مضامین

شہری اراضیات پر نوٹری کے تحت قبضوں کو باقاعدہ بنانے والا گورنمنٹ آرڈر ہائیکورٹ نے معطل کردیا

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ ہائیکورٹ متذکرہ آرڈر کو کالعدم قراردے گا۔ اشارے مل چکے ہیں۔
٭ آرڈر رجسٹریشن ایکٹ کے دفعہ22-Aکی خلاف ورزی میں جاری کیا گیا۔ ہائیکورٹ
٭ اب حکومت اسٹامپ ڈیوٹی اور پینالٹی حاصل کرسکتی ہے۔
٭ حکومت کے ذرائع آمدنی کو گورنمنٹ آرڈر کے ذریعہ نقصان پہنچایا گیا۔ ہائیکورٹ
٭ نوٹری اساس کی جائیدادوں کے مالکین کیلئے لمحہ فکر
آج سے دیڑھ ماہ قبل رواں کالم کے ذریعہ قانونی رائے کی اشاعت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ متذکرہ گورنمنٹ آرڈر84قانون وضوابط کی خلاف ورزی میںجاری کیا گیاہے اور انصاف کی کسوٹی پر یہ قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی رائے دی گئی تھی کہ نوٹری جائیداد کی اساس پر حاصل کی ہوئی جائیدادوں کو باقاعدہ بنانے کی درخواستیں ہرگز ہرگز اور کسی بھی صورت میں نہ پیش کی جائیں کیوں کہ اس میں خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور حکومت کو علم ہوجائے گا کہ کونسی اراضیات کس کے قبضہ میں ہیں اور ان کا رقبہ کتنا ہے ۔مگر اپنی جائیدادوں کو رجسٹریشن کا جامہ پہنانے کی غرض سے ہزاروں مالکینِ جائیداد نے ایسی درخواستیں پیش کردیں اور حکومت کو ان تمام پوشیدہ باتوں سے آگاہ کردیا جن پر پردہ پڑا ہوا تھا ورنہ حکومت اور اس کے کارندوں کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ تمام تفصیلات حاصل کریں جن کے ذریعہ مالکینِ جائیداد پر بھاری اسٹامپ ڈیوٹی اور اتنی ہی پینالٹی کی رقم وصول کرے۔ قانونی رائے پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے نوٹری جائیدادوں کے مالکین کو بہت پریشانیوں اور بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
گورنمنٹ آرڈر میں صاف طور پر لکھا ہے کہ درخواستوں کی وصولی کے بعد ایسی درخواستوں پر دفعہ(22-A) رجسٹریشن ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور ڈاکومنٹ کو (IMPOUND) کیا جائے گا جس کے معنی یہ ہیں کہ جائیداد کی موجودہ قیمت کے مطابق اسٹامپ ڈیوٹی وصول کی جائے گی جس میں لاکھوں روپیوں کی ادائیگی کا لزوم ہے۔
ڈاکومنٹ کو امپاؤنڈ کرتے وقت جو پینالٹی وصول کی جائے گی اس کی حد دس گنا ہوسکتی ہے۔ تو پھر رائے ملنے کے بعد یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔حکومت کے خوفناک ارادے اسی وقت بھانپ لئے گئے تھے جب گورنمنٹ آرڈر58اور59 2014ء میں جاری کئے گئے تھے۔ حکومت چھپی ہوئی جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرنا چاہتی تھی اور حکومت نے ایسا کرہی دیا۔
عوامی مفاد کی رٹ درخواست پیش کرنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ اسٹامپ ڈیوٹی اور پینالٹی ایسی جائیدادوں کے مالکین سے وصول کی جائے جو نوٹری شدہ بیع نامہ جات کی اساس پر اراضیات پر قابض تھے۔ حکومت نے اس مقصد کے حصول کیلئے بہت پہلے ہی رجسٹرارس کو حکم جاری کیا تھا کہ ایسی جائیدادوں کو(PROHIBITED) لسٹ میں داخل کریں جن کی اساس نوٹری دستاویزات ہوں۔ حکومت اس حقیقت سے واقف تھی کہ اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ اراضیات کو پلاٹس کی شکل میں بذریعہ نوٹری شدہ بیع نامہ جات کے ذریعہ فروخت کردیا گیا تھا۔ اس ممنوعہ لسٹ میں وہ اراضیات بھی شامل ہیں جو اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ ہیں۔
