سیاستمضامین

سوئیڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی

مولانا سید احمد ومیض ندوی

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ایک بد بخت ملحد کی جانب سے قرآن مقدس کو نذرآتش کرنے اور اس کی بے حرمتی کے واقعہ پر عالم اسلام سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ عین عیدالاضحی کے موقع پر اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ایک عراقی نژاد شخص نے پہلے قرآن پاک کے صفحات پھاڑے پھر ان سے اپنے جوتے صاف کیے بعد ازاں قرآن مجید کے نسخے کو اس نے نذر آتش کیا۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کا یہ دوسرا واقعہ ہے اس سے قبل بھی سویڈن میں شان رسالت میں گستاخی اور قرآن کی بے حرمتی کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ حالیہ واقعہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ مذموم حرکت سویڈن کی ایک عدالت کی باقاعدہ اجازت سے انجام دی گئی ہے۔ بدھ کے روز مظاہرے سے قبل اس واقعے میں ملوث شخص سلوان مومیکا نے ایک امریکی نیوز چینل کو بتایا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتا وہ یہ مظاہرہ عدالت میں تین ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد کررہا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ قرآن پر پابندی لگادی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ سویڈن کی پولیس نے مسلم مخالف مظاہروں کی اجازت کی کئی درخواستیں خارج کردی تھیں۔ لیکن ایک مقامی عدالت نے پولیس کے ان فیصلوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ وہ آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ مسجد کے امام محمود خلفی کا یہ انکشاف اہم ہے کہ مسجد انتظامیہ نے پولیس سے درخواست کی تھی کہ وہ کم از کم مظاہرے کو کسی دوسری جگہ منتقل کریں جو قانون کے مطابق ہے لیکن یہ درخواست قبول نہیں کی گئی اس سے انتظامیہ کی ملی بھگت صاف واضح ہوتی ہے۔
واقعہ کو ایک ہفتے سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج اور مذمتی بیانات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ترکی‘سعودی عرب‘ ایران‘ عراق اور مصر سمیت بیشتر مسلم ممالک نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ عراقی دارالحکومت بغداد میں واقع سویڈن کے سفارت خانے کے باہر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ مصر نے کہا کہ یہ عمل شرمناک ہے‘ مصری وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ مصر کو بار بار قرآن نذر آتش کرنے اور بعض یوروپی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور مذاہب کی توہین کے واقعات میں اضافے پر گہری تشویش ہے اور قاہرہ حکومت ایسے تمام قابل مذمت واقعات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے جو مسلمانوں کے مذہبی عقائد کو متا?ثر کرتے ہیں۔ ایرانی وزراتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے اس واقعے کو اشتعال انگیز غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اور عوام اس طرح کی توہین برداشت نہیں کرتے اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ جبکہ رجب طیب اردوغان نے اس واقعے کے لیے سویڈن پر تنقید کی اور کہا کہ ہم آخر کار متکبر مغربیوں کو یہ سکھائیں گے کہ مسلمانوں کی توہین کرنا آزادی فکر نہیں ہوتی۔ سینکڑوں عراقی باشندوں نے بغدادکے سویڈن کے سفارتخانے کے باہر مظاہرہ کیا اور پھر عمارت پر دھاوا بول دیا مقتدی الصدر کے حامیوں کا ہجوم نے تقریباً 15منٹ تک سفارت خانے کے کمپاو?نڈ کے اندر نعرے بازی کرتا رہا۔ عراقی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ قرآن کو نذر آتش کرنے کا مرتکب ایک عراقی ہے اور سویڈن کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اسے عراق کے حوالے کردے۔ سعودی عرب نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ان نفرت انگیز اور بار بار کی جانے والی کارروائیوں کو کسی جواز کے ساتھ قبول نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ایسے واقعات نفرت اخراج اور نسل پرستی کو ہوا دیتے ہیں اور رواداری اعتدال پسندی کے برعکس انتہا پسندی کو مسترد کردینے کی اقدار کو پھیلانے اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے لیے ضروری باہمی احترام کو کمزور کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کی براہِ راست مخالفت کرتے ہیں۔
