نفسیات کتے کی!
ابو متین
ان دنوں کتوں کا بہت چرچا ہے۔ وہ بھی تو جاندار ہیں۔آخر کب تک انسانوں کا ظلم سہتے رہیں گے؟ کھلے میں دوڑنے،مرضی سے جب چاہے بھونکنے اورموڈخراب ہوجانے پر کاٹنے کی بھی آزادی ہونی چاہیے۔ بے زبان ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت انسان ان کی آزادی چھین لے۔ کتوں کو انسانوں کی طرح فلیٹس میں رہنے پر مجبور کیا جائے۔ کودنے اچھلنے اورحملہ کرنے کاان کو پیدائشی حق حاصل ہے۔ لوگ دو،تین بچوں پراکتفاکرکے رہ جاتے ہیں، اندرکی فطری محبت کتوں پر نچھاور کیے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کتا بہرحال جانور ہی توہے۔ کھیت کھلیان اورگھروں کی نگرانی کے لیے کتے پالے جاتے تھے۔ زمانہ الٹ گیا ہے، اب ان کے الّے تلّے کرنے اور چومنے چاٹنے اوراٹھائے پھرنے کے لیے کتے پالے جانے لگے ہیں، البتہ گرے ہاؤنڈ یا السیشن وغیرہ بڑے کتوں کی دیکھ رکھ کے لیے کسی نوجوان کوملازم رکھنا پڑتا ہے، اس کو چہل قدمی سے لے کر بسکٹ کھلانے تک کی ذمہ داری اداکرنی پڑتی ہے۔ان کو کتارکھشک کہاجاتا ہے۔ گاؤرکھشک کا مسئلہ دوسرا ہے، وہ گائے بھگت ہوتے ہیں۔ گائے کی خدمت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ گائے کے نام پر ماب لنچنگ کا فریضہ ادا کرنے پرمامور ہوتے ہیں۔ کتا ہوکہ گائے ان کو انسانوں سے برترپوزیشن مل رہی ہے حالاں کہ کتا بھکتی کاابھی دوردور تک امکان نہیں ہے جس روز اس کا فضلہ انسان کے لیے مفید قرار پائے گا، اس مبارک دن سے بھکتی شروع ہوجائے گی۔ تحقیق کرنے والوں کوابھی اس کی توفیق نہیں ہوئی ورنہ گائے کی طرح اس کے بھی وارے نیارے ہونے لگتے۔ گلیوں میں آوارہ کتوں کی چہل پھیل سے رونق رہتی ہے۔ دس تاپندرہ کا غول ہوتو ان کی ہمتیں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ کسی بھی ڈرپوک اجنبی سے پالا پڑجائے تو حملہ کرکے زخمی کردینا بلکہ اس کی روح کو جسم کی قید سے آزاد کردینا تک بھی آسان ہوجاتا ہے۔ آوارہ کتے مانند گلی بوائز کے بھونکنے میں زیادہ اور کاٹنے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں لیکن پرائیوٹ ملکیت میں پلنے والے اکیلا کتابھی درج فہرست غنڈہ بن کر ہراجنبی پرحملہ کرنے کے لیے پرتو لتا رہتا ہے۔ ڈیلیوری کے لیے آنے والے نوجوان اس قسم کے کتوں کا آسانی سے شکار ہورہے ہیں۔ جس ڈور (Door)کی گھنٹی بجاتی جاتی ہے اس کے قرب و جوار کا بھی دروازہ کھلا ہو اور کتااس قید سے آزاد ہونے کے لیے بے چین بھی رہتا ہوتو بس پھر اس ڈیلیوری بوائے کا خدا ہی حافظ۔ کتا غراّکا حملہ آورہوا اور ڈیلیوری بھول کر وہ نوجوان جان بچانے کہیں بھی کودنے پھلانگنے کی کوشش میں یانو اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے یا شدید زخمی ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اب اس میں کس کا کیاقصور۔ قیدوبند میں رہنے والے مجبور کتے کی کیاغلطی وہ نہ جانے کب سے اپنی فطرت کے خلاف جکڑا ہوا ہو۔ کھلا دروازہ اورآزادی کا نادر موقع۔کسی اجنبی کا یہاں کیاکام؟یہیں کتے کی نفسیات اپنا کارنامہ انجام دیتی ہے، اب بتائیے یہ کس کی غلطی ہوسکتی ہے۔
سنتے ہیں کہ کچھ موقعوں پرمجرموں اورپولیسی کی ملی بھگت ہواکرتی ہے۔ اسی طرح چوروں اور اچکوں میں بھی کتوں کے ساتھ اسی قسم کا کوئی سمجھوتہ پایا جاتا ہوگا ورنہ چوری یہاں وہاں انجام پاتی رہتی ہے، لیکن کتوں نے کبھی خلل ڈال کر چوری کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے کی خبر نہیں سنی گئی۔ بڑے پیمانے کی ڈکیتی میں سب سے پہلے نگران کتوں کو راستے سے ہٹانا ضروری ہوتا ہے۔ ان موقعوں پرکتے اگربھونکنے پر قابونہ رکھیں توسارا کیاکرایادھرا رہ جاتا ہے۔اس رِسک سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے ان کوٹھکانے لگانے کا جتن کیا جاتا ہے۔
کتوں کے بارے میں ”جتنے منہ اتنی باتیں“ کا مقولہ صادق آتا ہے۔وفادار توہر شخص کہتا ہے لیکن گالی میں اگرکسی کو کتے کے لقب سے نوازا جاتا ہے توکمینے سے کم کوئی دوسرے معنے نہیں ہوتے۔ لیڈروں کے پیچھے پھر نے والے چمچوں کو ”کتے کی طرح دم ہلاتے پھرتا ہے“ کہہ کر حسرت پوری کرلی جاتی ہے۔ اگرکوئی اچھی اور سچی بات کو تسلیم نہ کرے توکہاجاتا ہے ”کتے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ٹھہری۔“
آوارہ کتوں کے بچے اور انجان شخص پرحملہ کرکے نقصان پہنچانے کی خبریں اخباروں کی زینت بن رہی ہیں۔ ان بھوکے کتوں کا آبادیوں میں بے تحاشا بڑھ جانا یہی اس کا واحد سبب ہے۔ انسانوں کی نس بندی توکی جاتی ہے،کیوں کہ دین کی رہنمائی اورحکومتی پروپیگنڈے کے ٹکراؤ میں دین کوپس پشت کرکے خود غرضی اورسہولتوں کو سرآنکھوں پربیٹھادیاگیا ہے، لیکن ان کتوں کی آبادی پرکنٹرول کی کوئی نہیں سوچتا۔ کچھ لوگ کتوں کی چاہت میں اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ نہ صرف گود میں اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں بلکہ ان کا منہ چومنے میں بھی کوئی کراہت محسوس نہیں کرتے۔ کتوں کی بھوک و آوارگی اورکثرت نے یہ نئے گل کھلانے شروع کردیے لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ انسان صرف ایک کثرت کے بل بوتے پرکتوں سے کئی گنا زیادہ ظلم وزیادتی کی روش اختیار کرنے لگاہے۔ عسکری طاقت کی کثرت کی بنیاد پر کمزور ملکوں پر چڑھانی کرکے صفحہ ہستی سے مٹادینے کے درپہ ہورہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول آدمی کا پسندیدہ اصول بنتا جارہا ہے اورہاتھی جھومتااور ہلتا جھلتا جاتارہتا ہے، کتے اس کے اطراف گھوم پھرکربھونک بھونک کرہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ ہاتھی کوان بے چاروں پرذرہ ترس نہیں آتا۔ ٹھہرکر اپنی لاڈلی سونڈکرکوکام میں لاتے ہوئے ایک دو کو اٹھاکرخیریت ہی پوچھ لیتا توباقی سب بہت دیرتک اپنے حلق کی مدھرآوازوں سے ہاتھی کا انٹرٹینمنٹ کرتے نظرآتے۔
خالہ بلی سے کتے کی دشمنی ناقابل یقین ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دونوں ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہوں۔ بلی بے چاری مظلوم اوربے بس ٹھہری، وہ حملہ کرنے کے موقف میں نہیں ہوتی۔ کتا دورسے بھی کبھی دیکھ لیتا ہے تویوں دوڑتا ہے کہ اب اسے وہ کچا چبا کرکھاجائے گا۔ یہ محض چوہے بلی کا کھیل معلوم ہوتا ہے، لیکن چوہا آخر نوالہ تربن جاتا ہے، البتہ بلی کی نظروں کے ذریعہ چوہے کو مسمرائز کرنے کی عادت سے فائدہ اٹھاکر نفسیات کے ماہرین نے اس فن کو باضابطہ اختیار کرنا شروع کردیاتھا۔ نظروں کا جادو بلی کا رہین منت ہے۔
کتے کی قوت شامہ یعنی سونگھنے کی صلاحیت بے مثال ہوتی ہے۔ اس کی یہ صفت مجرموں کی کھوج لگانے میں کام آتی ہے، اس لیے محکمہ پولیس کی سراغ رسانی کا شعبہ کتوں کو مہمان بنائے رکھتا ہے۔ کہاں یہ ہماری گلیوں میں گھومنے والے آوارہ کتے کہ جن کوہرایک دھتکارتا رہتا ہے،کبھی بھولے سے بھی روٹی کا ٹکڑا ان کی طرف پھینکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کتے کو پیٹھ پیٹ کولگا ہوا مارے مارے پھرنے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہوتا۔ اگر اتفاقاً کسی کے سامنے یہ کتا آکر ٹھہر جائے تو اس کو بھگانے پتھر تلاش کرکے مارنے کے لیے پھینک ماریں تب بھی یہ کتااس پتھرکے پیچھے یوں لپکتا ہے،جیسے مارنے کے لیے پتھر نہیں بلکہ کھانے کی کوئی چیز اس کے لیے پھینکی گئی ہو۔ کیا خوبصورت پیام اپنے عمل سے دیتا ہے، کاش کوئی سمجھتا؟ ہمارے محلوں کے یہ بن بلائے مہمان ضرور ہیں، لیکن ہے خدا کی مخلوق۔ دوسری طرف سراغ رسانی کے فریضے میں لگے یہ سرکاری مہمان کتے ان کی خاطرومدارت اور رہن سہن کا ہم تصور بھی نہیں کرتے تبھی تووہ بہتر خدمت انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ ایک بارکسی کتے کو کھانے کی کوئی چیز اپنے ٹھکانے پردے دیں تووہ بس وہیں کا ہوجاتا ہے، پھر چاہے دوبارہ نہ دیں، پھربھی آپ سے ملاقات ہوتے ہی دم ہلاتے ہوئے ٹانگوں پربچھاجاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں جیسے گرجنے والے بادل برستے نہیں، لیکن یہ کوئی فارمولہ نہیں ہے کہ اس لکیر کے فقیرسے تجاویزنہ کرے۔ گلی میں جمع ہوکر بھونکنے والوں میں سے چند ضرور ایسے ناہنجار بھی ہوتے ہیں جو جارحانہ رویہ اختیار کرکے آوازکے ساتھ اچھلتے بھی جاتے ہیں۔ان کے اس انداز سے اچھے اچھوں کا پتہ پانی ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں ذرا شریف نظرآجائے تو حملہ کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ انسانوں میں کچھ لوگ ناک پرمکھی بیٹھنے پربھی کاٹ کھانے دوڑتے ہیں۔ دراصل صفراوی مزاج کی کرشمہ سازی ہواکرتی ہے۔ نک چڑھے کتوں میں بلڈاگ کی شکل بڑی خوف ناک نظرآتی ہے۔ چھوٹی اٹھی ہوئی ناک، شیرکا جبڑا اوربیل کا جثہ۔ اس کو ہم نے اپنے بچپن میں گاؤں کے دواخانے میں نئے ڈاکٹر کے پاس دیکھا تھا۔ گلی کی سٹرک کے سامنے حصے میں دھابہ تھا، اورپیچھے ہماری رہائش کے لیے کھپریل کا مکان۔ دھابے کے چند کمروں میں گاؤں کا پہلا دواخانہ آباد تھا۔ اطراف کے دیہاتوں سے بھی مریض یہاں آتے تھے، لیکن مجال تھی کہ بلڈاگ ان پرکبھی بھونکے۔
ہم بچے اکثراندرونی حصے سے ڈاکٹر صاحب کے پچھواڑے کے باورچی خانہ باتھ روم اورشہتوت وانار کے درختوں کی طرف جاتے۔ خادمہ وہاں ہوتی توہم قدم رکھ نہ پاتے، کیوں کہ ادھر جھانکنے بھی نہ دیتی تھی۔ دوپہر میں موقع دیکھ کر سیرکرنے چلے جاتے۔ کبھی کبھار بلڈاگ بھی چپکے سے آجاتا اور چولہے پررکھے دودھ کوزبان سے لپ لپ آواز کے ساتھ پیتا نظرآتا ہمیں اس کی صورت سے ہی خوف ہوتا، اس لیے چپکے سے سٹک جاتے۔
ایک دن ہم باہر سے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا چھوٹے کی بری طرح پٹائی ہورہی ہے وجہ دریافت کرنے پرپتہ چلا کہ کبھی ڈاکٹر جب رات کو شہر جاتے ہوئے بچا ہوا دودھ ازراہ مہربانی خادمہ سے بھیج دیا کرتے ہیں اور چھوٹے نے بلڈاگ کا واقعہ بیان کردیا تھا۔
یوں تو ہم نے کتے کی نفسیات پر چاند ماری کرنے کی سپاری لے رکھی ہے اور بہت حد تک حق ادا بھی ادا ہوگیا لیکن جہاں تک کتوں سے الرجی کا مسئلہ ہے یہ توخالصتاً ان دوپایوں (انسان)کی نفسیات کا مسئلہ ہے۔کچھ لوگ کتوں سے اس قدر خوف کھاتے ہیں کہ ان کودیکھتے ہی اندرسے ہل کر رہ جاتے ہیں، لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ وہ بیٹھا منڈی اٹھائے ہوئے آنے جانے والوں کودیکھ رہا ہوتا ہے تویہ ڈرپوک چپ چاپ راستہ بدل لیتے ہیں اوراگر یہ بیٹھا اپنی منڈی ٹانگوں میں دبائے آرام کررہا ہوتا ہے تو اس پرنظررکھتے ہوئے یوں چپ چاپ پیر دبائے اگر دم ہوتی توکہہ سکتے تھے کہ دم دبائے نکل جاتے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ کتاعموماً اکیلا ہوتو سرجھکائے رہتا ہے اوررہا معاملہ آرام کا تو اس کوسٹرک کے بیچوں بیچ آرام کرنے کا شوق ہوتا ہے، لیکن کیا کرے ٹرافک کی کثرت اس کو شوق پورا کرنے سے محروم رکھتی ہے، البتہ گلیوں میں ٹرافک کم ہوتی ہے تووہاں کتے کا یہ شوق آزادی سے پورا ہوجاتا ہے لیکن خوف کھانے والوں کی جان پر بن آتی ہے، کیوں کہ یہ سوچنے ہیں کہ ٹانگوں میں سے سراٹھاکرحملہ کرنے میں دیر ہی کیا ہوتی ہے؟ اس لیے کنارے سے سرجھکائے پیردبائے نکل جاتے ہیں۔