اس تبدیلی سے پہلے یہ پریکٹس تھی کہ کوئی نوٹری دستاویزی اساس پر اراضی کا مالک اپنی بیوی یا بیٹوں کے نام پرگفٹ رجسٹری کردیتا تھا اور اس طرح (E.C) میں خریدار اورفروخت کنندہ کا نام ظاہر ہوتا تھا۔ اس طرح ایسی اراضی یا پلاٹ پر تعمیر مکان کو فروخت کردیا جاتا اور خریدار اس خوش فہمی میں رہتا کہ میں رجسٹر شدہ جائیداد خرید رہا ہوں حالانکہ یہ صریح غلط فہمی ہے۔ اب موجودہ صورت میں ایسی جائیدادوں کی بھی لسٹ تیار کی جائے گی جن کی اساس نوٹری دستاویز اور پھر گفٹ رجسٹری اور پھر اس کے بعد رجسٹر شدہ بیع نامہ ۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا جب صاف صاف اور کھلے الفاظ میں منع کیا جارہا تھا کہ گورنمنٹ آرڈر84 کے جال میں نہ پھنسیں اور آبیل مجھے مار کی مثال نہ بنیں۔ کیا کریں۔ اچھی اور معقول بات بہت دیر سے سمجھ میں آتی ہے اور اس وقت جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے۔
اب ذرا سونچنے کی ضرورت ہے کہ حکومت نے درخواست‘ اس کی فیس اور کن دستاویزات کی نقولات کی فہرست طلب کی ہے۔ ان کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔
-1 نوٹری شدہ دستاویز ۔ بیع نامہ۔
-2 لنک ڈاکومنٹ۔
-3 پراپرٹی ٹیکس رسید۔
-4 پانی بل کی رسید۔
-5 برقی بل کی رسید۔
اگر لنک ڈاکومنٹ کوئی رجسٹر شدہ دستاویز ہو مشکلات کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ اگر قانونی اور اصولی طور پر دیکھا جائے تو قبضہ جات کو مستقل کرنے کیلئے ان باتوں کی ضرورت ہی نہیں تھی تو پھر کیوں یہ سب کیا گیا۔ جب آپ کو ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کے دفعہ(53-A) نے ایک بکتر بند تحفظ فراہم کیا ہے اور آپ ایک معاہدۂ بیع کی اساس پر کسی غیر منقولہ جائیداد پر قابض ہوں اور آپ کا قبضہ مستقل ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اپنی مقبوضہ جائیداد سے بے دخل نہیں کرسکتی۔
اگر آپ نے کوئی معاہدہ بیع کیا ہو اور زمین اس قسم کی ہو کہ اس پر حکومت کا کوئی مطالبہ نہیں ہے اور فروخت کنندہ نے آپ پر معاہدہ بیع کی عمل آوری کا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہو اور تین سالہ مدت گزرچکی ہو تو آپ ہی اس اراضی یا مکان کے مالک ہیں۔ اگر آپ نے معاہدہ بیع کی ساری رقم ادا کردی ہو تو اس بات کو یقینی سمجھئے کہ آپ ہی مالک ہیں اور جائیداد پر آپ کا قبضہ مسلمہ ہے جس پر حکومت بھی دعویٰ نہیں کرسکتی۔
اگر آپ نے ایسی اراضی بذریعہ ہبہ میمورنڈم اپنے بچوں ‘ بیوی میں تقسیم کردی ہو اور قبضہ بھی دیدیا ہو تو وہ بھی اسی طرح جائیداد کے مالک ہوں گے جیسے کہ آپ ہیں۔
لہٰذا ایسے حضرات جنہوں نے درخواستیں پیش کی ہیں اس اسلامی قانونِ ہبہ کا سہارا لے سکتے ہیں اور اپنی جائیدادوں کو محفوظ کرسکتے ہیں۔
دفعہ 498-A تعزیرات ہند مقدمات ۔ (W.P.S) میں طویل کونسلنگ۔ نتیجہ صفر
وقت کی بربادی ۔ کونسلر صاحب کا حکم ‘ حکمِ حاکم مرگِ مفاجات۔ میونسپل کونسلر کا ان معاملات میں دخل کیوں؟
