طنز و مزاحمضامین

جلدی کا کام شیطان کا…

کچھ لوگ حد درجہ جلد باز ہوتے ہیں توکچھ خود کو بے انتہا مصروف ظاہر کرنے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔ایک چینی بزنس مین کی جلد بازی ملاحظہ فرمائیںکہ اس نے خود کو دنیا کا مصروف ترین کاروباری ظاہر کرنے کے لیے بیمار ہونے کے باوجود چند منٹ بھی ہسپتال میں رکنا گوارا نہ کیا اور گلوکوس بوتل اپنی کارکے اوپر لٹکا کر چل دیا...

حمید عادل

کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک بچے کو پیدائش کے فوری بعد ’’ قدم قدم بڑھائے جا،خوشی کے گیت گائے جا ‘‘ کی طرز پر اپنے قدم اٹھاتے اور چلنے کی کوشش کرتے دکھایا گیا تھا… نومولود کا اپنے پیروں پر کھڑے ہونا ،بلکہ قدم اٹھانا کسی کرشمے سے کم نہ تھا…جسے دیکھ کر والدین کویقینا بے انتہا خوشی ہوئی ہوگی…خوشی کیوں نہ ہو،ہر ماں باپ کاخواب ہوتا ہے کہ بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں ،لیکن کچھ بچے ،جوان ہوکر بھی اپنے پیرو ں پر کھڑے نہیں ہوپاتے ہیں، ایسے اپاہج بیروزگار بچوں کو دیکھ کر والدین کے دلوں پر کیا گزرتی ہے یہ وہی بہتر جانتے ہیں…
خیر!ہم ذکر کررہے تھے، اس نومولود کا جو اپنی پیدائش کے دوسرے ہی دن اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کررہا تھا…یاد رہے کہ 2000ء میں حیدرآباد کے ہائی ٹیک سٹی کے علاقے میں نومولود نے دوسرے ہی دن رینگنے کی کوشش کی تھی۔تقریباً سترہ سال بعد ایک اور نومولود رینگنے کی حد پا ر کرکے چلنے کی کوشش کرنے لگا توکچھ عجب نہیں کہ مستقبل قریب میں کسی نومولودکی دوڑنے کی کوشش کرتی ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل ہوجائے۔ ممکن ہے چلنے کی کوشش کرنے والا نومولود اس حقیقت سے واقف ہوچکا ہو کہ یہ دور شارٹ کٹ کا دور ہے، شارٹ کٹ جسے حرف عام میں ’’ ارتْک رستہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
آ ج ہماری یہ کوشش ہے کہ ہم گھنٹوں کا کام منٹوں میں اور منٹوں کا کام سکنڈوں میں کرلیں … شارٹ کٹ کیز کمپیوٹر کے علاوہ ہم نے خود میں بھی فٹ کرلی ہیں اوران ہی کیز کا استعمال کرتے ہوئے ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں۔گویاآدمی، آدمی نہ رہ کرکمپیوٹر بن چکاہے…
جلد بازی ہمارے خون میں رچ بس چکی ہے …ہم کسی راہ پر چل پڑیںتو ’’جلدی کا کام شیطان کا‘‘والی کہاوت کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے نظر آ جاتے ہیں،ہر کسی کو جلدی ہے، کوئی رکنا نہیں چاہتا ، جب کوئی جان لیوا حادثہ رونما ہوجاتا ہے توہی سمجھ میں آتا ہے کہ کہاں جانے کی جلدی تھی؟
آ ج ہر سو شارٹ کٹ کا طوطی بول رہا ہے، لہٰذا انسان تو انسان جانور بھی اس سحر سے نہیںبچ سکا ہے۔ لندن میں ہوئی کتوں کی ایک دوڑ میں جب ایک کتے نے دیکھا کہ وہ دیگر کتوں سے پچھڑ رہا ہے تو اس نے انتہائی ہوشیاری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان کے بیچ سے شارٹ کٹ لی اور دیگر کتوں سے آ گے نکل گیا۔اب اسے بے ایمانی کہیں یا حاضر دماغی لیکن کتے نے بلا آ خر دوڑ جیت ہی لی…
