مرغ و ماہی
یوسف ناظم
آدمی کا پیٹ، آدمی کے جسم کا سب سے طاقتور حصہ ہے۔ آدمی کا دل ودماغ اس کی گویائی اورسماعت اوراس کا ضمیر سب پیٹ کی رعیت ہیں۔ دنیا کے آدھے سے زیادہ جرائم کی بنیاد یہی پیٹ ہے۔ فلسفہ اورمنطق جیسے علوم کے علاوہ ادب اور شاعری بھی درد ِشکم ہی کی پیداوار ہے۔ آدمی کے اس پیٹ کے دیگر احوال یہ ہیں کہ یہ ہر قسم کے جانوروں، پرندوں، پھلوں اور ترکاریوں کا گودام ہے۔ ان اشیائے خوردنی میں یوں تو سبھی چیزیں آدمی کو بھاتی ہیں، لیکن ان میں مرغ و ماہی اس کے بڑے شوق کی چیزیں ہیں اور آدمی کی عمر کچھ ہی کیوں نہ ہو ان دو چیزوں کے دیدار ہی پرنہیں ان کے ذکر پر بھی اس کی رال ضرور ٹپکتی ہے۔
ان دنوں میں مچھلی کو بطور غذا فوقیت حاصل ہے، کیوں کہ یہ ہمیشہ نہاتی دھوتی رہتی ہیں جب کہ مرغ اتنا صفائی پسند نہیں ہوتا۔ مچھلیاں عادات و اطوار کے اعتبار سے بھی مضبوط کیریکٹر کی حامل مانی گئی ہیں۔ ان کے متعلق ایسی ویسی باتیں کبھی سننے میں نہیں آئیں۔ اس کے برخلاف مرغ (یہ عام طور پر واحد ہی ہوتا ہے) اور مرغیوں کی بے تکلفی بلکہ بے حجابی عام بات ہے۔ سچ پوچھا جائے تو اب صرف مچھلیاں ہی قدیم مشرقی تہذیب کی نام لیوارہ گئی ہیں۔ ان کی اسی خوبی اور اس خوبی کے علاوہ دیگر اوصاف حمیدہ کی بنا پر مچھلیوں کو جل ترکاری مانا گیا ہے (جل پری تو وہ ہوتی ہی ہیں) ترکاری جیسی معصوم اور بے ضرر صنف میں شامل کیے جانے کی وجہ سے ترکاری نوش لوگوں کے حلقے میں بھی مچھلی بے حد مقبول ہے بلکہ ساحلی علاقے کے لوگ اسی ایک زندہ اور فعال ترکاری کے شیدائی ہیں۔ وہ سیلابوں میں بہہ جانا پسند کرتے ہیں، لیکن مچھلیوں سے دور نہیں رہنا چاہتے۔
مچھلی اپنی شہرت کا خود انتظام کر لیتی ہے اور پکنے پر کسی میڈیا کی مدد لیے بغیر دور دور تک اپنی خوشبو پھیلائی ہے۔ اس کی خوشبو سونگھ کر پڑوس میں لوگ کفِ افسوس ملتے ہیں کہ ہم نے کیوں اتنے اچھے پڑوسیوں سے تعلقات بگاڑلیے۔ ہمارے تعلقات خوشگوار ہوتے تو ہم صرف اس خوشبو کے نہیں مصدرِ خوشبو کے بھی حق دار ہوتے۔ مرغ پر مچھلی کی فوقیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مچھلی سے نمٹنے کے لیے نقلی دانت نہیں بنوانے پڑتے۔ اس لحاظ سے مرغ کافی مہنگا پڑتا ہے۔ اہلِ زبان لوگ مچھلی ہی کو پسند کرتے ہیں۔ مرغ کے ساتھ ایک دقت یہ بھی ہے کہ ڈش سے مرغ کی ٹانگ نکل جائے تو ایسامعلوم ہوتا ہے کہ محفل کی شمع بجھ گئی، لیکن مچھلی کسی قسم کا غم انگیز ماحول نہیں پیدا کرتی۔ اس کا ہر حصہ بیت الغزل ہوتا ہے۔۔۔ سرتو مطلع ہوتا ہی ہے۔
مچھلی میں کانٹے ضرور ہوتے ہیں ،لیکن کانٹے تو گلاب کی شاخ میں بھی ہوتے ہیں اور یوں بھی مچھلی، بوقتِ طعام آپ کی پوری توجہ چاہتی ہے۔ اسے کھاتے وقت اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ویسے اعلیٰ ذات کی مچھلیاں بھی ہوتی ہیں جن میں کانٹے نہیں ہوتے۔ یہ مچھلیاں اعلیٰ ذات کے آدمیوں سے بہتر ہوتی ہیں۔ یہ کوئی ضرر نہیں پہنچاتیں۔ محبوباو¿ں اور شاعروں کو صرف ایسی ہی مچھلی کھانی چاہیے۔ شاعر کو اس لیے کہ اگر مچھلی کا کوئی نامعقول کانٹا ان کے حلق میں پھنس گیا تو وہ سمن کلیاں میں اپنا کلام کیسے بنا سکیں گے۔