کمشنر آف پولیس حیدرآباد کو اس بات کا سخت نوٹ لینا چاہیے کہ خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات خصوصاً دفعہ498-A تعزیرات ہند شکایات میں کونسلنگ کا سلسلہ مہینوں تک دراز ہورہا ہے اور پھر بھی FIR درج نہیں ہورہا ہے۔ دونوں فریقین‘ ان کے وکلاء اور جج صاحب یعنی مقامی میونسپل کونسلر صاحب ان مقدمات کی یکسوئی کررہے ہیں اور لاکھوں روپیوں کی رقومات پر ’’ تصفیہ‘‘ ہورہا ہے۔ ایسی بے شمار شکایات ٹیلی فون پر آرہی ہیں جن میں لڑکے کے والدین شکایت کررہے ہیں کہ پولیس ‘ فریقِ مخالف کے ایڈوکیٹ اور مقامی کونسلر صاحبہ تصفیہ کروارہے ہیں اور FIR رجسٹر نہیں ہورہا ہے۔ بعض جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات میں لڑکے والوں سے لاکھوں روپیہ الگ اینٹھ لئے جارہے ہیں اور لڑکی والوں کو جہیز کے سامان کی واپسی ۔ دونوں جانب سے دیئے ہوئے زیورات‘ شادی اور دعوت کے اخراجات اور ہرجانہ لاکھوں روپیوں میں ادا کرنے کے احکامات صادر کئے جارہے ہیں اور کونسلنگ کی آڑ میں ایک متوازی عدالت پولیس اسٹیشن میں چلائی جارہی ہے۔
پولیس اسٹیشن میں اگر ایسی کوئی شکایت آئے تو لڑکے یا اس کے والدین کو دفعہ41(A) کی نوٹس جاری کرکے پولیس اسٹیشن طلب کیا جائے اور ایک یا زیادہ سے زیادہ کونسلنگ کے بعد بربنائے شکایت (FIR) جاری کیا جائے پھر اس کے بعد لڑکا اور اس کے والدین عدالت سے رجوع ہوکر ضمانت حاصل کرلیں گے۔ اگر آپس میں کوئی تصفیہ ہوجائے تو لڑکی اور اس کے والدین سے اس بات کا تحریری بیان لیا جائے کہ خلع کے بعد لڑکی کی جانب سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی سیول یا کریمنل مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ اگر بات نہیں بنتی تو مقدمہ درج کردیاجائے اور پھر بعد میں عدالت فیصلہ دے گی ۔ لیکن ایسے مقدمات آٹھ دس دسال سے چل رہے ہیں کیوں کہ مقدمات ہزاروں ہیں اور عدالتیں ایک یادو۔
اگر شکایت بالکل بے جا ہو۔ لڑکے کی بہنوں ‘ ان کے شوہروں کو بلا وجہ معقول گھسیٹا جارہا ہے اور شکایت میں جھوٹی اور بے بنیاد باتیں ہوں تو لڑکا یا اس کے والدین ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر (FIR) کو Quash کرواسکتے ہیں اور اگر ہائیکورٹ حکم صادر کرے کہ تاحکم ثانی تحقیقات کو روک دیاجائے تو پھر کئی سال گزرجائیں گے اور دونوں فریقین مسلسل مصیبتوں اور الجھنوں کا شکار بنیں گے۔
دوسری جانب اگر FIR رجسٹر کرنے میں دیر ہورہی ہے اور لڑکی والے یہ محسوس کریں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے تو عدالت میں زیر دفعہ498-A تعزیرات ہند استغاثہ دائر کیاجاسکتا ہے اور عدالت پولیس اسٹیشن کو ہدایت کرے گی کہ تحقیقات کے بعد ایف آئی آر جاری کرکے مناسب کارروائی کرے۔
لیکن ان تمام خرافات سے بہتر یہ بات ہوگی کہ اگر بات نہیں بن پارہی ہے اور زندگی کا گزارنا مشکل ہورہا ہے تو آپسی مفاہمت سے اور بزرگوں کی مداخلت سے معاملہ کی یکسوئی کرلی جائے۔ اسی میں فریقین کی بھلائی مضمر ہے ورنہ ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہی نتیجہ برآمد ہوگا اور عمرِ عزیز کا ایک بہترین عرصہ انہیں الجھنوں میں گزرجائے گا۔ ان معاملات میں فریقین کو فراخدلی سے کام لینا چاہیے تاکہ عمریں برباد نہ ہوں۔ عمرعزیز کے گزرے ہوئے دن واپس نہیں آتے۔ لہٰذا بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