مذہب

مسجد میں تجارتی اشتہار

آپ نے اپنے گاؤں میں دو نکاح خواں حضرات کی باہمی رقابت کا جو ذکر کیا ہے، اگر وہ درست ہے تو افسوس ناک ہے، ان حضرات کو چاہیے کہ آپس میں آبادی کے مختلف حصوں کو تقسیم کرلیں اور اپنے اپنے حصے میں نکاح پڑھانے کا فریضہ انجام دیں،

سوال:- ہمارے گاؤں میں دو الگ اداروں کے قاضی موجود ہیں اور مثل ’’ دو تلوار ایک میان ‘‘ کے ایک قاضی صاحب نے قرآن کی آیات کو توڑ مروڑ کر دلیل بناکر دوسرے قاضی صاحب کی مخالفت کی مہم چھیڑدی ہے،

اور مساجد میں صرف خود کو عقد پڑھانے کے لیے مدعو کرنے کی گذارش و التجا کی ہے،

میرا سوال یہ ہے کہ کیا مساجد میں اس طرح کا اشتہار لگانا تجارت کے زمرے میں نہیں آتا کہ ’’ صرف ہمارے ذریعہ ہی عقد پڑھوائیں ‘‘ کیا یہ مسجد کی حرمت پر ضرب کاری نہیں؟ (صلاح الدین، محبوب نگر)

جواب:- آپ نے اپنے گاؤں میں دو نکاح خواں حضرات کی باہمی رقابت کا جو ذکر کیا ہے، اگر وہ درست ہے تو افسوس ناک ہے، ان حضرات کو چاہیے کہ آپس میں آبادی کے مختلف حصوں کو تقسیم کرلیں اور اپنے اپنے حصے میں نکاح پڑھانے کا فریضہ انجام دیں،

جہاں تک مسجد میں عقد پڑھوانے کے سلسلہ میں اپنی خدمات کا اعلان و اشتہار ہے، تو اس کا مقصود صرف نکاح پڑھانے کی پیشکش کرنا نہیں ہے، وہ اجرت مقصود ہے جو نکاح پڑھانے پر دی جاتی ہے، اور مسجد میں کوئی بھی ایسی بات کرنا جس کا مقصد تجارت کرنا ہو، درست نہیں ؛

چنانچہ مسجد میں خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے، اپنی ہی گم شدہ چیز کا اعلان باوجودیکہ تجارت نہیں ہے؛ لیکن چونکہ فی الجملہ اس کا بھی مقصود مال کا حاصل کرنا ہے؛

اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا ہے : نہی عن إنشاد الضالۃ فيالمسجد (ابن ماجہ، حدیث نمبر:۷۵۰) اس لیے مسجد کے اندر اس طرح کا اشتہار لگانا جائز نہیں ہے اور احترامِ مسجد کے خلاف ہے۔