسائی کے لیے ذمہ دار بنایا جائے کیونکہ اس سے ہمیں بچوں کی تفصیلات تلاش کرنے میں آسانی ہوگی اور ہم کسی بھی بچے کو کہیں سے بھی بچانے میں کامیاب ہو نگے“
لاپتہ یا بھاگے ہوئے بچوں کے حقیقی پتے معلوم کرنے کے لیے موجودہ آدھار سسٹم کو کتنی کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے، اس کا انحصار لاپتہ بچوں کے ایسے معاملات میں وقت اور توانائی پر ہوتا ہے۔ سول سوسائٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ ایک بھاگے ہوئے بچے کا معاملہ یہ تھا کہ اس نے اپنا جھوٹا نام دیا تھا لیکن آدھار ڈیٹا بیس کے ذریعے اس کے اصلی نام اور تفصیلی پتہ معلوم ہوا۔ بعض اوقات، سول سوسائٹی کی تنظیم کو پہلے کے آدھار کارڈ کی موجودگی کے بارے میں اس وقت پتہ چلتا ہے، جب وہ ان بچوں کا نیا آدھار کارڈ بنانے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ پہلے سے آدھار کارڈ موجود ہونے کی وجہ سے دوبارہ آدھار کارڈ نہیں بن سکتا ہے ۔لیکن ان سب کے باوجود ہم ان کی اصل تفصیلات نکالنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جیودیا کے نمائندے نے ایک حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا کوئی نظام ہونا چاہیے جو کسی بچے کو بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے میں بھیجے جانے سے پہلے یا اس کا نیا آدھار کارڈ بننے سے پہلے مخصوص دنوں کے اندر بچے کے اصل ٹھکانے کا پتہ لگانے کے لیے آدھار کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کو لازمی قرار دیتا ہو۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھی نے مزید کہاکہ بچوں کو خاندان سے ملانے یا نیا آدھار کارڈ بنانے کے لیے مخصوص دنوں کے اندر آدھار پر مبنی تلاش کو لازمی قرار دینے سے ایسے ”ناقابل اعتماد“ بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کے مسئلے کو بھی حل کیا جا سکتا ہے جو بچوں کو صرف اس مقصد سے بچاتے ہیں تاکہ گرانٹ حاصل کرسکیں۔