57اسلامی ممالک کی انتہائی مو?ثر تنظیم او آئی سی نے ہنگامی اجلاس منعقد کرکے اس واقعے کا سخت نوٹ لیا۔ س2?جولائی اتوار کو اسلامی تعاون تنظیم کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا ایک اجلاس جدہ میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کرتے ہوئے رکن ممالک سے کہا گیا کہ وہ بار بار قرآن کی بے حرمتی سے متعلق ہونے والے واقعات کو روکنے کے لیے متحد ہوکر اجتماعی اقدامات کریںع تنظیم کے جنرل سکریٹری حسین ابراہیم طہ نے اس بارے میں واضح پیغام دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس طرح کی حرکتیں اسلاموفوبیا کے محض عام واقعات نہیں ہیں۔ ہمیں اس بارے میں ان بین الاقوامی قوانین کے فوری نفاذ کے بارے میں عالمی برادری کو مسلسل یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہے جن کے تحت کسی بھی قسم کی مذہبی منافرت کی وکالت کو واضح طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ عراق نے بے حرمتی کرنے والے شخص کو حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ایران نے سویڈن میں نئے سفیر کی تقرری ملتوی کردیا ہے۔
عالم اسلام میں بڑھتی ہوئی برہمی کو دیکھتے ہوئے سویڈن حکومت نے ایک سویڈش اخبار کو بھیجی گئی ای میل میں قرآن سے متعلق حرکت کی مذمت کی ہے۔سویڈن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سویڈن میں اظہارِ رائے کی آزادی کو مضبوط تحفظ حاصل ہے تاہم فطری طور پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت ہر اس رائے کی حمایت کرتی ہے جس کا اظہار کیا جاتا ہو،سویڈن نے کہا کہ جس عراقی شخص نے احتجاج کے ذریعہ اشتعال انگیزی کی ہے اس کی تفتیش کی جارہی ہے۔اقوام متحدہ کے تہذیبوں کے اتحاد کے اعلی نمائندے میگوئیل انیجل مورا ٹینوس نے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی شدید مذمت کی،یہ بتاتے ہوئے کہ اظہارِ رائے کی آزادی اہم ہے لیکن مقدس کتابوں مقامات اور علامتوں کی بے عزتی ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کی کارروائیاں تشدد کے ماحول کو شہ دیتی ہیں۔ دوسری جانب یوروپی یونین نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ قرآن سوزی کا واقعہ جارحانہ اور بے عزتی پر مبنی اشتعال انگیزی کا واضح عمل ہے یہ عمل کسی بھی طرح یوروپی یونین کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا نسل پرستی نفرت انگیزی اور عدم برداشت کی یوروپ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
سویڈن ہالینڈ ڈنمارک وغیرہ یوروپی ممالک میں اسلامی مقدسات کی توہین ایک ناسور کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اہلِ یوروپ و مغرب بظاہر دنیا میں خود کو مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن اس قسم کے واقعات سے ان کی دو رخی اور دوغلہ پن سامنے آجاتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قرآن کریم کی بے حرمتی دنیا کے کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے اور اس پر مسلمانوں کا غصہ اور برہمی ایک فطری رد عمل ہے جو ان کے ایمان اور قرآن کریم سے وابستگی کا تقاضہ ہے۔ مغربی اقوام کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ مسلمان عملی طور پر چاہے کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں فکر و عقیدہ کے حوالے سے ان کی وابستگی ذاتِ رسالت مآب ﷺ اور قرآن کے ساتھ آج بھی قائم ہے جسے ختم کرنے کی کوئی کوشش کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہوگی۔ تکرار کے ساتھ بار بار قرآن کی بے حرمتی کو اہلِ مغرب کی انتہائی گھناو?نی سازش ہی کہا جاسکتا ہے۔ جس کے لیی محض مذمت ناکافی ہے۔ مغرب عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا عادی ہوچکا ہے۔ اب مسلم حکمرانوں کو خوابِ غفلت سے جاگ کر مسلم امہ کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ مذمت سے آگے بڑھ کر سفارتی سطح پر کوئی بڑا اقدام اٹھا نا ہوگا۔ اس سے قبل بھی جب بغداد اور سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کی گئی تھی تو مصر کے جامع ازہر نے قرآن کی بے حرمتی کو جرم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ دونوں ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ ان حکومتوں کے لیے مناسب جواب ہوگا سویڈن اور اس کے ہمنوا ممالک در اصل غیر انسانی اور غیر اخلاقی جھنڈے تلے وحشیانہ جرائم کی آبیاری کرتے ہیں اور اسے وہ آزادی? اظہار کا نام دیتے ہیں۔ مسلم ممالک کی ذمہ داری ہے کہ سویڈن پر دباو? بڑھانے کے لیے اس سے سفارتی تعلقات ختم کرلیں نیز سویڈن کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اسی طرح اس قسم کے واقعات پر قدغن لگانے کے لیے عالمی برادری پر پریشر بنائیں کہ وہ فی الفور کسی بھی مذہبی مقدسات کی بے حرمتی پر انتہائی سخت ترین سزا کا موجب جرم قرار دے۔