گھر میں بیوی سے خوف کھاکر سہمے سہمے رہنے والے حضرات کی بات ہی اورہے۔ وہ عموماً کتوں سے بے خوف ہوتے، لیکن بھونکتے کتے اور کتوں کے غول کو دیکھ کر ان کی سٹی بھی گم ہوجاتی ہے،ہاتھ پیرپھول جاتے ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سب مادہ ہوتی ہیں۔ کتیا کی ذات سے اعتماد ختم ہونے کی اصل وجہ اپنے گھر کی ہوم منسٹرکا دبدبہ دل ودماغ پرچھایا رہنا ہوتا ہے۔اگران کومذکرکتوں کا علم ہوجائے توڈرنے کی بجائے پچکارکرقریب جانے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ ان کو اپنی طرح منہ مرا خیال کرتے ہیں۔
بڑی بڑی فیکٹریوں جیسے ٹائراور ٹرکس وغیرہ بنانے والی کمپنیوں میں نہ صرف چار چھ کتے رکھے جاتے ہیں بلکہ ان کتوں کا ایک ٹریز (Trainer)بھی ہوتا ہے۔ گیٹ کے اندرونی حصہ میں ان کو کوارٹر بھی ہوتے ہیں۔انسانی واچ مین کی بہ نسبت حیوانی واچ مین ڈسپلن میں طاق ہوتا ہے، وہ کسی کے جھانسے میں آنے کے قابل نہیں ہوتا، اس لیے کتے کی قدرومنزلت عام واچ مین سے زیادہ ہوتی ہے۔لاڈو پیارکرنے اوران کی خدمت کرتے ہوئے پالنے پوسنے کے منشاء سے بھی کتوں کوساتھ رکھا جاتا ہے۔ اونچے طبقے کی خواتین پلنیز (Peknese)سفید بالوں والا یاوالی کتیا کو کار میں ساتھ لیے لیے پھرتی ہیں۔ملائم سفید بالوں میں چھوٹی پیاری یاپیاراکتابچوں کی طرح گود میں بٹھالیا جاتا ہے۔
ایک کار میں شوفرکے ساتھ پیچھے کی سیٹ پر پکینز کتیا اور اس کی مالکن بیٹھی ہوتی تھی۔ پولیس والے نے کار روک لی اور پولیس والے نے شوفرکو کاغذات کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں حاضر ہونے کی اطلاع دی۔ میڈم اپنی کار کا دروازہ اور کھڑکی اوپن کرکے نظارا کرنے لگیں تودوسرا پولیس والا قریب ہوکر بتایاکہ لوگ یہاں بلاوجہ کسی کو تکلیف نہیں دیتے لیکن…… میڈیم نے بھی اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے درمیان میں ٹوک کر یوں کہا ہاں مجھے بھی حیرت ہے کہ یہاں کبھی نہیں روکاگیا۔ آخر آج یہاں کیا نئی بات ہوئی ہے؟ پولیس والے نے بتایا ڈپٹی کمشنر مع اپنی بیوی اور کتے کے پولیس اسٹیشن کے سامنے کار روک کر خاص خاص کاروں کے کاغذات چیک کررہے ہیں۔ میڈیم نے کہا کسی کیس کی انکواری ہورہی ہوگی۔ ”پولیس والے نے آہستہ سے کہا صاب لوگ اپنی بیوی پر رعب ڈالنے کے لئے بھی ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ میڈیم مسکراکر رہ گئیں اتنے میں پہلے والا پولیس کا نسٹبل کارکے کھلے دروازے کی طرف آکرمیڈیم سے کہا آپ کوڈپٹی صاحب مع کتیا کے آنے کو کہا ہے۔ مجھ سے کیاکام؟ وہ سوالہ نشان بن کرر ہ گئیں کانسٹبل نے کہا ”خدا جانے“ اور وہ میڈیم معہ کتیا کوکارسے باہر نکلنے کا انتظار کرکے ساتھ لے گیا۔ پولیس اسٹیشن کے سامنے کار میں ڈپٹی کی بیوی معہ ڈاگ بیٹھے ہوئے تھے اور پولیس اسٹیشن میں شوفر ڈپٹی صاحب کے پاس جوں ہی میڈیم ڈپٹی صاحب کی کار کے قریب پہنچی دونوں طرف کے کتوں نے عجیب عجیب آوازیں نکالنی شروع کردیں۔ امید تویہ تھی کہ کتے اپنے نسلی سلوگن کے نعرے لگاتے یعنی بھوکنے کی شروعات کردیتے،لیکن میڈم کی کتیا بغیر ہچکچاہٹ کے بڑی آزادی سے کاروالے ڈاگ کے قریب پہنچی دونوں طرف سے یگانگت کی حرکتیں شروع ہوگئیں، ڈپٹی کی بیوی نے اپنے ڈاگ کوسیٹ سے اتاردیا۔ ایک دومنٹ کے لیے دونوں بے زبان اپنی ہم جنس یعنی نسل کتا ہونے پرایک دوسرے کے قریب آئے، سونگھنے کی کارروائی انجام پائی، یہ ایک ایسا منظر تھا کہ دونوں خواتین بھی ایک دوسرے کی پوزیشن اور موجودہ سچویشن پرتوجہ دیے بغیر بڑی دلچسپی سے کتوں کے منظر سے لطف اندوز ہوتی رہیں۔ انھیں لگ رہاتھا یہ نہ صرف دوپالتو کتوں کی دوستی نہیں بلکہ ڈپٹی کمشنر کی بیوی اور میڈم کی دوستی کی شروعات ہورہی ہے۔ اس لیے دونوں خواتین نے ایک دوسرے کی طرف مسکراکر وش کیااور حیرانی کا مظاہرا کرتے ہوئے چپ سادھ لیا۔لیکن اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا؟ یہ جانور ہیں اور ہر قسم کی جکڑبندیوں سے آزادبھی۔ ایک دوسرے میں غیر معمولی لگاؤ کے منظرسے دونوں بھی مہبوت رہ گئے تھے۔ بڑا دلچسپ منظر تھا اور دونوں تفریح اورمسرت کے موڈ میں سار ی توجہ ان کی طرف مرکوز کئے ہوئے تھیں۔ نراور مادہ کے مخالف جنس حیثیت کا احساس کرکے دونوں کے اندرطمانیت کا جذبہ انگڑائیاں لے رہاتھا۔ اتنے میں دونوں ایک ساتھ کارسے کودکرآگے اور پیچھے دوڑنے لگے۔ سٹرک کی دوسری جانب درختوں اورپودوں کی اوٹ میں گھس کرنظروں سے اوجھل ہوگئے۔ یہ واقعہ اس قدرتیزی سے رونما ہواتھا کہ یہ خواتین اندازہ ہی نہیں کرسکیں کہ یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔شوفرکاغذات تھا مے میڈم کے قریب آکر چلنے کی فرمائش کیا تواس کولگا ہاتھوں سے طوطے اڑگئے ہیں۔ ڈپٹی کی بیوی حیران وپریشان کارسے اترکردرختوں اورپودوں کی طرف دیکھنے لگی، لیکن وہاں ان کے سائے بھی نہ تھے۔ دوخواتین مل کر پولیس اسٹیشن کے اندرپہنچیں اورڈپٹی کمشنرسے کتوں کے فرار ہونے کا سانحہ بیان کیا۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا۔ میاں بیوی راضی توکیا کرے قاضی؟اس جواب پرخواتین ہکابکا رہ گئیں۔