کتے ہی پر کیا منحصر ہے،حضرت انسان بھی کسی نہ کسی طرح اپنے مقصدمیں کامیابی چاہتا ہے ، اسے اچھے برے کی کوئی پرواہ نہیں رہی ہے۔’’جلد ی کا کام شیطان کا‘‘ والی کہاوت کاشکارہوکر وہ اپنے کسی مقصدکو پانے کے لیے شیطانی طاقتوں یا سفلی علم کا سہارا لینے سے تک باز نہیں آ تا…. سرکاری دفاتر میں توشارٹ کٹس کا خوب استعمال ہوتا ہے اوریہاں ضرورت مندوں کو کامیابی عموماً رشوت کے بل پر ہی حاصل ہوتی ہے۔ تعلیم کا میدان بھی شارٹ کٹس سے محفوظ نہیں رہا، شارٹ کٹ میں کوئی بھی گریجویٹ کہلا سکتا ہے یا پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرسکتا ہے۔ شارٹ کٹ کا توغالباً وقت بھی عادی ہوچکا ہے، چنانچہ سال، مہینوں میں ، مہینے دنوں میں اور دن، منٹوں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں… وقت کے بے برکت ہونے پرگھوڑے خاں کہتے ہیں :
’’ زمین بھی غالباًشارٹ کٹ کی روش اختیار کرچکی ہے اور وہ سورج کے اطرف 365دن کا اپنا چکر محض 65دنوں میں پورا کررہی ہے۔ آ ج وقت کی تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی عیدالفطر کی نماز ادا کی اور شیر خرما پی کر ذرا سا سستاکر جاگے تو پتا چلا کہ ماہ رمضان دوبارہ حاضر ہے۔ ‘‘
گھوڑے خاں مزید کہتے ہیں :
’’برکت تو پیسوں سے بھی رخصت ہوچکی ہے، دو ہزار کا نوٹ جیسے ہی ٹوٹتا ہے، کہاں چلاگیا کچھ پتا نہیںچلتا… میں نے بارہا اپنی جیبوں کو کھنگالا ہے کہ مبادا کسی نے میری جیب تو نہیں کاٹ لی …‘‘
شارٹ کٹ ہماری عبادت میںبھی سرائیت کر گیا ہے ، چمن بیگ کا رکوع اور سجدہ نہایت مختصر ہوتا ہے جبکہ مشکوک حیدرآ بادی کاوضو بھی جلد بازی پر مبنی ہوتا ہے۔ شارٹ کٹ کے اس دور میں اگر کوئی وضو کو وضو کی طرح بنانے کی کوشش بھی کرے تو پیچھے سے بے شمار آ وازیں اسے شارٹ کٹ وضو کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ دراصل ہم مختلف دنیاوی مصروفیات کی بدولت عین وقت پر مسجدمیں داخل ہوتے ہیں اور پھر جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناقص وضوکرکے خود کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ ہم نے با جماعت نماز ادا کرلی … اب توہمارے پاس اتنا سا بھی وقت نہیں کہ الفاظ ہی درست ادا کردیں… ہماری شارٹ کٹ روش کا یہ عالم ہے کہ کوئی (’’الف‘‘ اور’’ل‘‘ کے بغیر) سلام علیکم ( السلام علیکم) کہتا ہے توکوئی صرف بنا منہ کھولے ہاتھ اٹھانے پر اکتفا کرتا ہے جبکہ کوئی منچلا بے دلی سے سر ہلاکر سمجھتا ہے کہ اس نے سلام کردیا ۔
زندگی کے بیشتر معاملات میں توہم شارٹ کٹ کیز کا خوب استعمال کرتے ہیں لیکن افسوس! جہاں ہم ان کا موثر انداز میں استعمال کرسکتے ہیں وہاں انجان ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طورپر شادی ہی کو لیجیے، وہ غیر ضروری رسم و رواج جن کا کوئی وجود نہیں ،ان پر پیسہ پانی کی طرح کچھ اس طرح بہاتے ہیں کہ پانی بھی شرم سے پانی پانی ہوجائے۔ہماری یہ نادانی نہیں تو اور کیا ہے کہ غیر ضروری رسموں کے جھمیلے میں پڑکرہم عقد کو ایک مشکل عمل بنا چکے ہیں… ایسے بہت سارے کام ہیں جو ہماری شارٹ کٹ روش کا بڑی بے تابی سے انتظار کررہے ہیں لیکن افسوس ! ہم انہیں خاطر میں نہیں لاتے…رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا بھی ہم بھولتے جارہے ہیں …
کچھ لوگ حد درجہ جلد باز ہوتے ہیں توکچھ خود کو بے انتہا مصروف ظاہر کرنے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔ایک چینی بزنس مین کی جلد بازی ملاحظہ فرمائیںکہ اس نے خود کو دنیا کا مصروف ترین کاروباری ظاہر کرنے کے لیے بیمار ہونے کے باوجود چند منٹ بھی ہسپتال میں رکنا گوارا نہ کیا اور گلوکوس بوتل اپنی کارکے اوپر لٹکا کر چل دیا…
جلد بازی کے سحر سے عشق بھی کہاںمحفوظ ہے صاحب! جیسے ہی معشوق کو کوئی اور بہتر نظر آ جاتا ہے ، ’’دو جسم ایک جان‘‘ والاپہلا عشق بے جان ہوکر رہ جاتا ہے۔معروف شاعرآ فتاب حسین نے کیا خوب کہا ہے:
دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا
ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے
ایک اور شاعر نے بڑا عمدہ خیال پیش کیاہے:
اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آ نکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آ یا ہوں
جلدبازی سے اکثر و بیشتر ندامت ہی ہاتھ آتی ہے ، نوٹ بندی کا فیصلہ بھی ’’جلدبازی پر مبنی تھا، چنانچہ نوٹ بندی کا شیطان سینکڑوںمعصوم انسانوں کو نگل گیا۔یہ جلد بازی نہیں تو اور کیا تھی کہ پانچ سو کا نوٹ جب چھپ کر آ یا تو ان نوٹوں میں بھونڈا فرق پا یا گیا۔ بیشتر پانچ سوکے نوٹوں میں دوسری کئی چیزوں کے علاوہ مہاتما گاندھی کی تصویر سے بھی چھیڑ چھاڑ نظر آئی۔ مودی جی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی حکومت میں پانچ سو کے دو طرح کے نوٹ چل پڑے اور کمال کی بات یہ تھی کہ دونوں اصلی تھے…ایسا اس وقت ہوتاہے جب ماتحت لاپرواہ اور بے حس ہوں…
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاوں میں ایک چودھری رہتا تھا، اس کے ساتھ حویلی میں چمن بیگ ٹائپ ایک ملازم خاص (میراثی) بھی رہائش پذیر تھا۔ مالک اور نوکر ایک ایسی سست الوجود قوم سے تعلق رکھتے تھے جو پرسکون مزاج کی مالک تھی اور آ ج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادی تھی…
ایک دن چودھری صاحب پکوڑے کھانے کے بعد اخبار سے بنے لفافے کے مطالعہ میں مصروف تھے کہ انہوں نے خبرپڑھی کہ محکمہ زراعت نے جدید پیوند کاری کے ذریعے گندم کا ایساکرشماتی بیج ایجاد کیا ہے جو دگنی فصل دیتا ہے۔ چودھری صاحب نے ملازمین کو اکٹھا کر کے نئے بیج کے متعلق صلاح ومشورہ شروع کیا، صلاح ومشورے کی مختلف نشستیں جاری رہیں اورآ خر کارایک سال بعد گندم کے بیج ،بونے کا فیصلہ ہو گیا۔
فصل بونے کا موسم قریب آ یا تو چودھری صاحب نے ملازم خاص یعنی میراثی کو بیج لانے کے لیے شہر بھیجا۔ میراثی لاری پر طویل سفر طے کر کے شہر پہنچا تو تھکاوٹ سے چور تھا۔ وہ شہر میں اپنے ایک عزیز کے گھر گیا تاکہ چند دن آ رام کر کے سفر کی تھکاوٹ دور کرے اور بیج خرید کر واپسی کا قصد کرے۔ میراثی کو شہر میں مختلف عزیزوں اور دوستوں کے ہاں آ رام کرتے ایک سال کا طویل عرصہ گزر گیا اور جب دوبارہ فصل کاشت کرنے کا موسم آ یا تو چودھری صاحب کو میراثی کی یاد آ ئی۔ انہوں نے ایک اور نوکر کو شہر بھیجا تاکہ میراثی کو ڈھونڈ کر لائے۔چودھری صاحب کے نوکر نے بڑی مشکل سے میراثی کو شہر میں تلاش کیا اور چودھری صاحب کا پیغام پہنچایا۔
میراثی جب بیج کی بوری کمر پر اٹھائے گاوں پہنچا تو بارش کے باعث ہر طرف جل تھل تھا۔ وہ حویلی کے گیٹ سے داخل ہوا تو اس کا پاوں پھسلا اور وہ دھڑام سے بوری سمیت گر گیا۔ بوری پھٹ گئی اور سارا بیج کیچڑ میں بکھر گیا۔ چودھری صاحب نے آ گے بڑھ کر میراثی کو اٹھانا چاہا تو وہ کیچڑ میں لیٹے لیٹے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا:
’’بس رہنے دیں چودھری صاحب! آ پ کی جلد بازی نے توہمیں ما رڈالا ہے۔‘‘ چودھری صاحب پر گھڑوں پانی پڑ گیا اور انہیں اپنی غیر حکیمانہ عجلت پر سخت ندامت ہوئی…
سبق: جلد بازی شیطان کا کام ہے…
مودی جی نے اچھے دن آ نے کا وعدہ کیا ہے تو اچھے دن بہت جلد یعنی سو ڈیڑھ سو سال میں تو آ ہی جائیں گے… یاد رکھیں! دانا جلد بازی نہیں کرتے…
٭٭٭