مذہب

ایک تھائی خاتون کے قبول اسلام کی کہانی، سورہ یٰسین کا زندہ معجزہ پڑھ لیں

قرآنی آیات کی معجزانہ تاثیر دیکھیے کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون سورہ یٰسین کی آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ ام امینہ بدریہ کی ایمان افروز داستان قبول اسلام انہی کی زبانی سنیے۔

قرآنی آیات کی معجزانہ تاثیر دیکھیے کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون سورہ یٰسین کی آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ ام امینہ بدریہ کی ایمان افروز داستان قبول اسلام انہی کی زبانی سنیے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے والد کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا۔ وہ پیدائشی لحاظ سے مسلمان تھے لیکن عملی طورپر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا جبکہ میری والدہ بدھ مت کی تھیں اور والد صاحب سے شادی کے وقت مسلمان ہوئی تھیں۔

وہ دونوں بعد میں آسٹریلیاء آکر آباد ہوگئے تھے۔ میرا پیدائشی نام ( ٹے ٹی تھیا) Tanidtheeaتھا۔ میں نے یونیورسٹی آف نیو انگلینڈ، آرمیڈیل سے ایم اے اکنامکس کیا اور بزنس مارکٹنگ اور ہیومن ریسورسس کے مضامین پڑھے پھر میں بطور ٹیوٹر پڑھانے لگی۔ اسی اثناء میں شادی ہوگئی، شادی اسلامی قانون کے مطابق ہوئی۔ میرے شوہر کمپیوٹر گرافکس ڈیزائنر تھے۔ وہ شادی کے وقت مسلمان ہوئے تھے لیکن نام کے مسلمان تھے۔ اسلام پرہر گز عامل نہیں تھے۔

میرے والد بھی نام کے مسلمان تھے اور انہیں دین کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا نہ انہوں نے ہمیں کچھ بتایا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم بھی دین سے مکمل طور پر عاری تھے۔ میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں ملحد تھی۔ میں جب اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سال کاعرصہ گزار چکی تو ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ دنیا سے میرا دل اچاٹ ہوگیا اور میں پریشانی کی حالت میں تھی۔ اس پر میں نے سوچا کہ مجھے نماز پڑھنی چاہیے جیسا کہ میں نے ایک دفعہ اپنے والد صاحب کو کہیں پڑھتے ہوئے دیکھا تھا لیکن جب میں نے اپنے شوہر کو اس کے بارے میں بتایا تو اس نے اس بات کا بہت برا مانا۔

اس نے کہا ( نعوذ باللہ) کوئی اللہ واللہ نہیں ہے اور نہ نماز وغیرہ کچھ ہے۔ دریں اثناء میرے والدین وفات پاگئے تھے۔ تقریباً سات سال پہلے آسٹریلیاء کی نیو ساؤتھ ویلز اسٹیٹ کے شہر آرمیڈیل کی ایک چھوٹی سی مسجد میں گئی جو کہ غیرملکی مسلم طلباء کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ وہاں سے میں نے انگلش ترجمے والا قرآن مجید پڑھنے کے لیے مستعار لیا۔ یہ قرآن مجید خادم الحرمین شریفین الملک فہد بن عبدالعزیز آل سعود ( سعودی عرب) کی جانب سے شائع شدہ تھا۔

میں اسے گھر لے جاکر محض اس کی ورق گردانی (Flip)کررہی تھی کہ سورہ یٰسین کی ان آیات کا ترجمہ میرے سامنے آیا جن میں چاند اور سورج کی حرکت کے بارے میں سائنسی انداز میں بیان کیا گیا ہے ’’ اور سورج اپنی معین راہ پر گردش کررہا ہے، یہ اللہ عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کررکھی ہیں، یہاں تک کہ وہ ان سے گزرتا ہوا پھر کھجور کی سوکھی ٹہنی کی طرح ہوجاتاہے۔ نہ سورج کی یہ مجال کہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں گردش کررہے ہیں۔‘‘

یہ ترجمہ پڑھنا تھا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میرے جسم میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ میں نے سوچا کہ نبی ؐ آدمی تھے یعنی پڑھے لکھے نہ تھے لیکن اتنے بہترین سائنسی انداز میں جو آپ ؐ نے بیان کیا ہے تو ضرور ان پر اللہ کی طرف سے وحی ہوسکتی ہے۔ بس اس لمحے میرے دل کی دنیا بدل گئی اور میں نے اللہ کی کتاب قرآن عظیم الشان کا مطالعہ اور اس میں غور وفکر شروع کردیا۔ میں جب بھی اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتی ہوں پہلے اپنے سابقہ عمل پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتی ہوں اور پھر ان پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

