مذہب

تاخیر سے ولیمہ کا حکم

حدیث میں جو یہ بات آئی کہ پہلے دن کا ولیمہ حق ہے، دوسرے دن کا معروف ہے اور تیسرے دن کا ریا اور دکھاوا ہے، بہت سے اہل علم کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل تین دن تک دعوت کی جائے ؛

سوال:- میرے ایک دوست کا نکاح مکہ مکرمہ میں ہوا اور وہیں منکوحہ کے ساتھ خلوت بھی ہوئی ؛ لیکن انہوں نے وطن آکر ولیمہ کیا ، جس میں ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت گذر گیا ، کیا اس طرح ولیمہ کرنا درست ہوا ؟ (عبد القدیر ، ملے پلی)

جواب:- ولیمہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جس دن میاں بیوی کی تنہائی ہوئی اس کے اگلے دن یا دوسرے تیسرے دن دعوت کردی جائے ، اس سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے ؛ لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوگئی تو اس میں بھی حرج نہیں ،

حدیث میں جو یہ بات آئی کہ پہلے دن کا ولیمہ حق ہے، دوسرے دن کا معروف ہے اور تیسرے دن کا ریا اور دکھاوا ہے، بہت سے اہل علم کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل تین دن تک دعوت کی جائے ؛

لیکن اگر ولیمہ کی دعوت ابھی کی ہی نہیں گئی اور چند دنوں کے بعد ولیمہ کی دعوت کردی جائے ، تو بعض روایات سے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ، جیساکہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری خاتون سے نکاح کیا ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اوپر زرد رنگ کے عطر کے دھبے پائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب پوچھا تو عرض کیا کہ میں نے نکاح کیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ مہر کے طور پر کیا دیا ، عرض کیا : کھجور کی گٹھلی کے ہم وزن سونا ،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ولیمہ کرو ، چاہے ایک بکری ہی کیوں نہ ہو : ’’ أو لم ولو بشاۃ ‘‘ (بخاری ، باب قول الرجل لأخیہ : أنظر أي زوجتي شئت حتی أنزل اللہ لک، حدیث نمبر : ۴۶۸۴)

اس حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس وقت ولیمہ کا حکم دیا تھا جب ان کے نکاح پر چند دن گذر چکے تھے ، اسی طرح حفصہ بنت سیرین سے منقول ہے کہ ان کے والد نے نکاح کیا اور سات دنوں تک صحابہ کو مدعو کیا ، ان صحابہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی بھی تھے ،

انہوں نے روزہ ہونے کی وجہ سے کھانا تو تناول نہیں فرمایا ؛ لیکن دعا کے کلمات کہے :

’’ فأولم فدعا الناس سبعًا ، وکان فیمن دعا أبی بن کعب ، فجاء وہو صائم فدعا لہم بخیر وانصرف ‘‘ (السنن الکبری للبیہقی ، باب أیام الولیمۃ ، حدیث نمبر : ۱۴۲۹۲) چنانچہ اس حدیث سے بعض اہل علم نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ اگر تین دنوں سے زیادہ بھی ولیمہ کھلایا جائے ؛ لیکن دکھاوا اور فخر و غرور اس کا مقصود نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے ۔ (دیکھئے : باب جواز الولیمۃ إلی أیام إن لم یکن فخر ، إعلاء السنن : ۱۱؍۱۳)
٭٭٭

a3w
a3w