صرف ایک برادری حجاب پہننے پر زور دے رہی ہے، سپریم کورٹ جج کا ریمارک
وکیل دیودت کامت نے جواب دیا کہ اسکول میں کوئی بھی بے لباس نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ پر عدالت اور وکیل کے درمیان طویل بحث ہوئی۔ جسٹس گپتا نے یہ بھی ریمارک کیا یہاں یہ مسئلہ ہے کہ ایک برادری حجاب پر زور دے رہی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جسٹس ہیمنت گپتا نے آج تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے(کی اجازت) کیلئے بحث کرنے والے ایک وکیل سے کہا کہ آپ اس بحث کو غیر منطقی سرے تک نہیں لے جاسکتے۔ لباس کے حق میں بے لباس ہونے کا حق بھی شامل رہے گا۔
وکیل دیودت کامت نے جواب دیا کہ اسکول میں کوئی بھی بے لباس نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ پر عدالت اور وکیل کے درمیان طویل بحث ہوئی۔ جسٹس گپتا نے یہ بھی ریمارک کیا یہاں یہ مسئلہ ہے کہ ایک برادری حجاب پر زور دے رہی ہے جبکہ دیگر برادریاں ڈریس کوڈ پر عمل کررہی ہیں۔
دیگر برادریوں کے طلبہ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ پہننا چاہتے ہیں یا وہ پہننا چاہتے ہیں۔ جب دیودت کامت نے یہ کہا کہ کئی طلبہ رودرکش یا صلیب پہنتے ہیں جو مذہبی علامت ہے تو جج نے جواب دیا یہ چیزیں شرٹ کے اندر پہنی جاتی ہیں۔
کوئی بھی شرٹ اٹھاکر یہ نہیں دیکھے گا کہ آیا کوئی رودرکش پہنا ہوا ہے یا نہیں۔ عدالت میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چالنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت ہورہی تھی۔ ہائی کورٹ نے ریاست کے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے حجاب پہننے پر امتناع کو برخاست کرنے سے انکار کردیا تھا۔
جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشودھولیا پر مشتمل بنچ نے پیر کے روز معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا یہ مذہبی حق ہو۔ آپ جس طریقہ پر چاہیں عمل کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا آپ کسی اسکول میں اس پر عمل کرسکتے ہیں جہاں یونیفارم اس لباس کا حصہ ہوتا ہے جو آپ پہنتے ہیں۔
اس سوال پر کہ آیا دستور کی دفعہ 25 کے تحت حجاب پہننا ضروری عمل ہے‘ بنچ نے کہا تھا کہ اس میں تھوڑی سی ترمیم کی جاسکتی ہے۔یہ ضروری بھی ہوسکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔
ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آیا کسی سرکاری ادارہ میں آپ اپنے مذہبی طریقہ کار پر عمل کرنے پر زور دے سکتے ہیں کیونکہ دستور کے دیباچہ میں کہا گیا ہے کہ ہمارا ملک سیکولر ہے۔ قبل ازیں ہائی کورٹ نے رولنگ دی تھی کہ حجاب کوئی ضروری مذہبی عمل نہیں ہے جس کا دستور کے تحت تحفظ کیا جائے۔