مچھلیوں کے اوصاف کی فہرست میں ایثار اور قربانی کے جذبات بھی شامل ہیں۔ مچھلیاں غیر معمولی حد تک جاں نثار ہوتی ہیں، اس لیے ہر چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی کی غذا کے کام آتی ہے (مرغوں میں یہ وصف سرے سے معدوم ہوتا ہے وہ پیدائشی خود غرض ہوتے ہیں)
مچھلیاں ہمیشہ پانی پیتی ہیں، لیکن مرغ عام طور پر صرف ذبح ہوتے وقت پانی پیتے ہیں۔ زندگی میں بھی پیتے ہوں گے لیکن ان کی زیادہ توجہ کھانے ہی کی طرف ہوتی ہے۔ مچھلیاں پانی کے ذائقے کی بھی پروا نہیں کرتیں۔ وہ پانی سے افلاطونی عشق کرتی ہیں۔ پانی میٹھا ہو یا کھارا، وہ کسی بھی پانی کے ساتھ گزارا کر لیتی ہیں۔ یہ شرافت کی نشانی ہے اور مرغیاں ہیں کہ نمکین پانی کا ایک قطرہ نہیں سہہ سکتیں۔ شاید وہ جانتی ہیں کہ نمکین پانی سے صرف غرارہ کیا جاتا ہے۔
مچھلی بہت خاموش اور پرسکون شخص ہوتی ہے۔ یہ بولتی ہی نہیں۔ جانتی ہے اس نقارخانے میں کس کی آواز سنی جاتی ہے جو اس کی سنی جائے گی۔ مرغیاں اس معاملے میں دادوبیداد سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ بولے چلی جائیں گی۔ جس گھر میں مرغیاں موجود ہوں، اس گھر میں شور کے لیے بچوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مرغیوں کے شور سے بچنے کے لیے لوگ فلمی گانوں کے ریکارڈ اور لاو¿ڈاسپیکر کا انتظام کرتے ہیں۔ مرغیاں دوپہر کے وقت خاص طور پر بہت بولتی ہیں اور اونچا بولتی ہیں۔ کسی کو قیلولہ نہیں کرنے دیتیں۔
مچھلی کی برتری اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ مچھلی کا شکار ایک معزز شغل ہے۔ جب کہ مرغ کو پکڑنا شکار نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی حیثیت دال برابر ہوتی ہے۔
شرفاءمچھلی کے شکار میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کوئی مچھلی جلد نہ پھنسے۔ ان میں سے زیادہ شریف لوگ تو شام کے وقت خالی ہاتھ لوٹنا پسند کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے دوباسی مچھلیاں بازار سے خرید لیتے ہیں۔ یہ گھر میں داخل ہونے کا اجازت نامہ ہوتا ہے۔
صوری اعتبار سے بھی مرغیوں کے مقابلے میں مچھلیاں زیادہ قابلِ دید ہوتی ہیں۔ ان کی طرف نظر بھر کر دیکھا جاسکتا ہے۔ مرغیاں حسن وجمال سے محروم ہوتی ہیں اور دیکھنے میں بھی غذا ہی دکھائی دیتی ہیں۔ مرغیاں اور مچھلیاں دونوں پالی جاسکتی ہیں لیکن دل صرف مچھلیوں سے بہلتا ہے کیوں کہ پالی جانے والی مچھلیاں تو اور بھی مہ جبین ہوتی ہیں۔ یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ خوب صورتی ان پر ختم ہوجاتی ہے، لیکن ان میں سے چند واقعی مس ورلڈ ہوتی ہیں۔ قدرت نے ان مچھلیوں کے لیے نہایت بیش قیمت رنگ استعمال کیے ہیں۔ اور ان کے کئی دیدہ زیب ڈیزائن بنائے ہیں۔ ان کے برعکس ساری کی ساری مرغیاں ایک سی دکھائی دیتی ہیں اور ان میں سے کچھ تو صرف بھرتی کی ہوتی ہیں، لیکن مرغیوں میں یہ خوبی ضرور ہوتی ہے کہ یہ سب پرولتاری طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں بورڑوائی عادتیں نہیں ہوتیں۔ یہ اپنی رہائش کے معاملے میں بہت قناعت پسند ہوتی ہیں۔ انھیں شیشے کا گھر نہیں چاہیے۔ یہ بے چاری، جھانپ یا زیادہ سے زیادہ دیودار کے بوسیدہ تختوں سے بنے ہوئے ڈربوں پر اکتفا کر لیتی ہیں۔ رہائش کے علاوہ غذا کے سلسلے میں بھی مچھلیوں کے مطالبات بہت ہیں جو سب کے سب پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ڈوب مرتی ہیں۔