میں قبول اسلام کے بعد مسجد میں جاتی رہی۔شروع شروع میں، میں پردہ نہیں کرتی تھی پھر جب نمازیوں نے مجھے بتایا کہ یہ گناہ ہے تو اسی دن سے میں نے اپنے گھر جاکر اسکارف لیا اور پہننا شروع کردیا، نیز اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کرنے لگی۔ میں نے خاصی کوشش کی کہ میں اپنے شوہر کو اسلام کے بارے میں قائل کرسکوں لیکن وہ نہ مانا حالانکہ میری اس سے بیٹی بھی پیدا ہوچکی تھی۔ آخر میں نے اس سے کہا کہ یا اسلام قبول کرلو یا مجھے چھوڑ دو۔ تب اس نے مجھے طلاق دے دی او رمجھ سے اور میری بیٹی سے دستبردار ہوگیا۔

دریں اثناء میں انٹر نیٹ پر اپنے ایک پاکستانی بھائی عبدالصمد سے چیٹنگ کرنے لگی اور ان سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی جو وہ مجھے وقتاً فوقتاً بہم پہنچاتے رہے۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ میں آسٹریلیاء سے اسلام کے لیے ہجرت کرلوں۔ میں نے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ اسلام لانے سے پہلے میری بیٹی کا نام (تو ان وارٹ) تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں اس کا نام تبدیل کرکے امینہ رکھ دیا۔میں نے اپنا نام غزوہ بدر کی نسبت سے بدریہ رکھا تھا، بیٹی کے حوالے سے میں ام امینہ کہلاتی ہوں۔

میں نے اپنی بیٹی کو آسٹریلیاء کے کسی اسکول میں بھجوانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہاں تعلیم میں موسیقی اور ان کے پرچم کے آگے ادب و احترام کے لیے مختلف افعال کی ادائیگی شامل تھی جو کہ مجھے پسند نہیں تھی، لہٰذا میں نے اپنی بیٹی کو اپنے گھر ہی میں اسلام کی ابتدائی تعلیم و تربیت دی ہے۔ آسٹریلیاء میں اکثریت عیسائی مذہب پر یقین رکھتی ہے لیکن الحمدللہ اب لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہورہے ہیں اور خاص طورپر خواتین بڑی تیزی سے اسلام کی طرف آرہی ہیں۔ چند خواتین نے مسلمانوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں۔

اکثر خواتین اپنے تحفظ اور احترام کے لیے اسلام کی طرف متوجہ ہورہی ہیں جو کہ صرف اسلام عطا کرتا ہے۔ آسٹریلیاء کے مسلمانوں میں اکثریت عمل سے دور ہے لیکن وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو قرآن اور سنت پر مکمل عمل کررہے ہیں لیکن مجھے بعض اوقات ایسے معلم علماء کے رویوں سے بہت دکھ ہوتا ہے جو اللہ کی خاطر حق بات نہیں کہتے بلکہ ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے آسٹریلیا کے اہل اقتدار کو خوش کیا جائے۔ مثلاً پچھلے دنوں ایک عالم دین سے انٹرویو کیا گیا تو اس نے یہ کہا کہ عراق میں جو مسلمان مررہے ہیں وہ شہید نہیں ہیں۔

آج ہم جہاد کے نام سے بھی ڈر رہے ہیں جب کہ عراق کے لوگ کوئی جارحانہ لڑائی نہیں لڑرہے ہیں بلکہ اپنی بقا کی جگہ لڑرہے ہیں او ریہ ان کا حق ہے کیونکہ ان پر جنگ مسلط کی گئی ہے۔ میں ہر چیز کے لیے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کرتی رہتی ہوں کہ اے اللہ تو میری رہنمائی فرما، اگر انسان اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ سیدھے راستے کی درخواست کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور اپنے بندے کی رہنمائی فرماتا ہے، لہٰذا میں ہر کام میں صراط مستقیم کے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی رہتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرماتا ہے۔

میں پاکستانی مسلمان عورتوں سے بھی کہوں گی کہ وہ اپنے دین کی طرف متوجہ ہوں۔ دنیا کی کچھ حیثیت نہیں ہے یہ چند روزہ زندگی ہے، اسے گزرہی جانا ہے، اگر یہ حقیقت سمجھ لی جائے تو مال، جائیداد، اولاد ان سب کی حقیقت انسان پر آشکارا ہوجاتی ہے۔ اس لیے ان کوچاہیے کہ صحیح معنوں میں اسلام کو بطور دین قبول کریں اور رسم و رواج سے ہٹ کر اس پر عمل کرنا چاہیے لیکن میں نے یہاں دیکھا ہے کہ اکثر عورتیں شرعی پردہ نہیں کرتیں۔

صرف رواجی پردہ کرتی ہیں جب گھر سے باہر نکلنا ہوتا ہے تو خوب پردہ کرلیتی ہیں لیکن گھروں میں نوکروں، دیوروں اور رشتے داروں کے سامنے پردے کا حق ادا نہیں کرتیں جس کا سارا گناہ ان کے ساتھ ساتھ ان کے شوہروں کو بھی ہوگا۔میں ان سے یہی کہوں گی کہ وہ اپنے اللہ کی طرف رجوع کریں۔ انشاء اللہ ان کا یہ عمل دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے اجر کا ذریعہ ہوگا۔
٭٭٭