شاہ چارلس سوم اور اسلام سے اُن کی قربت
انہوں نے ایک بار یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ وہ قرآن کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے عربی سیکھ رہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کیمبرج سنٹرل مسجد کے امام نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک خطبہ کے دوران کی تھی۔
حیدرآباد: قبرص کے مفتی اعظم نے1996 میں حیران کن طور پر برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوم پر خفیہ طور پر مسلمان ہونے کا الزام لگایا تھا۔
اس وقت کے مفتی اعظم قبرص ناظم الحقانی (جو اب مرحوم ہوچکے ہیں) نے کہا تھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ شہزادہ چارلس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ہاں، وہ ایک مسلمان ہے، میں اس سے زیادہ نہیں بتاسکتا، انہوں نے ترکی میں اسلام قبول کیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ دیکھیں کہ وہ (شہزادہ چارلس) بار بار ترکی کا سفر کرتا رہتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کا مستقبل کا بادشاہ مسلمان ہے۔ برطانوی شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار یہ بات کہی تھی۔
تاہم بکنگھم پیلس نے بڑی سادگی سے صرف یہ جواب دیا تھا: ’’بکواس‘‘
شہزادہ چارلس، جو اپنی والدہ ملکہ الزبتھ دوم کی 96 سال کی عمر میں وفات کے بعد گزشتہ ہفتے برطانیہ کے نئے بادشاہ بنے، کوئی خفیہ مسلمان نہیں ہیں لیکن اسلامی عقائد کے بارے میں ان کا علم،معلومات اور برموقع کہی گئی باتیں قابل ستائش ہیں۔
شاہ چارلس (73 سالہ)، جو اب چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ ہیں، جب وہ شاہ نہیں بنے تھے اور شہزادہ تھے تب مسلمانوں اور اسلام سے متعلق مذہبی اور تاریخی موضوعات پر کئی تقاریر کر چکے ہیں۔
انہوں نے ایک بار یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ وہ قرآن کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے عربی سیکھ رہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کیمبرج سنٹرل مسجد کے امام نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک خطبہ کے دوران کی تھی۔
آئیے اسلام پر گذشتہ کئی دہوں کے دوران چارلس سوم کے کچھ اہم ترین حوالوں پر ایک نظرڈالتے ہیں۔
ماحولیات اور فطرت:
شاہ چارلس سوم نے طویل عرصے سے ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حل کی وکالت کی ہے، اور کبھی کبھار اس موضوع پر اسلامی علوم اور احکام کو بھی شامل کیا ہے۔
انہوں نے 1996 میں ایک تقریر میں جس کا عنوان ’’تقدس کا احساس: اسلام اور مغرب کے درمیان پل کی تعمیر‘‘ تھا، کہا تھا کہ فطری ترتیب کے بارے میں اسلامی نظریات کی تعریف اہل مغرب کو دوبارہ سوچنے میں مدد کرے گی۔ چارلس نے ان خیالات کا آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز میں 2010 کی ایک تقریر میں اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں اسلام کی بنیادی تعلیمات اور تفسیروں کے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں، اور ہمیں جو اہم اصول ذہن میں رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ فطرت نے ہمارے لئے حدیں قائم کر رکھی ہیں۔
یہ ہمارے اپنے مقررہ کردہ حدود نہیں ہیں، یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ حدود ہیں اور اس طرح، اگر قرآن کے بارے میں میرا فہم صحیح ہے تو مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کریں۔
بعد میں انہوں نے اسلام کو ’’انسانیت کے لئے دستیاب ذہانت اور روحانی علم کے سب سے بڑے خزانوں میں سے ایک‘‘ قرار دیا۔
گستاخانہ کارٹونس اور شیطانی کلمات:
شاہ چارلس نے 2006 میں، مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع جامعہ ازہر کے دورہ میں ایک سال قبل ڈنمارک میں گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت پر تنقید کی تھی۔ ان میں پیغمبر اسلامؐ کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ (نعوذ باللہ)
انہوں نے کہا تھا کہ مہذب معاشرے کی اصل نشانی یہ ہے کہ وہ اقلیتوں اور اجنبیوں کا احترام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ڈنمارک کے کارٹونس پر حالیہ خوفناک تشدد اور غصہ اس خطرے کو ظاہر کرتا ہے جو دوسروں کے لئے قیمتی اور مقدس چیزوں کو سننے اور اس کا احترام کرنے میں ہماری ناکامی سے پیدا ہوتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب سابق شہزادے نے مبینہ طور پر مغرب میں اسلام اور اظہارِ خیال کی آزادی پر بحث میں حصہ لیا ہو۔