لذتِ کام و دہن کے علاوہ، مرغیاں اہل دانش کے غوروفکر کا بھی مرکز رہی ہیں اور مفکرین ہمیشہ اس فکر میں مبتلا رہے کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا۔ اس قسم کا ناجائز سوال مچھلیوں کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا گیا۔ (یہی تو عوامی طبقے کی مصیبت ہے)
مرغیوں کی ایک اور نفسیاتی الجھن جو زیرِ بحث رہتی ہے، یہ ہے کہ مرغی انڈا دیتے وقت انڈر گراونڈ کیوں چلی جاتی ہے۔ مرغیوں کی فطرت کا یہ تضاد کسی بھی دانشور کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نکتے سے یہ بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ کامپلیکس صرف انسانوں کی اجارہ داری نہیں مرغیاں بھی اس میں برابر کی شریک ہیں۔
مرغوں اور مچھلیوں کی جامیٹری لکھی جائے تو مچھلیاں افقی ہوتی ہیں اورمرغیاں عمودی، مچھلیاں کھڑی نہیں ہوسکتیں اور مرغیاں لیٹ نہیں سکتیں، لیکن اس فرق سے ان کو زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مرغیوں اور مچھلیوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ مرغیاں صدقے کے کام بھی آتی ہیں۔ مچھلیوں کو خیرخیرات کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ روایت کے خلاف بات ہے۔ اکثر گھروں میں حال حال تک یہ طریقہ رائج تھا کہ گھر کا بچہ شام کے وقت جب وہ مدرسے سے واپس آتا تو بچے کی والدہ دروازے ہی پر اس کے استقبال کے لیے کھڑی ہوئی ملتیں اور ان کے ہاتھوں میں ایک مرغی ہوتی، یہ مرغی بطور صدقہ اتاری جاتی۔ (والدہ بچے سے کبھی یہ نہ پوچھتیں کہ بیٹا آج تم نے کچھ پڑھا بھی۔ بس مرغی جان سے جاتی) جن والداو¿ں کا بس مرغی پر نہ چلتا وہ ایک انڈا ہی صدقے میں دے دیتیں، کیوں کہ انڈے میں خوبومرغی ہی کی ہوتی ہے۔ مرغیوں کے بارے میں اسی لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ تنہا جانور ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے بھی کھایا جاسکتا ہے۔
مرغیاں بظاہر کھلنڈری ہوتی ہیں لیکن ان میں ذمہ داری کا جذبہ کوٹ کوٹ کربھرا ہوتا ہے اورجب بھی کسی مرغی کو افزایش ِنسل کے کام پر مامور کیا جاتا ہے وہ دنیاوی مشاغل اور لہو و لعب سے کنارہ کش ہو کر پوری توجہ کے ساتھ یہ فرض انجام دیتی ہے اور کچھ ہی دنوں میں سارے گھر میں مرغی کے ڈیڑھ دو درجن بچے ہنستے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ان بچوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہمیشہ سر بلند پیدا ہوتے ہیں اور دنیا میں آنے کے لیے خود ہی راستہ ہموار کرتے ہیں۔ ان کی چونچ جو ٹھونگ کہلاتی ہے، انھیں تاریکی سے روشنی میں لاتی ہے۔ کیا تعجب آٹومیشن کا خیال یہیں سے لیا گیا ہو۔
ساری مخلوقِ خدا وندی میں سپیدہٓ سحر کا کوئی سچا عاشق ہے تو وہ یہی مرغ ہے۔ مرغ کی بانگ ہی اس کی نجات کا باعث ہوگی ورنہ اس کے کرتوت سب جانتے ہیں۔
مرغ ایمان کو تقویت پہنچاتا ہے، اسی لیے اہلِ دسترخوان صرف اسے جانتے اور مانتے ہیں جس پر مرغ موجود ہو اور اگر وہ مسلم ہو تو کیا کہنے۔ اہلِ ایمان لوگوں کے علاوہ مرغ تحتانی مدرسوں کے معلموں میں بھی بہت مقبول ہے۔ جب بھی انھیں مرغ کی یادستاتی ہے وہ کسی طالب علم کو مرغا بنا دیتے ہیں۔ غنیمت ہے کہ ذبح نہیں کرتے۔
٭٭٭