جہاں تک قرآن مجید کے تقدس کا تعلق ہے وہ اظہر من الشمس ہے قرآن اللہ کا کلام ہے جس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ذلک الکتاب لاریب فیہ (البقرہ) وہ ہدایت کا سرچشمہ ہے (ھدی للناس۔ البقرہ) قرآن مجید کی آیات محکم ہیں کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت۔الرعد) قرآن تمام روحانی و جسمانی امراض کے لیے نسخہ شفا ہے (وننزل من القرآن ماھو شفاء (بنی اسرائیل)اس میں حکمت و دانائی کے خزانے ہیں (تلک آیات الکتاب الحکیم (یونس) قرآن خود اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے وانہ لتنزیل رب العالمین نزل بہ الروح الامین علی قلبک لتکون من المنذرین (الشعراء) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن پروردگار عالم کا نازل فرمایا ہوا ہے ایسے امانت دار فرشتے نے تمہارے دل پر اتاراہے تا کہ تم لوگوں کو عذاب آخرت سے خبردار کرنے والے بنو صاف ستھری عربی زبان میں۔ آیات بالا کی تفسیر میں علامہ محمود بن احمد دوسری تحریر فرماتے ہیں ’’یہ اللہ کا کلام ہے‘ کلام کرنے والے کا کمال کلام کی سچائی کی دلیل ہوتا ہے اس طرح اس کی عظمت و وقعت کی شان بھی واضح ہوتی ہے کیوں کہ اسے نازل فرمانے والا بڑی عظمتوں والا ہے مزید بر آں قرآن قرا?ت کے شرف اس کی قدر و منزلت اور اس کی عظمت ہی کی وجہ سے امت کی شان بلند ہوتی ہے۔ قرآن اللہ کا نور اور کتاب مبین ہے (قد جآئکم من اللہ نور و کتاب مبین (المائدہ) قرآن ایمان والوں پر اللہ کی رحمت ہے (قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فیلفرحوا (یونس) یہ صرف اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ یہ نعمت تمہیں نصیب ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے بھی قرآن مقدس کی عظمت کو واضح فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: خیر الدواء القرآن امت کے لیے سب سے بہتر دوا قرآن مجید ہے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب دوسری نبی کی سنت۔ نیز آپ نے قرآن کی تعلیم سیکھنے اور سکھانے والے کو سب سے بہترین انسان قرار دیا۔ (خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ) یہ وہ جامع کتاب ہے جو عقائد عبادات معاملات معاشرت سیاست و خلافت اور زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق رہنمائی کرتی ہے یہ علم و حکمت ہدایت و رحمت کا ایک بحر بیکراں ہے جو رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور قیامت تک اس کے بعد کوئی کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل نہیں ہوگی۔
قرآن مجید ایک نقلاب آفریں کتاب ہے جس نے صرف 23سال کے عرصہ میں دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا۔ قرآن صرف کتابِ ہدایت ہی نہیں وہ کتاب علم و معرفت بھی ہے جس کا پہلا سبق ’’پڑھو‘‘ہے۔ قرآن مجید کی سب سے پہلی وحی اقرا سے شروع ہوتی ہے۔ قرآن کے اسی علمی انقلاب کا اثر تھا کہ دنیائے انسانیت سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ ور ہوسکی۔ موجودوہ دور کی جتنی اقوام سائنس و ٹیکنالوجی میں محیر العقول ترقی کرچکی ہیں وہ سب قرآن حکیم کی دین ہے اس طرح دنیا اپنی موجودہ اختراعات و انکشافات میں قرآن کی مرہون منت ہے۔ دنیائے انسانیت کا کوئی طبقہ ایسا نہیں ہے جس پر قرآن کا احسان نہ ہو۔ موجودہ دور کا صنعتی انقلاب بھی قرآنی تعلیمات کا نتیجہ ہے ایسے میں احسان شناسی کا تقاضہ تھا کہ اہلِ یوروپ قرآن کے تقدس کو پامال نہ کرتے اور اسے سرآنکھوں پر بٹھاتے لیکن افسوس یوروپی اقوام نے انتہائی گھناو?نا کردار پیش کیا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اہل یوروپ اپنی ان وحشیانہ حرکتوں کو آزادی اظہارکا نام دیتی ہیں۔ بھلے مذہبی مقدسات کی پامالی کیوں کر آزادی اظہار کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اخیر میں ایک نظر ذرا ہم اپنے مسلم معاشرے پر بھی ڈالیں جو غیروں کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی پر تو خوب چراغ پا ہوتا ہے لیکن خود اس کے افراد آئے دن قرآن سے بے اعتنائی برت رہے ہیں اس کی اسے کوئی پرواہ نہیں۔ قرآن سے غفلت کا یہ عالم ہے کہ برسوں گزر جاتے ہیں کبھی جزدان میں رکھی قرآن کو ہاتھ لگانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ لاکھوں ایسے مسلمانوں ہیں جنہیں قرآن پڑھنا آتا ہی نہیں۔ عملی زندگی میں قرآن سے لاتعلقی کا حال تو ناقابل بیان ہے۔ کیا کھلے عام قرآنی احکام کی خلاف ورزی قرآن کی توہین نہیں؟ کیا ہمارے معاملات اور ہماری معاشرت قرآن سے میل کھاتی ہیں؟ کیا ہماری شادیاں قرآن کا عملی نمونہ پیش کرتی ہیں۔ یہ اور اس قسم کے سوالوں کا جواب اگر نفی میں ہے تو پھر ہمیں اپنی تباہی پر شور مچانے کا کوئی حق نہیں پہونچتا۔