مصنف مارٹن ایمس نے 2014 میں وینٹی فیئر میگزین کو بتایا تھا کہ اس نے چارلس سے سلمان رشدی کی حمایت کرنے سے انکار پر ان سے بحث کی تھی جب اس کے خلاف شیطانی کلمات کی اشاعت کے بعد فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔
مارٹن ایمیس نے دعوی کیا کہ چارلس نے اسے بتایا تھا کہ اگر کوئی کسی کے گہرے عقائد کی توہین کرتا ہے تو وہ اس کی حمایت نہیں کرسکتے۔
اسلام اور مغرب:
چارلس نے مغرب کے لوگوں کے لئے اسلام کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت پر بھی بات کی ہے، خاص طور پر اکتوبر 1993 میں آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز کی ایک تقریر کے دوران انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسلام کی نوعیت کے بارے میں مغرب میں بہت زیادہ غلط فہمی پائی جاتی ہے، تو اس قرض کے بارے میں بھی بہت زیادہ لاعلمی پائی جاتی ہے جو ہماری اپنی ثقافت اور تہذیب کی جانب سے اسلامی دنیا پر واجب الادا ہے۔ یہ ایک ناکامی ہے جو میرے خیال میں، تاریخ کی تنگ و تاریک گلیوں سے ہمیں ورثے میں ملی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اسلام نے اپنے اور اپنے اردگرد کی دنیا کے بارے میں ایک مابعد الطبیعاتی اور متحد نظریہ محفوظ رکھا ہے جبکہ مغرب نے سائنسی انقلاب کے بعد اسے کھو دیا ہے۔
انہوں نے لوگوں سے انتہا پسندی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کے فتنے کی مزاحمت کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔
اسلامی فینانس:
لندن میں 2013 کے دوران ورلڈ اسلامک اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے چارلس سوم نے اسلامی فینانس کے بارے میں تفصیلی معلومات کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے خیال میں اسلامک فینانس سے عالمی مالیاتی منڈیوں میں فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ دریافت کرنا ایک اچھا خیال ہے کہ اسلام کی ’اخلاقی معیشت‘ میں شامل روح، کس طرح معاشیات، کاروبار اور مالیات میں موجود انتظامی خطرات کو کم کرنے کے لئے ایک منصفانہ اور اخلاقی نقطہ نظر فراہم کرسکتی ہے۔
چارلس کا کہنا تھا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ اگر سود کے خلاف قرآن کا سخت حکم اِس وقت رائج معاشی نظام پر لاگو ہوتا تو زمین کے قدرتی سرمائے کی کمی کے باعث آنے والی نسلوں کے لیے جو قرض ہم نے اٹھایا ہے، وہ ضرور ختم ہوجاتا جبکہ یہ بات سود خوروں کے لئے ناقابل قبول ہے۔‘‘
دنیا پر مسلمانوں کا اثر:
چارلس سوم نے سائنس، آرٹ اور تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کے تعاون پر بہت ساری باتیں کی ہیں۔
انہوں نے 2006 میں جامعہ ازہر میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اہل مغرب علمائے اسلام کے قرض دار ہیں، کیونکہ انہی کی بدولت یوروپ کے تاریک دور میں کلاسیکی علوم کے خزانوں کو زندہ رکھا جاسکا تھا۔
تین سال پہلے، لیسٹر شائر کے مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ فار ہائر ایجوکیشن میں، چارلس نے ریاضی میں اسلام کی حصہ داری پر تبصرہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ کوئی بھی شخص جو یوروپی نشاۃ ثانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کے رول پر شک کرتا ہے، اسے رومن ہندسوں کا استعمال کرتے ہوئے کچھ حساب کتاب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں عربی ہندسوں اور صفر کا تصور پیش کرنے کے لئے مسلم ریاضی دانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
1993 کی اپنی مشہور تقریر میں، انہوں نے مسلم ممالک میں خواتین کے حقوق کی ترقی کے بارے میں بات کی جو مغرب میں مفقود تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ترکی، مصر اور شام جیسے اسلامی ممالک نے خواتین کو یوروپ سے پہلے ووٹ کا حق دیا تھا۔ ان ممالک میں خواتین کو طویل عرصے سے مساوی تنخواہ اور اپنے معاشروں میں مکمل کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے جس پر یوروپ میں بہت بعد میں عمل کیا گیا۔