سیاستمضامین

جامعہ ملیہ اسلامیہ: کچھ یادیں کچھ باتیں

پروفیسر اخترالواسع

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام ہم نے نہ جانے کب سے سن رکھا تھا اور ایک دفعہ دہلی آمد پر ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زیارت کے لیے بھی وہاں آئے۔ بعد ازاں جب پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی اور پروفیسر مشیرالحق کی مشترکہ کوششوںسے جامعہ میں وہ تاریخی سیمینار منعقد ہوا جس کا عنوان تھا ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ اور جس کا افتتاح کرنے کے لیے اس وقت کے صدر جمہوریہ جناب فخرالدین علی احمد اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب تشریف لائے تھے۔ یہ ہماری نظر میں پہلا موقعہ تھا جب جدید و قدیم دانشور و علماء ایک ساتھ جمع ہوئے تھے اور انتہائی خیرسگالی کے ماحول میں جنہوں نے انتہائی متانت اور متوازن انداز سے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ یہ سیمینار سوز سازِ رومیؔ اور پیچ و تابِ رازیؔ کی بہترین تفسیر تھا۔ اس سیمینار میں ہم نے پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر سید عابد حسین، مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی کو پہلی دفعہ دیکھا بھی اور سنا بھی۔ مجیب صاحب اور عابد صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تین میں سے دو معماروں میں باقی بچے تھے جن میں سے ایک ڈاکٹر ذاکر حسین کا 1969 میں صدر جمہوریہ رہتے ہوئے انتقال ہو گیا تھا۔ یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم نے ذاکر صاحب کو 1964 میں اٹاوہ کے اسلامیہ انٹر کالج میں اس وقت دیکھا جب وہ اپنی اس ابتدائی درس گاہ میں بحیثیت نائب صدر آئے تھے اور ان کے ہاتھوں ہمیں آل انڈیا ڈیبیٹ میں کامیابی پر انعام لینے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔
پہلی دسمبر 1977میں ہم جامعہ سے باقاعدہ وابستہ ہوئے۔ ہمارے اس رسمی تعلق کو پروفیسر مسعود حسین خاں جو اس وقت جامعہ کے وائس چانسلر تھے، پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی جو جامعہ کالج کے پرنسپل تھے اور پروفیسر مشیرالحق جو ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اینڈ عرب ایرانین اسٹڈیز کے پروفیسر و صدر شعبہ تھے، نے یقینی بنایا تھا۔ ایک سال بعد یکم دسمبر 1978کو جامعہ ملیہ اسلامیہ ہمیں باضابطہ اسلامک اسٹڈیز کا ایڈہاک لیکچرر مقرر کر دیا گیا۔ اس وقت صدر شعبہ کی حیثیت سے عربی زبان و ادب کے عالم اور معلم سید محمد اجتبیٰ ندوی تھے اور سوئے اتفاق قائم مقام شیخ الجامعہ پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی تھے۔ اسی بیچ یو جی سی کی طرف سے علمی اور ثقافتی تبادلے کے تحت ترکی کے تین ہفتے کے سفر کے لیے منتخب کیا گیا۔ ہمارے ساتھ دوسرا انتخاب جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی کہکشاں پیرزادہ کا ہوا تھا۔ ہمیں جو ٹکٹ دہلی-انقرہ-دہلی دیا گیا اس سے ہم نے جاتے میں دہلی بمبئی کویت بیروت اور انقرہ تک کا سفر کیا ہی لیکن واپسی میں ہم نے اسی ٹکٹ سے انقرہ سے بیروت، دمشق سے جدہ، جدہ سے مدینہ منورہ اور وہاں ظہران ہوتے ہوئے کراچی اور پھر کراچی میں لمبی مدت تک قیام کرکے وایا لاہور، دہلی واپسی کی۔ یہاں آئے تو پتا چلا کہ جامعہ میں جناب انور جمال قدوائی وائس چانسلر ہوکر آ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے سے پہلے کے تمام عارضی تقرریوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ یہ ہمارے لیے بڑا صبرآزما مرحلہ تھا۔ ایسے وقت میں اللہ غریق رحمت کرے پروفیسر خلیق احمد نظامی کو جنہوں نے ہمیں علی گڑھ میں بحیثیت ڈین لوکل سلیکشن کمیٹی سے لیکچرر بنا دیا لیکن دس مہینے بعد جب جامعہ میں ہمارا تقرر ہو گیا تو ہم واپس چلے آئے اور پھر ہم نے کسی دیگر ادارے یا دوسرے ملک میں نوکری کے لیے کوئی درخواست نہیں دی۔ جامعہ میں 1991میں صرف 39سال کی عمر میں ہمیں اوپن پوسٹ پر جنرل سلیکشن کمیٹی سے پروفیسر بنا دیا گیا۔ اس سے پہلے پروفیسر علی اشرف صاحب کے زمانے میں ہم ریڈر ہو ہی چکے تھے۔
جامعہ کا اختصاص اسے دوسرے اداروں سے ممتاز کرتا تھا کہ یہاں شعبہ اردو کے ہیڈ اگر پروفیسر گوپی چند نارنگ تھے تو ہندی کے صدر شعبہ پروفیسر مجیب رضوی تھے۔ یہاں کے ہندی ڈپارٹمنٹ میں اگر ایک طرف اشوک چکردھر تھے تو دوسری طرف اصغر وجاہت اور عبدل بسم اللہ کی ہندی ڈپارٹمنٹ میں موجودگی یہ بات ثابت کر رہی تھی کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔انور جمال قدوائی صاحب نے جامعہ کو ایشیاء کا پہلا ایسا ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر دیا جس میں ایم اے کی ڈگری دی جاتی تھی۔ انہوں نے جامعہ کی زمینوں کو قبضے سے بچایا اور ان پر چاروں طرف سے دیواریں تعمیر کرائیں۔ ان دیواروں کی تعمیر کا اس وقت بعض لوگوں نے دیوارِ قہقہہ کہہ کر مذاق بھی بنایا لیکن بعد میں وقت نے ثابت کر دیا کہ انور جمال قدوائی صاحب جامعہ کے کیسے بہی خواہ اور دور رس سوچ رکھنے والے انسان تھے۔ انور جمال قدوائی صاحب کے بعد پروفیسر علی اشرف صاحب جامعہ کے وائس چانسلر بنے۔ ان کے زمانے میں ہی جناب خورشید عالم خاں کی کوششوں سے جامعہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ پروفیسر علی اشرف کے زمانے ہی میں اکیڈمی آف تھرڈ ورلڈ اسٹڈیز کا قیام عمل میں آیا جو اب اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے نام سے جانی جاتی ہے۔اس کے علاوہ انہیں کے زمانے میں انجینئرنگ کالج بھی وجود میں آیا۔ علی اشرف صاحب کے بعد مشہور سائنس داں اور اینٹارکٹکا پر پہلی ہندوستانی مہم کے سربراہ ڈاکٹر سید ظہور قاسم وائس چانسلر ہوکر آئے۔ انہوں نے انتہائی دیانت و فراست کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں انجام دیں اور 1991 میں وہ تقریبا دو سال کے بعد ہی حکومت ہند کے پلاننگ کمیشن کے ممبر ہو کر چلے گئے۔ ان کے بعد پروفیسر بشیر الدین احمد وائس چانسلر ہوکر آئے۔ ان کا دور خاصہ اتھل پتھل کا دور رہا لیکن انہوں نے اپنا زمانہ کسی قدر گزار ہی لیااور یہاں کے شیخ الجامعہ رہتے ہوئے ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے زمانے ہی میں پروفیسر مشیرالحسن پرو وائس چانسلر بنائے گئے جس کو لے کر کچھ لوگ خوش نہ تھے اور پروفیسر مشیرالحسن کے کچھ بیانات کو لے کر ایسا ہنگامہ ہوا کہ وہ کافی عرصے تک یونیورسٹی میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جس میں لیفٹننٹ جنرل ایم اے ذکی جامعہ کے وائس چانسلر ہو کے آئے۔ یہ ان کی شخصیت کی اقبال مندی تھی کہ سارا شور و شر جو ان کی آمد سے پہلے یونیورسٹی کو بے حال کئے ہوئے تھا، ختم ہو گیا۔ بظاہر تو ان کا تقرر اس اعتبار سے شروع میں اچھا نہیں سمجھا گیا کہ دانشوروں کی بستی میں داروغاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن ان کے رکھ رکھاؤ اور انتہائی منصفانہ انسان دوست سلوک نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ادارے کے حق میں صحیح وقت میں آئے بھی اور ایک فوجی جنرل کے بجائے زندہ پیر کی طرح انہوں نے جامعہ کو چلایا۔ جس میں نہ تو کسی سے بے جا دوستی تھی اور نہ ہی بلاوجہ کا بیر۔ جنرل ذکی صاحب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ذاکر صاحب کے بعد وہ اکیلے ایسے وائس چانسلر تھے جو کہ بعد ازاں اتفاق رائے سے چانسلر بھی منتخب ہوئے۔
جنرل صاحب کے بعد سید شاہد مہدی صاحب وائس چانسلر ہوکر آئے۔ انہوں نے اپنی من موہنی شخصیت اور طالب علموں کے ساتھ ہمدردانہ رویے سے اپنے لیے ایک خاص جگہ بنائی۔ سید شاہد مہدی صاحب کے بعد پروفیسر مشیرالحسن جامعہ کے وائس چانسلر بنے۔ وہ جدید ہندوستانی تاریخ کے ان نامور مؤرخین میں سے تھے جنہوں نے عصرجدید کی ہندوستانی تاریخ میں اپنی تحریروں اور کوششوں سے مسلمان رہنماؤں اور اداروں کو مرکزی اہمیت کا حوالہ بنا دیا تھا۔ پروفیسر مشیرالحسن نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو علمی اور فیزیکل ہر اعتبار سے نیا علمی اعتبار اور وقار بخشا۔ کیمپس کی تزئین کاری پر بھی انہوں نے خصوصی توجہ دی۔ ان کے بعد نجیب جنگ صاحب نے وائس چانسلر کے آفس کو زینت بخشی اور اردو زبان و ادب، ٹیگور پروجیکٹ، مکتبہ جامعہ کی بقائے نو کے لیے غیرمعمولی کام کیا۔ ان کے بعد پروفیسر طلعت احمد نے یہ منصب سنبھالا اور انہوں نے سائنس کے شعبوں پر خاصی توجہ دی نیز داخلوں میں اسٹاف کے بچوں کے لیے گنجائشیں پیدا کیں۔اور راقم الحروف ان کے زمانے ہی میں میں جامعہ سے سبکدوش ہو گیا۔ آج محترمہ پروفیسر ڈاکٹر نجمہ اختر ہندوستان کی کسی بھی مرکزی یونیورسٹی کے پہلی خاتون وائس چانسلر کے طور پر جامعہ کو اوپر اٹھانے اور اس کو نیا وقار عطا ہو، اس کوشش میںلگی ہوئی ہیں۔ ان کے زمانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو NAAC میں جہاں A++ ملا ہے وہیں وہ آج ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں تیسرے پائیدان پر جا پہنچی ہے اور اب یہ بھی اعلان ہو گیا ہے کہ ان کی سربراہی میں جامعہ کو میڈیکل کالج بھی ملنے والا ہے جس کے لیے ہم سب جامعہ والوں کو انہیں مبارکباد دینی چاہیے۔
آج جبکہ جامعہ سے رسمی طور پر علیحدہ ہوئے تقریبا سات سال ہوا چاہتے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ پروفیسر اقتدار محمد خاں، پروفیسر محمد اسحق اور پروفیسر شاہد علی کی قیادت و سیادت میںاپنے تمام رفقاء کے ساتھ ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز نئی منزلوں کو چھو رہا ہے اور وہ پودا جو کبھی پروفیسر مشیرالحق مرحوم نے لگایا تھا اور جس سے پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی بھی وابستہ رہے تھے وہ آج الحمد للہ آگے بڑھ رہا ہے اور نئی بلندیوں کو پہنچ رہا ہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)